دنیا کے سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ متعدد ممالک اپنے اتحاد پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ یہ بات امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ صدر بائیڈن کا یہ بیان روس اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی امریکی کشیدگی کے تناظر میں تھا۔ امریکہ کچھ عرصے سے ان ممالک کے خلاف دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے روس یا چین کے قریب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک کو اپنے ساتھ عالمی اور علاقائی اتحادوں میں شامل کرنے کے لیے مراعات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں دنیا کی صف بندیوں میں کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی طرف صدر بائیڈن نے اشارہ کیا ہے۔ لیکن امریکہ کی خارجہ پالیسی اور دنیا میں اس کی ساکھ کو صدر ٹرمپ کی وجہ سے جو نقصان پہنچ چکا ہے اس کی تلافی کے لیے امریکہ کو کافی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ امریکہ کے اعتبار کو دھچکا صرف صدر ٹرمپ کی نسل پرستانہ یا قوم پرستی کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں پہنچا بلکہ اس کی وجہ وہ جنگیں بھی ہیں جن میں امریکہ نے بطور سپر پاور اور بطور ایمپائر حصہ لیا ہے۔ تاریخ میں غلط جنگیں ہمیشہ مہلک ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بات ایمپائرز پر زیادہ صادق آتی ہے۔ ہیبسبرگ ایمپائر‘ جس نے وسطی یورپ پر سینکڑوں سال تک حکومت کی‘ کئی دہائیوں کے زوال کے باوجود شاید برقرار رہتی‘ اگر اسے پہلی جنگِ عظیم میں شکست نہ ہوتی۔ اس طرح اگرچہ سلطنت عثمانیہ کو انیسویں صدی کے نصف سے ''یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کہا جاتا تھا لیکن شاید یہ سلطنت کئی دہائیوں تک برقرار رہنے کی کوشش کرتی یا دوبارہ تشکیل پاتی اگر یہ پہلی جنگِ عظیم میں ہارنے والے فریق کا ساتھ نہ دیتی۔ امریکہ افغانستان اور عراق جیسی غلط جنگوں میں شریک ہو کر صرف رسوا ہی نہیں ہوا‘ بلکہ بطور سپرپا ور اس کی طاقت اور دبدبہ ختم ہو گیا۔ جو بچا کھچا بھرم تھا اس کو ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور لب و لہجے نے ختم کر دیا۔ روس نے بھی سلطنتوں کے زوال سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس کے امکانات موجود ہیں کہ یوکرین کی جنگ اس کے لیے ایک غلط اور مہلک جنگ ثابت ہو۔ چین نے اپنی سابقہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا اور تائیوان کے سوال پر طاقت کے استعمال کا اعلان کیا ہے۔ ایسا کوئی قدم چین کی سلطنت کے لیے بھی مہلک قدم ثابت ہو سکتا ہے۔اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکی مصنف رابرٹ ڈی کیپلین لکھتا ہے کہ جب ایمپائرز اور بڑی طاقتیں گرتی ہیں تو افراتفری اور جنگوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ آج چین‘ روس اور امریکہ کی کمزوری پر غور کرتے وقت تاریخ کے اس سبق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ عظیم طاقتیں اس سے بھی زیادہ کمزور ہو سکتی ہیں جتنی کہ وہ دکھائی دیتی ہیں۔مگر پالیسی کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے جس فکر مند دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے‘ یعنی المیے سے بچنے کے لیے سوچنے کی جو صلاحیت درکار ہوتی ہے‘ وہ آج کے بیجنگ‘ ماسکو اور واشنگٹن میں نظر نہیں آتی۔
دنیا کو اس وقت ایک متبادل قیادت کی اشدضرورت ہے۔ اگر آج کی کوئی ایک یا تمام بڑی طاقتیں ڈرامائی طور پر کمزور ہو جائیں تو ان کی سرحدوں کے اندر اور پوری دنیا میں انتشار بڑھ جائے گا۔ ایک کمزور اوربے یقینی کا شکار امریکہ یورپ اور ایشیا میں اپنے اتحادیوں کی مددکے قابل نہیں ہوگا۔ اگر کریملن کی حکومت یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے عوامل کی وجہ سے ڈگمگائی تو روس سابق یوگو سلاویہ بن سکتا ہے جو قفقاز‘ سائبیریا اور مشرقی علاقوں میں اپنے تاریخی علاقوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔ چین میں اقتصادی یا سیاسی بحران ملک کے اندر علاقائی بدامنی کو جنم دے سکتا ہے جس سے پورے خطے میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔
آج کی عظیم طاقتیں بے شک ماضی کی رومن اور عثمانیہ طرز کی سلطنتیں نہیں لیکن روس اور چین اپنا سامراجی ورثہ رکھتے ہیں۔ یوکرین میں کریملن کی جنگ کی جڑیں ان جذبوں سے جڑی ہوئی ہیں جو روسی اور سوویت سلطنتوں میں موجود تھیں اور تائیوان کی طرف چین کے جارحانہ ارادے ایشیا میں چنگ خاندان کی بالادستی کی جستجو کی بازگشت ہے۔ ریاستہائے متحدہ نے کبھی بھی باضابطہ طور پر بے شک اپنے آپ کو ایک سلطنت کے طور پر شناخت نہ کیا ہو لیکن شمالی امریکہ میں مغرب کی طرف سے پھیلاؤ اور کبھی کبھار سمندر پار علاقائی فتوحات نے انیسویں صدی میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو ایک سامراجی ذائقہ دیا اور جنگ کے بعد کے دور میں اس نے ایسا عالمی غلبہ حاصل کیا جو پہلے صرف سلطنتوں کو حاصل ہوتا تھا۔آج کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں عظیم طاقتوں کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے‘ جس میں ان کا انہدام یا کسی حد تک ٹوٹ پھوٹ کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مسائل ہر ایک کے اپنے اپنے اور مختلف ہیں لیکن ان سب کے وجود کو ایک ہی طرح کے چیلنجز در پیش ہیں۔ روس کو سب سے زیادہ خطرے کا سامنا ہے‘ یہاں تک کہ اگر یہ کسی طرح یوکرین کی جنگ میں غالب آجاتا ہے تو پھر بھی اس کو جی سیون اور یورپی یونین کی معیشتوں سے الگ ہونے کی معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس پہلے ہی یوریشیا کا بیمار آدمی سمجھا جا تا ہے‘ جیسا کہ سلطنت عثمانیہ کو سمجھا جاتا تھا۔جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کی سالانہ اقتصادی ترقی کم ہو رہی ہے۔ سرمایہ ملک سے بھاگ رہا ہے‘ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے کئی ارب ڈالر کے چینی بانڈز اور اربوں ڈالرز کے چینی سٹاک فروخت کر دیے ہیں۔ بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ ملک کی آبادی بوڑھی ہو گئی ہے اور اس کی افرادی قوت سکڑ گئی ہے۔ یہ سب مستقبل کے اندرونی استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایشیا سوسائٹی کے صدر اور آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کیون رڈ نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنی شماریات اور سخت کمیونسٹ پالیسیوں کے ذریعے اس مرغی کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا ہے جس نے 35 سال سے سونے کا انڈا دیا ہے۔ یہ سخت معاشی حقیقتیں اوسط چینی شہری کے معیارِ زندگی کو پست کر کے سماجی امن اور کمیونسٹ نظام کی حمایت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
امریکہ ایک جمہوریت ہے اس لیے اس کے مسائل زیادہ شفاف ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ کم شدید ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے وفاقی خسارہ ناقابلِ برداشت سطح کی طرف بڑھ رہا ہے عالمگیریت کے عمل نے امریکیوں کو متحارب حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ جو ایک نئی عالمی کائناتی تہذیب کی اقدار میں شامل ہو گئے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو زیادہ روایتی مذہبی قوم پرستی کی تہذیب کی خاطر نئی تہذیب کو مسترد کر رہے ہیں۔ پرنٹ اور ٹائپ رائٹر کے زمانے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اچھی طرح سے کام کرنے والی جمہوریت تھی لیکن ڈیجیٹل دور میں اس کی کامیابی کی وہ شکل نہیں رہی ہے‘ جس نے عوام میں غصے کو جنم دیا‘ جس کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کا عروج ہوا۔ امریکہ کو ماضی کی نسبت کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جن کا حل دنیا کی نئی صف بندیوں اور از سر نو تقسیم میں نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے تازہ امریکی بیانات کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved