اتوار کو قومی اسمبلی کے 8 اور پنجاب اسمبلی کے 3 حلقوں پر نہایت اہم ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات کو مبصرین کی جانب سے منی ریفرنڈم کا درجہ دیا جارہا تھا۔ ایک جانب پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں اور دوسری جانب اکیلے عمران خان۔ بادی النظر میں یہ عمران خان کے جارحانہ بیانیے اور حکومتی کارکردگی کے مابین معرکہ تھا اور ان انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر ہی ان دو باتوں کا قیاس کیا جاسکے گا کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور اگلے انتخابات میں کس جماعت کا پلڑا بھاری ہو گا۔ قومی اسمبلی کی آٹھ سیٹوں کے ان انتخابات میں سات نشستوں پر عمران خان نے خود انتخابی مقابلے میں حصہ لیا جبکہ آٹھویں نشست پر شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو قریشی، اپنے روایتی حریف گیلانی خاندان کے چشم و چراغ علی موسیٰ گیلانی کے مدمقابل کھڑی تھیں۔ تین صوبائی حلقوں کی بات کریں تو ان تینوں نشستوں کا تعلق پنجاب سے ہے جن کے نتائج پنجاب اسمبلی کی نمبر گیم میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ پنجاب حکومت کی تبدیلی کی افواہیں پہلے ہی زوروں پر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات کو رکوانے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی‘ دونوں نے ایڑ ی چوٹی کا زور لگایا۔ الیکشن کمیشن کو درخواستیں دی گئیں، پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک کا رخ کیا لیکن آخر کار الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ ملک میں سیلاب کی تباہی کے باوجود جن حلقوں میں انتخابات ہوسکتے ہیں‘ وہاں آئینی ضرورت کے تحت انتخابات کا انعقاد کرایا جائے یعنی الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے انعقاد سے اپنی رِٹ کے علاوہ آزاد ادارے کا تشخص بھی کامیابی سے منوایا۔
قومی اسمبلی کے جن 8 حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ان میں خیبرپختونخوا میں این اے 22 مردان، این اے 24 چارسدہ، این اے 31 پشاور جبکہ پنجاب میں این اے 108 فیصل آباد، این اے 118 ننکانہ صاحب، این اے 157 ملتان اور سندھ میں کراچی سے این اے 237 ملیر اور این اے 239 کورنگی شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے 3 حلقوں میں پی پی 241 بہاولنگر، پی پی 209 خانیوال اور پی پی 139 شیخوپورہ شامل تھے۔ پنجاب میں ایک ہزار 434، خیبرپختونخوا میں 979 اور کراچی میں 340 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے اور پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ ان انتخابات میں عمران خان کا سات نشستوں پر خود الیکشن لڑنا حکومت سے زیادہ طاقتور حلقوں کو پیغام دینے کی کوشش محسوس ہوتی ہے کہ میں جہاں سے چاہوں‘ الیکشن لڑسکتا ہوں، جیت سکتا ہوں اور باوجود اس کے کہ میں پارلیمنٹ میں واپس نہیں جائوں گا‘ تب بھی میرا ووٹر مجھے ووٹ ڈالنے گھر سے باہر نکلے گا اور مجھے کامیاب کرائے گا۔ عمران خان کے اس پیغام کا بنیادی مقصد یہی محسوس ہوتا ہے کہ بالآخر سیاسی معاملات پر ان سے بات کرنا ہی پڑے گی۔
دوسری جانب پنجاب کی حد تک ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ صوبائی و قومی اسمبلی کے انتخابات میں سر ے سے دلچسپی نہیں لے رہی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ جیسے اس کا صوبے میں کوئی سٹیک نہیں۔ نون لیگ کی کرائوڈ پُلر مریم نواز ضمنی انتخابات سے چند دن قبل ہی لندن جا چکی ہیں جبکہ حمزہ شہباز شریف کو وطن لوٹے تین ہفتے ہونے کو آئے ہیں‘ ان کی منی لانڈرنگ کیس سے بریت بھی ہو چکی ہے لیکن وہ جماعتی و انتخابی سیاست میں بالکل بھی فعال نظر نہیں آرہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف قومی سطح کے شدید چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ سیلاب، معاشی بحران، امن و امان اور پھر اہم تقرریوں جیسے معاملات نے ان کی توجہ اپنی جانب مرکوز کررکھی ہے۔ گزشتہ ضمنی انتخابات میں بدترین شکست بھی لیگی حلقوں کو یا د ہے، اس لیے وفاق کی حکمران جماعت فی الحال ان انتخابات میں مہمان کردار سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں لگ رہی۔
اب اگر انتخابی معرکے کی بات کریں کہ تو انتخابی مبصرین کا خیا ل تھا کہ تین نشستوں پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، دو پر کپتان کی جیت یقینی ہے جبکہ دو حلقوں میں جیت کا پلڑا کسی بھی جانب جھک سکتا ہے، جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ الیکشن کے دن کون سی جماعت زیادہ ووٹرز کو نکالنے میں کامیاب رہتی ہے۔ کانٹے کا ایک مقابلہ این اے 22مردان میں متوقع کیا جا رہا تھا جہاں عمران خان کو جے یو آئی اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوارمولانا قاسم کا سامنا تھا۔ یہ ان انتخابات کا سب سے زیادہ ٹف مقابلہ تھا۔ گزشتہ انتخابات میں اس سیٹ پر مولانا قاسم نے پی ٹی آئی کے علی محمد خا ن کو ٹف ٹائم دیا تھا اور محض 2250ووٹوں سے ہارے تھے۔ اسی طرح این اے 24چارسدہ میں پی ڈی ایم اور اے این پی کے مشترکہ امیدوار ایمل ولی خان سے عمران خان کے کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ گوکہ گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے فضل محمد خان نے یہ نشست 23 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی تھی لیکن اس دفعہ اے این پی کے مرکزی لیڈر ایمل ولی خان نے بہت جارحانہ قسم کی کمپین کی اور ووٹنگ سے قبل ہی اپنی جیت کے دعوے شروع کر دیے تھے مگر اب تک کے انتخابی نتائج عمران خان کی فتح کی غمازی کر رہے ہیں۔ این اے 31پر پی ٹی آئی کے چیئرمین کو پی ڈی ایم اور اے این پی کے مشترکہ امیدوار حاجی غلام احمد بلور کا سامنا تھا لیکن کچھ حلقے الیکشن سے قبل ہی اس سیٹ پر عمران خان کی جیت کے دعوے کر رہے تھے۔ پنجاب کی بات کریں تو این اے 108فیصل آبادپر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کونون لیگ کے عابد شیر علی کے سخت چیلنج کا سامنا تھا۔گوکہ فیصل آباد ڈویژن میں اس وقت پی ٹی آئی کا طوطی بول رہا ہے لیکن عابد شیر علی گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب سے صرف بارہ سو ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے، اس لیے لیگی حلقے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے حوالے سے پُرامید تھے۔ واضح رہے کہ یہاں ماضی کے برعکس اس بار انتخابا ت میں دونوں لیگی دھڑے، چودھری شیر علی اور رانا ثناء اللہ‘ یکجا نظر آئے مگر یہ اتحاد بھی نون لیگی امیداوار کو شکست سے نہیں بچا سکا۔ اسی طرح این اے 118 ننکانہ صاحب کے حلقے پر دلچسپ مقابلہ متوقع تھا جہاں سابق وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے نون لیگ کی شذرہ منصب علی کو 24 سو ووٹوں سے شکست دی تھی۔ اس حوالے سے کہا جارہا تھا کہ اگر نون لیگ الیکشن ڈے مینجمنٹ بہتر کرے اور پیپلزپارٹی کو ساتھ لے کر چلے تو وہ پی ٹی آئی کو سرپرائز دے سکتی ہے۔یہاں پر بھی ٹف مقابلہ ہوا۔ اگر کراچی کے ضمنی انتخابات کی بات کی جائے تو وہاں کے دونوں حلقوں کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ایک پر عمران خان کو ٹف ٹائم جبکہ دوسرے حلقے پر واک اوور مل سکتا ہے۔این اے 237پر تحریک انصاف کے چیئرمین کو پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ کا سامنا تھا اور ملیر کی اس نشست پر پی ٹی آئی کے جمیل احمد خان نے گزشتہ انتخابات میں صرف تیرہ سو ووٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ کراچی ہی کی دوسری نشست این اے 239 کورنگی میں کپتان کا مقابلہ ایم کیو ایم سے تھا لیکن ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم سے اس بار پی ٹی آئی فائدہ اٹھانے کی بھرپور پوزیشن میں تھی۔ البتہ گزشتہ انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار سہیل خواجہ صرف ایک ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ ملتان کی نشست کے مکمل نتائج سامنے آ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی کے علی حیدر گیلانی ‘ مہربانو قریشی کو شکست دے کر جیت اپنے نام کر چکے ہیں۔ عمران خان کو سات میں سے چھ نشستوں پر برتری حاصل ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین سیٹوں پر پی ٹی آئی دو نشستوں پر آگے ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ نتائج آئندہ کے سیاسی نقشے کی تشکیل میں اہم کردار نبھاسکتے ہیں۔ اگر عمران خان کلین سویپ کرتے ہیں تو چہار سو ان کا ڈنکا بجنے لگے گا اور اگر وہ سات میں سے تین نشستیں بھی ہار جاتے‘ (جس کا بظاہر اب کوئی امکان نہیں رہا) تو پھر ان کے بیانئے پر ڈینٹ پڑ سکتا تھا۔ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کے امتحان کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں کہ وہ خود کو ایک آزاد، مؤثر اور غیر جانبدار ادارے کے طور پر منواسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved