قوم اب تک مشکل میں ہے۔ بحرانی کیفیت ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ بحرانی کیفیت کے ہاتھوں یہ ہوا ہے کہ مسائل شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ مسائل کی شدت میں اضافہ اُسی وقت ہوتا ہے جب ہم ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ سرِدست یہی کیفیت پوری قوم پر طاری ہے۔ مشکلات کے آگے ہتھیار ڈالنے کی ذہنیت اس قدر پنپ چکی ہے کہ اب اس سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
دوسری بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے بلکہ ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بحرانوں کے حوالے سے ہم انوکھے نہیں۔ آج کوئی بھی معاشرہ مختلف النوع بحرانوں سے مبرا نہیں۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے‘ ہر معاشرے کو اپنے حصے کی پیچیدگیاں ملی ہیں۔ ان پیچیدگیوں سے کماحقہ نمٹنے کی کوشش کرنے والے معاشرے ہی کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ترقی پذیر یا پس ماندہ معاشروں میں یہ تاثر عام ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں اول تو کوئی الجھن ہے ہی نہیں اور ہے بھی تو اسے الجھن کے درجے میں نہ رکھا جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر معاشرے کی اپنی آسانیاں اور اپنی مشکلات ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے تمام مسائل کو باہر رہ کر سمجھا نہیں جا سکتا۔ اُس معاشرے کا حصہ بنے ہوئے لوگ ہی اُن مسائل کو سمجھ پاتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایک طرف بہت سی آسانیاں ہیں تو دوسری طرف بہت سی الجھنیں بھی ہیں۔ ان الجھنوں سے صرف نظر ممکن نہیں۔ متوجہ ہونا ہی پڑتا ہے اور تدارک کی صورت بھی نکالنا ہی پڑتی ہے۔
آج ہم بہت سے اور متنوع مسائل میں گِھرے ہوئے ہیں۔ وسائل بہت کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں۔ عام آدمی کا ذہن ڈھنگ سے کام نہیں کر پارہا۔ ایک بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہن کو بروئے کار لانے کے خواہش مند افراد کی تعداد خاصی کم ہے اور اُس پر مسائل کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روز افزوں پیچیدگی! ایسے میں معاشرہ الجھتا ہی کیوں نہ جائے؟
سیاست‘ معیشت اور معاشرت ... تینوں ہی معاملات میں اس وقت ملک کو شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ اہلِ وطن کی اکثریت شدید ذہنی پیچیدگی کا شکار ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ معاملات کو کس طور درست کرے‘ ایسا کیا کرے جس کے نتیجے میں زندگی آسان ہو‘ غیر ضروری الجھنیں ختم ہوں اور اپنی مرضی کے مطابق مصروفِ عمل ہونے کی راہ ہموار ہو۔ عام آدمی کے ذہن کا بات بات پر اُلجھ جانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز ہے نہ مایوس کن۔ ہاں‘ یہ دکھ کی بات ضرور ہے۔ کوئی بھی مسئلہ اُسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب اُسے حل کرنے کی ذہنیت پائی جاتی ہو۔ مسائل دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور حل بھی کیے جاتے ہیں۔ مسائل کے حل کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب اُنہیں چیلنج کے طور پر لینے کی ذہنیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت البتہ بہت مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مسائل کو محض مسائل سمجھ کر اُن سے جان چھڑانے یا پھر اُنہیں نظر انداز کرتے رہنے کا چلن عام ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر لوگوں کے لیے جس طرح کی راہ نمائی کا اہتمام کیا جانا چاہیے تھا وہ بھی نہیں کیا گیا۔
ہمارے حالات مجموعی طور پر اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں برتا جانے والا تساہل معاملات کو مزید بگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔ ہم آج بھی بہت سے معاملات میں اپنے آپ کو اصلاحِ احوال کے لیے کماحقہ تیار نہیں کر پائے۔ جب سنجیدگی ہی نہیں پائی جائے گی تو تیار کیسے ہوا جائے گا؟ پاکستان جیسے معاشرے کے لوگوں کو اپنی پوری زندگی کا جائزہ لے کر نئے انداز سے جینے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ کسی بھی درجے میں سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں۔ بہت کچھ چھوڑنا ہے اور بہت کچھ اپنانا ہے۔ کوئی کچھ چھوڑنا چاہتا ہے نہ اپنانا۔ معاملات کو جوں کا توں رکھنے ہی میں عافیت محسوس کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ ہو ہی رہی ہیں۔ جب اصلاحِ احوال کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوا جائے گا‘ کچھ بامقصد کرنے کا ڈول نہیں ڈالا جائے گا تو سدھار کہاں سے آئے گا؟
پاکستانی معاشرے پر اصلاح احوال کے حوالے سے پُرعزم ہوکر میدانِ عمل میں نکلنا ایک مدت سے فرض ہے مگر اس فرض کو محسوس اور تسلیم کرنے والے خال خال ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت بہتری کی طرف جا سکتا ہے جب مجموعی طور پر سبھی تبدیلی چاہتے ہوں اور اس کے لیے کسی حد تک تیار بھی ہوں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ جو خسارے میں ہیں وہ بھی اپنا خسارہ کم کرنے کی خاطر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں اُنہیں کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے کیونکر تیار کیا جا سکتا ہے جو بظاہر مزے میں ہیں اور معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہونے کی صورت میں اُن کے مفادات پر ضرب پڑنے کا خدشہ نہ ہو!
بحران اب اس دنیا کا مقدر ہیں۔ افکار و اعمال کا تفاعل و تصادم معاشروں کو تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہر معاشرے میں کشمکش پائی جاتی ہے۔ مفادات کا ٹکراؤ معاملات کو دیکھتے ہی دیکھتے بلا واسطہ تصادم کی طرف لے جاتا ہے۔ مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ ہر معاشرے میں ہے۔ اس کی شکل مختلف ہو سکتی ہے‘ مکمل نجات ممکن نہیں۔ ہر معاشرے میں متعدد طبقات اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت فعال رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مختلف تنازعات بھی پیدا ہوتے ہیں اور بعض طبقات کے درمیان سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مقتدرہ اور سیاست دانوں کے درمیان سرد جنگ ایک زمانے سے جاری ہے۔
اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب ہمارے ہاں معاملات بتدریج ہی درست ہو سکتے ہیں۔ راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔ جب ملک کے بدخواہ ہر معاملے کو صرف اور صرف خرابی کی طرف لے جانے پر تُلے ہوئے ہوں تب معاملات درست کرنے میں بہت وقت لگتا ہے اور یہ عمل پائیداری بھی مانگتا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہر کوشش پوری تندہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ پاکستانی معاشرہ راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ سکتا ہے یا کوئی سیاست دان ملک کو بہتری کی طرف بہت تیزی سے لے جا سکتا ہے تو یہ محض سادہ لوحی ہے۔ ایسی سادہ لوحی سے کچھ نہ ہوگا۔ حقیقت پسندی کو شعار بنائے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
آج دنیا بھر کی معیشتیں شدید خرابیوں سے دوچار ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی الجھنیں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ اب اگر کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنی ہے تو بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا۔ اِس کے لیے جامع اور ہمہ گیر سوچ لازم ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ وصف فی الحال دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ سیاست بھی الجھی ہوئی ہے اور معیشت بھی۔ اِن دونوں شعبوں کا بگاڑ معاشرت کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے۔ عام آدمی پر مایوسی طاری ہے۔ وہ معاملات کو درست کرنے کے بارے میں سوچنا شروع ہی کرتا ہے کہ مایوسی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز ٹھکانے پر محسوس نہیں ہوتی۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جسے ہر اعتبار سے بالکل درست قرار دیا جاسکے۔ اور اس کا نتیجہ بھی ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اللہ نے جنہیں سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے نوازا ہے اُنہیں آگے بڑھ کر قوم کی راہ نمائی کرنی چاہیے۔ عوام کو یہ حقیقت سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بحران آتے رہیں گے۔ بحرانوں کا آنا پریشان کن سہی مگر اس سے کہیں زیادہ پریشان کن حقیقت ہے بحرانوں کو حقیقت کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار اور اُن سے نمٹنے کے معاملے میں پائی جانے والی بے دِلی و بے اعتنائی۔ زمینی حقیتوں کو نظر انداز کرکے کچھ بھی درست نہیں کیا جا سکتا۔ بحرانوں کے وجود کو تسلیم کرکے ہی اُن سے نمٹنے کی ذہنیت پروان چڑھائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ذہن سازی ناگزیر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved