تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     17-10-2022

منافع ہی سب کچھ!

آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ ابھی اصل کساد بازاری تو آنی ہے اور اگلا سال یعنی 2023ء دنیا بھر میں معیشت کے حوالے سے برا ترین سال ثابت ہو گا۔ کورونا وبا کے دوران اور اس کے بعد یوکرین اور روس کی جنگ سے ہونے والی معاشی تباہی کے اثرات ایٹم بم کی طرح پوری دنیا میں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق دنیا کی طاقت ور ترین معیشتیں امریکہ ‘ چین اور یورپی یونین کا معاشی گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے۔ اس سے قبل 2008ء میں پوری دنیا عالمی معاشی بحران کا شکار ہوئی تھی اور اگلے برس عالمی معاشی گروتھ دو فیصدسے بھی نیچے آ جائے گی اور ایسا 1970ء کے بعد اب پانچویں مرتبہ ہونے جا رہا ہے۔پاکستان جیسے ملک‘ جس کی معاشی کشتی پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے‘ کو اب مزید طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ باقی کسر سیلاب نکال چکا ہے۔ پھر بھی کوئی رمق باقی رہ جاتی ہے تو وہ ڈالر کے جھٹکوں سے پوری ہو جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار جب سے وزیرخزانہ بنے ہیں‘ ڈالر لگ بھگ بیس روپے نیچے آ چکا ہے۔ گو کہ گزشتہ مالی ہفتے کے آخری دن اس کی قدر میں کچھ اضافہ ہوا اور اوپن مارکیٹ میں قیمت یکدم چار روپے بڑھ گئی مگر اسحاق ڈار کے آنے سے قبل ڈالر 240 روپے کے لگ بھگ تھا جو اب 218 کے قریب ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سابق دور میں بھی روپیہ قدرے مستحکم رہا تھا؛ تاہم پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جب ڈالر کی قدر میں بتدریج اضافہ ہونے لگا تو کہا گیا کہ نون لیگ نے ڈالر کو مصنوعی طور پر روک رکھا تھا۔ یہ مصنوعی طور پر روکنا اور حقیقی روکنا کیا ہوتا ہے‘ یہ تو معاشی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ محض سیاسی بیان بازی ہو تاکہ حریف کو کریڈٹ لینے سے روکا جا سکے۔ اسی طرح مارچ میں پی ٹی آئی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کئی ماہ کیلئے روک دیا تھا تو وہ بھی مصنوعی تھا اور جس کی گواہی بعد میں آئی ایم ایف کی رپورٹ میں نظر بھی آ گئی؛ تاہم اس طرح کے سیاسی بیانات اور اقدامات قوم کو کس قدر مہنگے پڑتے ہیں اس کا اندازہ شاید ان سیاست دانوں کو نہیں۔اس وقت اس ملک کو اگر سب سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ میثاقِ معیشت ہے۔ کچھ اصول یا نکات ایسے ہیں جن پر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کا اتفاقِ رائے ہو جانا چاہیے۔
یہ ملک ایک گھر کی طرح ہے۔ جس طرح کسی گھر میں آمدن کم ہونے سے تمام افراد متاثر ہوتے ہیں اور سبھی کو مل کر کچھ ایسے اصول و ضوابط بنانا پڑتے ہیں جن کے تحت گھر کا معاشی نظام اور دال دلیا آسانی کے ساتھ چلتا رہے‘ اسی طرح ملک میں جتنے بھی سٹیک ہولڈرز ہیں انہیں بھی کم از کم معاشی نکات پر یکجا ہونا پڑے گا۔ مسئلہ پھر وہی ہے کہ بہت سے سٹیک ہولڈرز کا جتنا پیسہ ملک کے اندرہے اس سے تین‘ چار گنا یا شاید اس سے بھی زیادہ ملک سے باہر ہے اس لیے وہ ملک کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ویسے بھی اگر ملکی معیشت درست سمت پر چل پڑے گی تو یہ سیاستدان کون سا منجن بیچیں گے۔پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں غربت‘ مہنگائی اور ان سے جڑے لاتعداد مسائل کے حل کے وعدے کر کے اور سہانے سپنے دکھا کر ہی تو عوام کے جذبات اور ووٹ خریدے جاتے ہیں۔اسی لیے یہ سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کو ترسا ترسا کر ہی ضرورت کی اشیا انہیں فراہم کرتے ہیں۔ انہیں بھی ان کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ ہر علاقے میں سیاسی جماعتوں کے گروہ غول در غول پھرتے ہیں۔ لوگ ان سیاست دانوں کو آزما آزما کر تھک گئے ہیں۔ بہت سے لوگ کسی چمتکار کے انتظار میں ہیں کہ کسی فلم کی طرح ایک دن کوئی مسیحا آئے گا اور چٹکی بجا کر ان کے مسائل حل کر دے گا۔ عوام میں اب صبر کا مادہ نہیں رہا۔ جہاں کسی سیاستدان یا حکومت کا قصور نہیں ہوتا‘ وہاں یہ خود سیاستدان اور حکمران بن جاتے ہیں۔ ٹریفک سگنل توڑنا ‘ قطار کی پروا نہ کرنا‘ غیر معیاری چیزیں فروخت کرنا اور ناپ تول میں کمی بیشی ہر طرف رچ بس گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پوش علاقے میں مقیم ایک دوست نے بتایا کہ ان کے علاقے میں چند روز قبل ہی ایک بڑا گروسری اور شاپنگ سٹور کھلا ہے۔ شروع میں تو انہیں بہت خوشی ہوئی کہ پہلے خریداری کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا لیکن ان کی یہ خوشی اس وقت کافور ہو گئی جب دو تین مرتبہ خریداری کرنے پر پتا چلا کہ وہاں نہ صرف اشیا کی قیمتیں زیادہ چارج کی جا رہی ہیں بلکہ وزن بھی کم رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے آدھے کلو پیکٹ والی کچھ دالیں خریدی تھیں۔ وزن کرنے والے الیکٹرانک سکیل پر چیک کیا تو ہر پیکٹ میں سو‘ ڈیڑھ سو گرام کم وزن نکلا۔ اسی طرح سرف وغیرہ کی قیمتیں مارکیٹ سے دس‘ پندرہ فیصد زیادہ لگائی گئی تھیں۔
ہمارے ہاں دنیا سے بالکل مختلف رواج ہے۔ امریکہ اور دیگر جدید ممالک میں آپ کوئی چیز خریدیں تو پسند نہ آنے پر لوٹاکے پورے پیسے واپس لے سکتے ہیں لیکن پاکستان میں آپ خریداری کے پانچ منٹ بعد سٹور میں واپس چلے جائیں تو اول تو سٹور ملازمین آپ کو پہچاننے سے انکار کر دیں گے۔بعد میں خاصی لے دے ہو گی اور خریداری کی رسید دکھانے پر بھی طرح طرح کے بہانے سننے کو ملیں گے۔ چار و ناچار چیز واپس کی جائے تو پیسے دینے کے بجائے کہا جائے گا کہ اتنی مالیت کا کوئی اور سامان خرید لیں۔ آج کل سیلاب کی وجہ سے بڑی تعداد میں کھجوروں کے درخت بہہ گئے ہیں۔ اس لیے مارکیٹ میں کھجوریں کم ہی دستیاب ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک بڑے سٹور سے کھجوروں کا ایک پیکٹ خریداتو قیمت چھ ماہ قبل کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ تھی۔ خیر گھر آ کر ڈبہ کھولا تو پہلی کھجور ہی خراب اور گلی سڑی نکلی۔ اگلی دیکھی تو وہ بھی ویسی ہی تھی۔ ڈبے پر تاریخ بالکل نئی ڈالی گئی تھی مگر نوے فیصد سے زائد کھجوریں خراب تھیں۔ سٹور والوں سے اگلے دن جا کر شکایت کی تو جواب ملا کہ اگرچہ کھجوریں خراب ہیں لیکن اب چونکہ ڈبہ کھل گیا ہے‘ لہٰذا ہم کھلا ہوا مال ہم واپس نہیں کرتے۔ اب انہیں کون بتائے کہ دنیا میں ابھی کوئی ایسا سافٹ ویئر یا ٹیکنالوجی نہیں ہے جو بنا دیکھے‘ بغیر کھولے ڈبے کے اندر پڑی چیزوں کے معیار کے بارے میں بتا دے۔ ویسے ایسی اگر کوئی ٹیکنالوجی ہو بھی تو ہمارے ہاں کے سیلز مین نے پھر بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنی۔ انہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ایک مرتبہ چیز بیچ دو‘ بعد میں دیکھا جائے گا۔ کسٹمر دوبارہ واپس نہ بھی آیا تو اگلا آ جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی ہے آنا جانا لگا ہی رہے گا۔ ویسے بھی یہاں کون سا قانون کا خوف ہے۔ کسٹمر چند سو یا چند ہزار روپے کی چیز کے لیے تھانے‘ کچہری یا عدالتوں کے دھکے تو کھائے گا نہیں۔
عالمی معاشی بحران تو پوری دنیا کو تنگ کرے گا لیکن ہمارے ہاں کسی عالمی معاشی بحران کی ضرورت نہیں۔ یہاں کا بیشتر تاجر طبقہ ہر طرح کا بحران پیدا کرنے کا ماہر ہے۔ اس کی ایک جھلک ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں نظر آ جاتی ہے کہ جب کھانے پینے اور ضرورت سے متعلق ہر شے کی قیمت کو آگ لگ جاتی ہے۔ دوسری جانب وہ غیر مسلم ہیں جنہیں ہم سارا سال برا بھلا کہتے نہیں تھکتے اور جو ہمارے بارے میں ایک جملہ بول دیتے ہیں تو ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے‘ وہی لوگ اپنے مذہبی تہواروں یعنی کرسمس وغیرہ کے موقع پر چیزیں انتہائی سستی کر دیتے ہیں۔ ڈینگی آ جائے‘ سیلاب آ جائے‘ ٹینٹوں اور ادویات کی طلب بڑھ جائے تو ہم سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسے مواقع پر سینکڑوں گنا منافع کیسے کمانا ہے۔ ویسے بھی ذخیرہ اندوزی تو ہمارا من پسند پیشہ ہے اور اب باقاعدہ رواج بن چکا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اسے نصاب میں شامل کر دیا جائے تاکہ نئی نسل عملی زندگی میں آنے سے پہلے ہی ان زمینی حقائق سے اچھی طرح واقف ہو جائے کیونکہ ہماری مارکیٹ، ہمارا بازار چل ہی ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے اصول پر رہا ہے اور سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی شخص دو بخار کی گولیوں کی تلاش میں تڑپ تڑپ کر جان ہی کیوں نہ دے دے‘ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز اپنے چند روپے کے منافع کو کسی طور ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved