تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     30-08-2013

خدشات

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں فرمایا کہ دونوں ملکوں کو بنیادی تشویش اس بات پر ہے کہ دونوں طرف کے عوام کو سکیورٹی میسر نہیں ہے اور دہشت گرد پاکستان اور افغانستان میں ہماری حکومتوں، ہماری سکیورٹی فورسز اور سپاہیوں کے ساتھ ساتھ ہماری سول آبادیوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاکستان آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کو آگے بڑھایا جائے تاکہ دونوں ملکوں میں امن بھی ہوسکے اور دونوں ملک انتہا پسندی کے خلاف مہم چلا کر ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل حاصل کرسکیں۔ کیسے مثبت اور اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے موصوف نے ۔ ہماری طرف سے بھی اسی نوعیت کی خیر سگالی کا مظاہرہ ہوا ہے اور وزیراعظم نواز شریف نے مذاکرات پر کافی وقت صرف کیا ہے۔ صدر کرزئی کے دورے میں ایک دن کی توسیع بھی ہوئی۔ پاکستان میں لوگ حامد کرزئی کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ موصوف نے بھارت کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے اور ہمارے عوام کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے زمانے میں پاکستان نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، خود ہمارا ملک دہشت گردی کا نشانہ بنا (میرا اشارہ ان بم دھماکوں کی طرف ہے جو ضیاء الحق کے دور میں ہمارے ہاں سوویت خفیہ ایجنسی KGBاور افغان خفیہ ایجنسی KHADکرواتی تھیں)اور پھر جہاد افغانستان کے نتیجے میں ہمارے ہاں کلاشنکوف کلچر آگیا۔ یہ سب کچھ جب ہم برداشت کررہے تھے تو بھارت، سوویت یونین کا ساتھی بناہوا تھا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اگر افغانستان کا کوئی لیڈر بھارت کی طرف جھک جائے تو ہمارے عوام اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہماری نئی حکومت نے جس انداز میں حامد کرزئی کی پذیرائی کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے عوامی جذبات کا بھی خیال نہیں رکھا اور ساتھ ہی ہمارا مذہب جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا‘‘، اس تعلیم کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اب تک ہمارا جو تجربہ ہے وہ تو یہی ہے کہ افغانستان کی طرف سے ہمیں کم ہی ٹھنڈی ہوا آئی ہے۔ اب ہماری حکومت ایسا تاثر دے رہی ہے کہ حامد کرزئی کی آمد ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے اور یہ کہ حامد کرزئی کی قیادت میں افغانستان اور پاکستان مل کر علاقے کے امن واستحکام میں معاونت کرسکتے ہیں۔ جب ہم حامد کرزئی صاحب کی شخصیت اور ان کے ماضی کے ریکارڈ پر غورکریں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح موصوف کی کسی بھی بات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کرپشن کے الزامات افغان صدر پر مسلسل لگتے رہے ہیں۔ افغانستان میں وارلارڈز کی پشت پناہی کا ذکر بھی موصوف کے حوالے سے ہوتا رہا ہے ۔ کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ کہنے کی حامد کرزئی کی عادت پر سنا ہے کہ ہمارے سابق صدر مشرف ان سے مستقل ناراض ہوگئے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ حامد کرزئی کوئی ایسی ادویات استعمال کرتے ہیں جن سے ان کے موڈ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جنرل مشرف کو غالباً اس بات کا پتہ نہیں ہوگا وگرنہ شاید وہ مستقلاً ناراض نہ ہوتے۔ تاہم یہ بات بھی طے ہے کہ بھارت کے حوالے سے حامد کرزئی کے مثبت رویے میں کم ہی کوئی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی دوائی کے اثرات بھی ہوسکتا ہے کسی سطح پر موصوف کے اپنے کنٹرول میں ہوں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی بہت بڑی ضرورت ہے اور اس ہمسایہ ملک میں مستحکم حکومت آنے کے بعد ہی ہم اپنے ہاں دہشت گردی کو ختم کرسکتے ہیں لیکن اس اہم کام کے لیے حامد کرزئی کے ساتھ مل کر چلنا بظاہر سودمند دکھائی نہیں دیتا۔ ایک استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو حامد کرزئی ہیں تو افغانستان کے صدر۔ اور موصوف کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ شخصیات کو الگ کرکے اس تناظر میں لینا چاہیے کہ یہ مذاکرات پاکستانی وزیرا عظم اور افغان صدر کے مابین ہوئے ہیں جن کے دونوں ملک پابند ہوں گے۔ بھلے یہ لیڈر منظر پر رہیں یا نہ رہیں۔ دلیل کے طورپر تو یہ بات کہی جاسکتی ہے مگر پاکستانی عوام کو اس دلیل سے قائل نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم لوگ اصل میں افغانستان کے حوالے سے اتنے دکھ اٹھاچکے ہیں کہ اب خوش امیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب تو یہاں اکثر لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ Durand Lineکو جوکہ اس وقت پاک افغان سرحد ہی کا درجہ رکھتی ہے، ہمیں سیل کردینا چاہیے اور افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ عوامی سوچ اگرچہ قابل عمل نہیں ہے تاہم اس سے یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ ہمارے لوگ اس صورت حال سے کس قدر بیزار ہیں۔ اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے کیا حکمت عملی ہونی چاہیے ابھی تک کوئی بھی حکومت ایسا لائحہ عمل نہیں دے سکی جو قابل قبول ہو۔ پانچ سال پورے کرنے والی حکومت کے دور میں بھی کوئی واضح افغان پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ حامد کرزئی کی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی بات چیت ہوئی۔وہ صدر زرداری سے بھی اس دورے کے دوران وقت نکال کر ملاقات کرگئے ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں۔ سوائے اس کے کہ مشرقی سرحد پر مسلسل بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ نواز شریف حکومت اس حوالے سے کیا کرنا چاہتی ہے اس بارے میں کچھ سامنے نہیں آیا ۔ تاہم حامد کرزئی کے دورے کو اس طرح اہمیت دینے سے اشارہ یہی ملتا ہے کہ افغان صدر کی قیادت میں گزشتہ عشرے میں افغانستان کی طرف سے جوکچھ ہوتا رہا ہے اور جوکچھ پاکستان نے بھگتا ہے اور بھگت رہا ہے اس کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی بات ہورہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ افغان صدر کے بھارت کی طرف جھکائو سے بھی ہماری نئی حکومت صرف نظر پر تیار ہے ۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورے سے پاکستان میں عوامی سطح پر بہتری کی کوئی امید کے بجائے محض خدشات ہی نے جنم لیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved