تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-08-2013

اندھی رقابت کی بند گلی

دوستی کا مختصر دورانیہ ختم ہوا۔ پانی پھر اپنی پنسال میں آگیا ہے۔ مفاہمت، خیر سگالی اور دوستی کا ’’اِستثنائی‘‘ دور اختتام کو پہنچا۔ میڈیا کے شیر تازہ دم ہوکر کولوزیم میں نکل آئے ہیں اور مفاہمت کا ماحول غلام کی صورت اپنے مقدر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے! میاں نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے سے قبل بھارت سے دوستی کو پروان چڑھانے پر زور دیا تھا۔ دونوں ملکوں کے عوام یہی چاہتے ہیں مگر دوستی کی بات بھی بڑھک کے انداز سے کی جائے تو ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کی آنکھ کُھل جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں! میاں صاحب نے بھی دوستی کی بات خاصی عُجلت میں اور تیزی سے کہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خیر سگالی کے جذبے کی کوکھ سے اچھی خاصی تشویش نے جنم لیا۔ دونوں طرف ہی لوگ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ایسا کیا ہے کہ دوستی بڑھانے کو ہر شے پر ترجیح دی جارہی ہے اور وہ بھی اِس قدر عُجلت کے عالم میں۔ عبدالحمید عدمؔ نے اپنے مقطع میں کُلیہ سا بیان کردیا ہے۔ ؎ عدمؔ ! خُلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے سِتم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں! جن پر سَر پر مسائل کی گٹھڑی دَھری ہو وہ بوجھ کو مرحلہ وار کم کرنے کے بجائے گٹھڑی کو کسی نہ کسی طور اُتار پھینکنے کی سوچتے ہیں۔ یہ عُجلت پسندی ہی بنتے کام کو بھی بگاڑ دیا کرتی ہے۔ دو حکومتی ادوار اِس بات کے گواہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سارے بگڑے ہوئے کام راتوں رات دُرست کرنا چاہے اور جو کچھ دُرست حالت میں تھا اُسے بھی بگاڑ کی منزل تک پہنچادیا! ایک زمانے سے پاکستان اور بھارت اندھی رقابت کی بند گلی میں کھڑے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سیاست دان اور میڈیا پرسنز ایک دوسرے میں پائی جانے والی خامیاں اور کیڑے مُحدّب عدسے کی مدد سے تلاش کرکے منظرِ عام پر لاتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ ذلیل کرکے دِل کے لیے تسکین کا سامان کیا جائے۔ ایک کی خوشی کا مدار دوسرے کے غم پر ہے۔ مَسرّت درکار ہے تو فریقِ ثانی کی پریشانی کا انتظار کیا جائے! دِل کو خوش کرنے اور خوشی سے ہمکنار رکھنے کے ایسے ایسے فارمولے وضع کئے گئے ہیں کہ دُنیا دیکھے تو حیران رہ جائے۔ ایک زمانے سے حالت یہ ہے کہ جب بھی کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں شریک ہوتی ہیں تو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے بارے میں سوچنے سے زیادہ فریقِ ثانی کے بُرے حشر کی فکر لاحق رہتی ہے! بہت پہلے کی بات ہے۔ ہاکی کے ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں 12 ٹیمیں شریک ہوئیں۔ پاکستانی ٹیم گیارہویں اور بھارتی ٹیم بارہویں نمبر پر آئی۔ وطن واپسی پر پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان اور مینیجر نے کارکردگی کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا تھا اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہم بھارت سے بہرحال ’’برتر‘‘ رہے! کسی نہ کسی طور ’’برتری‘‘ پانے کی ذہنیت نے نہ صرف یہ کہ دم نہیں توڑا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم تر ہوتی چلی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ رہ رہ کر ہمیں یاد آتا ہے کہ ’’باوقار‘‘ قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طرح نیچا دِکھانا ہے! جہاں کامیابی کا معیار خود کو بلند تر کرنے سے کہیں بڑھ کر فریقِ ثانی کو نیچا دکھانا ہو وہاں بہتری کی امید رکھنا حماقت سے کم نہیں۔ ’’پاک دامن‘‘ میں میڈم نُور جہاں کے گائے ہوئے ایک گانے کے انترے میں یہ پُر اثر شعر شامل تھا۔ ؎ بند ہیں موت کی راہیں بھی اسیروں کے لیے جانے اِس قید سے اب کیسے نکلنا ہوگا! پاکستان اور بھارت کی بھی کچھ یہی کہانی ہے۔ روایتی حریف ہونے کے نام پر دونوں رقابت کے ایک رَسّی سے بندھے ہوئے ہیں جو کبھی کبھی اچانک زور پکڑ کر کسی ایک کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ پاک بھارت اندھی رقابت ایک ایسا گڑھا ہے جس میں بہت سا کچرا بے حد آسانی سے اور اِس یقین کے ساتھ پھینک دیا جاتا ہے کہ کوئی سوال اُٹھے گا نہ کچھ استفسار کیا جائے گا! یہ بھی زبردست تکنیک ہے۔ جنوبی ایشیا کی سیاست میں جب کوئی کھاتا کُھل جاتا ہے تو سب کچھ اُس میں پھینکا جانے لگتا ہے۔ لوگ آنکھ بند کرکے ہر اُس بات پر یقین کرلیتے ہیں جو اُن سے کہی جارہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی جماعت دہشت گردی کے حوالے سے بدنام ہو تو سب کچھ اُس کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ آپس کا پُرانا حساب بھی اِسی طریقے سے چُکتا کردیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے بھی یہی طریقہ اپنالیا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے، اندھی رقابت کے کھاتے میں کرتے رہیے۔ کس میں ہمت کہ ’’قومی سلامتی‘‘ کے معاملے پر کوئی سوال کرے یا اُنگلی اُٹھائے؟ سوچے سمجھے بغیر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے رہنے کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ کیا اِس روش سے کچھ بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اب تک تو اِس بے عقلی کی کوکھ سے کوئی مثبت رجحان ہویدا نہیں ہوا۔ اور اِس بات کی امید بھی نہیں کہ مستقبلِ قریب میں کوئی بہتری پیدا ہوگی۔ پھر کیا بہتر نہ ہوگا کہ حالات پر غور کیا جائے، تمام معاملات کا معروضی جائزہ لیکر حقیقت پسندی پر عملی حکمتِ عملی اپنائی جائے؟ زمانہ بدل چکا ہے۔ ہم کب تک ایک دوسرے کی تذلیل میں اپنی توقیر ڈھونڈتے رہیں گے؟ اندھی رقابت کی بند گلی میں ہمارا ماضی اور مستقبل دونوں بند ہیں۔ رہ گیا حال؟ تو وہ بے حال ہے! حقیقت پسندی ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے کی مخالفت پر کمر بستہ رہنا، ایک دوسرے کو گراکر آگے بڑھنے کی روش پر گامزن رہنا پرلے درجے کی حماقت کے سِوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت بنی ہے اور بھارت میں حکومت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ دوستی کا نعرہ اب ایک برانڈ نیم بن چکا ہے۔ فوجی ہو یا جمہوری، ہر حکومت اس دوستی کے لیے فضا بناتی ہے۔ دونوں ممالک کی طرف سے بیانات آتے ہیں۔ پھر کہیں سرحد پر ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے اور سب کچھ یکسر ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ دوستی کے سارے قصے ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں۔ نئی حکومت آ جاتی ہے وہ بھی یہی سلسلہ شروع کرتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ عجیب صورتِ حال ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیکر رقابت ترک کریں اور حقیقی دوستی اور محبت اپنائیں۔ اب تو ایک دوسرے کو قبول کرنے ہی کا آپشن رہ گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی اور آپشن ہو تو سامنے لائے۔ صرف مفاہمت اور رواداری ہی وہ سِکّہ ہے جو سفارت کاری کے بازار میں ڈھنگ سے کچھ خریداری کرنے کے قابل بناتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں مفاہمت اور رواداری ہی آگے بڑھنے کے راستے ہوا کرتے ہیں۔ ان راستوں کو اگر خاطر میں نہ لایا جائے تو نتائج بھی خاطر خواہ نہیں نکلتے۔ ویسے بھی اب نتائج کی پروا کس کو ہے۔ ایک دوڑ سی ہے جس میں سب بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ دائیں بائیں دیکھنے کا وقت جس کو میسر ہے وہ بھی بڑا خوش قسمت ہے۔ جو دائیں بائیں اس لیے نہیں دیکھتے کہ منزل سے نظر نہ ہٹ جائے وہ بھی عقل مند ٹھہرتے ہیں۔ ایسے میں کوئی کسی کو قصوروار کیوں ٹھہرائے؟ یہ بھی درست ہے کہ بے عقلی پر مبنی رقابت کو اپناکر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ملکوں کے عوام کا حق ہے کہ اُن کے اجتماعی مفاد کی خاطر اندھی رقابت ترک کی جائے، بند گلی سے نکل کر کُھلی فضا میں سانس لینے کی عادت ڈالی جائے۔ جنہیں بند گلی میں رہنے کی عادت پڑ جائے وہ کُھلی فضا کا مفہوم بھی بھول جایا کرتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہم ابھی اِس مقام تک نہیں پہنچے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved