چند دن قبل دنیا ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام 'حسبِ حال‘ کی پھلجھڑیوں میں مست تھے کہ اچانکہ رات پونے بارہ بجے کے قریب نیوز الرٹ کا بگل بجنے پر الرٹ ہو گئے۔ اگلے ہی لمحے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف تقریر کرتے دکھائی دیے جبکہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کو ان کے ہمراہ بیٹھے کچھ کاغذات پر دستخط کرتے پایا۔ شہباز شریف صاحب قوم کو خوشخبری سناتے ہوئے بتا رہے تھے کہ تھر کے کوئلے تک ریلوے کی توسیع جیسے منصوبے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب نیتیں نیک ہوں تو وہ کام‘ جو کئی کئی سال تعطل کا شکار رہتے ہیں‘ مرکز اور سندھ کے باہمی اعتماد کی وجہ سے چند گھنٹوں میں حل ہو جاتے ہیں اور جس کا نظارہ ہم سب اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ (عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا) وہ مسئلہ جسے کوئی سننے کو تیار نہیں تھا‘ ہم نے چٹکی بجا کر حل کر لیا ہے اور اب تھر کا کوئلہ پاکستان میں جگہ جگہ پہنچایا جائے گا جس سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ تھر کوئلے سے ملکی معیشت بدلنے کی ایسی ایسی مثالیں دی گئیں کہ سننے اور دیکھنے والے اَش اَش کر اٹھے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن جب سے حکومتی ترجمانوں کے منہ سے بھارت سے تجارتی رکاوٹیں دور کرنے کی باتیں سننے کی مل رہی ہیں‘ نجانے عجیب عجیب سے خیالات کیوں آنے لگ پڑے ہیں۔ تھر کے کوئلے کے ساتھ بھی ماضی میں کچھ ایسی داستانیں وابستہ رہی ہیں۔ ان چیزوں سے کچھ خدشات بھی ابھرنے لگتے ہیں مگر ہم کوئی بدشگونی نہیں کرنا چاہتے اور ممکن ہے کہ یہ سب کچھ نیک نیتی سے ہی کیا جا رہا ہو۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ کرے کہ اس منصوبے سے خیر کی خبریں ہی سننے کو ملیں۔
یاد پڑتا ہے کہ تھر میں ہزاروں کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی کوئلے کی ان کانوں کا نام پہلی مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں سننے کو ملا تھا اور اس وقت بھی تھر کول کو پاکستان کی معیشت کا گیم چینجر قرار دیا گیا تھا۔ تھرکول سے بجلی کی پیداوار کا پہلا منصوبہ بے نظیر بھٹو نے ہی شروع کیا تھا۔2014ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے تھر کول منصوبے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا تھا۔ قوم کو بتایا گیا تھا کہ جیالوجیکل سروے کے مطابق تھر میں 175 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے جو قوم کی نسلیں سنوار سکتا ہے۔ اس کوئلے سے بجلی پیدا کر کے قوم کو نہ صرف سستی بجلی فراہم کرنے کی نوید سنائی گئی بلکہ کیمیکلز اور گیس وغیرہ کی تیاری اور ان کی فروخت سے اربوں ڈالر کمانے کے خواب بھی دکھائے گئے۔ اب حالیہ تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے وسیع تر روڈ نیٹ ورک، پُل اور ایئرپورٹ کی ضرورت تھی، حکومت سندھ نے سخت محنت کے بعد 75 کروڑ ڈالر خرچ کرکے تھر کا انفراسٹرکچر تعمیر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ میں سندھ حکومت کے 55 فیصد شیئرز ہیں جبکہ 45 فیصد شیئرز ایک نجی کاروباری ادارے کے ہیں۔ کوئلے سے 660 میگاواٹ بجلی کے پاور پلانٹ پر کام شروع کیا گیا تھا اور اس سال کے آخر تک اس پاور پروجیکٹ میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 2640 میگاواٹ ہوجائے گی۔ تھر کے کوئلے سے ساڑھے 12 ہزار گیگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے، تھر کول سے کھاد کی پیداوار کیلئے جب 'سائن گیس‘ تیار ہو گی تو 3 بلین ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ ہو گا، تھر کا کوئلہ اگر فی سال 70 میٹرک ٹن برآمد کیا جائے تو زرمبادلہ کی مد میں 4 بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ سی پیک کے تحت تھر میں ساڑھے 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 24 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے اور درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداواری قیمت 37 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے مگر تھر کول سے بجلی کی پیداواری قیمت 17 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنے گی۔ دسمبر 2022ء تک تھر کول بلاک ون سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، جس سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ محفوظ ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ درآمدی فیول پر چلنے والے بجلی کے کارخانے جب تھر کے کوئلے سے چلیں گے تو 1.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ ہوگا، سیمنٹ کے کارخانے جب تھر کے کوئلے سے چلیں گے تو اس سے ملک کا 2 ارب ڈالر زرمبادلہ محفوظ رہے گا۔وزیراعظم صاحب کا کہنا تھا کہ تھر میں ریلوے کی ٹرانسپورٹیشن کا نظام ایک انقلاب لے کر آئے گا، اور یہ کوئلے کا خزانہ جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو عطا کیا ہے، اگر اس سے سالانہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے تو یہ کوئلہ 300 سال تک بجلی پیدا کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، فلپائن سمیت دوسرے ممالک سے مہنگے داموں کوئلہ منگواتے ہیں، اس پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، تھر میں ریلوے کا مؤثر نظام بچھ جانے سے ہم سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی بچت کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ اس بار تھر کے کوئلے کو واقعتاً ملکی مفاد میں بروئے کار لایا جائے اور یہ منصوبہ کسی تنازع کا شکار نہ ہو۔
ایک دہائی قبل کی بات ہے کہ بھارت کے بڑے تجارتی گروپ ''ٹاٹا‘‘ اور ''بھارت ہیوی الیکٹریکل لمیٹڈ‘‘ نے تھر سے کوئلہ نکالنے والی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی تھی جسے ملکی اداروں کی مخالفت پر ملتوی کرنا پڑ ا۔ آج دس برس بعد جب سندھ اور مرکز میں ایک ہی قبیلے کے لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں تو تھر کے کوئلے کے حوالے سے نئے سکرپٹ کی تھیوریوں میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ یہ تاثر اس لیے پختہ ہوتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی گزشتہ14 سال سے حکومت میں چلی آ رہی ہے مگر اسے تھر کا خیال اب ہی کیوں آ یا ہے ؟ اور یہ منصوبہ تو بقول وزیراعلیٰ سندھ‘ بی بی شہید کے وژن کا حصہ تھا‘ پھر یوں تعطل کا شکار کیوں رہا؟ تھر کا کوئلہ ریکو ڈک کی طرح پاکستان کی قسمت اگر مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتا تو اس قدر ضرور کر سکتا ہے کہ ہم پر لادا گیا بوجھ مناسب حد تک کم ہو جائے لیکن اس کے لیے حکمت و تدبر کی ضرورت ہے۔ ''ٹام اور جیری‘‘ جیسا کھیل کھیلنے والی دو جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی سمجھ سے باہر ہے۔ کیا اب بھی مشرقی ہمسائے سے ماہرین بلائے جائیں گے جیسے 2012ء میں کیا جا رہا تھا؟ باخبر لوگ یقینا جانتے ہیں کہ 2009-12ء کے تین برسوں کے دوران سندھ کے تھر کول کے علا قے میں ایک غیر ملکی کمپنی سے فزیبلٹی سٹڈی یہ جانتے ہوئے بھی کرائی گئی کہ دفاعی نقطہ نظر سے اس علا قے کی بھارت کیلئے بہت اہمیت ہے۔ اگر بھارت کی براس ٹیکس سے اب تک کی جانے والی ہر فوجی مشق کو سامنے رکھیں تو زیادہ تر میں راجستھان اور سندھ کے ملحقہ علا قے میں ہوتی ہیں۔ جولائی2012ء میں پاکستان سے ایک20 رکنی وفد کو بھارت بھی بھیجا گیا تھا اور اس وفد کی سربراہی اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نے کی تھی۔ اس وفد کے دورے سے چند دن پہلے اس و قت کے صدر آصف علی زرداری کے ایک با اعتمادساتھی اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش ملانی نے بھارت کے کچھ دورے کیے تھے۔ جولائی میں پارلیمنٹری تجارتی وفد کے نام پر بھارت جانے والے وفد کا اصل مقصد کیا تھا‘ باخبر حلقوں سے پوشیدہ نہیں۔ 10 برس قبل یہ خبریں ایسے ہی تو نہیں پھیلی تھیں کہ متعلقہ کمپنی بھارتی اداروں کے ماہرین کو اس منصوبے کے لیے ترجیح دے رہی ہے۔ جب ملک میں اس کام کے حوالے سے اعلیٰ ماہرین موجود ہوں تو دوسرے ممالک بالخصوص مشرقی ہمسائے سے ماہرین بلانے کی کیا توضیح ہو سکتی ہے؟ اُس وقت پاکستانی فوج کی کور آف انجینئرز کے ایک میجر جنرل کی سربراہی اور سنٹر کول ٹیکنالوجی پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر کی معاونت سے ہمارے ملک کا ایک ادارہ پہلے سے ہی اس حوالے سے کام کر رہا تھا، پھر دس برس قبل تھر کوئلے کے اس پروجیکٹ کو بھارتی کاروباری گروپ کے حوالے کیوں کیا جا رہا تھا؟ یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ دفاعی نقطۂ نگاہ سے اس حساس ترین علاقے میں آج سے دس برس قبل غیر ملکی کاریگروں اور فنی ماہرین کی ایک علیحدہ بستی کیوں اور کس کے حکم پر تعمیر کرنے کی باتیں کی جا رہی تھیں؟ اگر تو تھر کا یہ کوئلہ صرف پاکستان کیلئے ہی مختص رہے گا اور اسے پاکستانی ماہرین کے ہی سپرد کیا جائے گا تو ہم سب کو اسے خوش آمدید کہنا چاہئے لیکن اگر وہی دس برس پرانی فائلیں کھولی جا رہی ہیں توپھر سب کا چوکنا ہونا ضروری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved