ضمنی انتخابات کے نتائج نے کسی نئی سیاسی حقیقت کو جنم نہیں دیا۔ سطح زمین پر موجود سیاسی حقائق اور چند فطری قوانین کی عمل داری کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ ہم اُن پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔ عمران خان صاحب کے لیے سیاسی عصبیت جنم لے چکی۔ اس کا پہلا ظہور پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ‘ انہوں نے یہ انتخابات کسی غیبی نصرت و تائید کے بغیر جیتے تھے۔ اب یہ دوسرا موقع ہے جب انہوں نے ایک انتخابی معرکہ محض اپنی قوتِ بازو کے زور پر جیتا۔ سب قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں ان کے خلاف متحد تھیں اور وہ ان کے مقابلے میں تنہا کامیاب رہے۔
اس موقع پر ٹرن آؤٹ کی بحث بے معنی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ اپنے ووٹرز کو متحرک نہ کریں۔ عمران خان کے لیے یہ ایک غیرسنجیدہ کھیل تھا جسے انہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ کھیلا۔ ان کو تو اس اسمبلی کاحصہ نہیں بننا‘ جس کی رکنیت کے لیے وہ لڑ رہے تھے۔ اور اگر بننا بھی ہوتا تو سات نشستوں میں سے چھ انہیں چھوڑنا پڑتیں۔ گویا ان کے لیے ہر پہلو سے یہ ایک غیرسنجیدہ عمل تھا۔ اس کے برخلاف ان کے مخالفین کے لیے اس کی سنجیدگی واضح تھی جو اگلے سال اگست تک اس اسمبلی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومتی اتحاد اپنی اس سنجیدگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔
یہ بھی عذرِ لنگ ہے کہ نون لیگ کی قیادت موجود نہ تھی۔ انہیں کس نے روکا تھا؟ مریم نواز کیا لندن کا سفر مؤخر نہیں کر سکتی تھیں؟ پھر دوسرے لوگ کہاں تھے؟ یہ سب بہانے دل کے بہلانے کے لیے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی سیاسی حکمتِ عملی نہیں تھی تو یہ آپ کی ناکامی ہے۔ نتائج تو مختلف عوامل کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ نتیجہ نکل چکا۔ اب کھمبا نوچنے سے کیا حاصل؟
2۔ عمران خان ایک کلٹ کا نام ہے۔ ان کے اکثر حامیوں کی خان صاحب سے وابستگی‘ کوئی سوچا سمجھا یا عقلی فیصلہ نہیں۔ سیاسی معنوں میں وہ اُن پر ایمان لا چکے اور ان کے ہر فیصلے کو قبول کرنے پردل و جان سے آمادہ ہیں۔ ان کو سچ جھوٹ‘ عقلی غیر عقلی سے کچھ غرض نہیں۔ ان کے لیے خان صاحب معیارِ حق ہیں۔ سات نشستوں کے لیے ایک فرد کا کھڑا ہونا عقل و خرد سے عاری فیصلہ ہے۔ محض کھیل تماشا اور قومی وسائل کا ضیاع۔ یہ ضیاع ابھی ختم نہیں ہوا۔ خان صاحب نے کسی ایک نشست پر بھی عوام کی نمائندگی نہیں کرنی۔ ان کے ووٹر نے ایک لمحے کو یہ نہیں سوچا کہ وہ ایک ایسے آدمی کو ووٹ دے رہا ہے جو ووٹ لینے سے پہلے ہی اسے ضائع کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ اندھے ایمان کی انتہا ہے۔ خان صاحب کا انتخابات میں حصہ لینا‘ اس حلف کی صریحاً خلاف ورزی بھی ہے جو الیکشن میں شریک ایک امیدوار اٹھاتا ہے اور اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ جب فرائض ادا ہی نہیں کرنے تو دیانت اور بدد یانتی کا کیا سوال؟
اس دوران میں بعض دیگر ایسے شواہد بھی سامنے آئے جن سے یہ واضح تھا کہ خان کا بیانیہ بے بنیاد ہے۔ 'رجیم چینج‘ کی حقیقت خود ان کی اپنی آڈیوکال سے معلوم ہو گئی تھی۔ صدر بائیڈن کا تازہ ترین بیان بھی اس باب میں فیصلہ کن ہے کہ امریکی انتظامیہ کو اس حکومت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ انتخابی نتائج بتا رہے ہیں کہ خان صاحب کے حامیوں کے لیے یہ سب باتیں بے معنی ہیں۔ دلیل سے‘ ان کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ کلٹ اسی طرح بنتے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا کہ کلٹ کی ایک عمر ہوتی ہے جو اس نے پوری کرنی ہے۔ یہ عمر عام طور پر طویل نہیں ہوتی۔ اس کا خاتمہ کسی دلیل سے نہیں ہو سکے گا۔
3۔ عمران خان کے خلاف عدالتی فیصلوں یا کسی حکومتی اقدام کا وقت گزر چکا۔ یہ کام ابتدا میں ہو سکتے تھے جب ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اب ان کی کوئی افادیت باقی نہیں۔ بھٹو صاحب کو جب ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے عوام سے رابطے کا فیصلہ کیا۔ ضیاالحق صاحب نے جب دیکھا کہ ان کے جلسوں میں عوام کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو انہوں نے ایک پرانی ایف آئی آر کی بنیاد پر بھٹو صاحب کو جیل میں ڈال دیا۔ بھٹو صاحب کی تحریک دم توڑ گئی۔ وہی ایف آئی آر انہیں تختۂ دار تک لے گئی۔ ضیا الحق دیر کرتے تو بھٹو صاحب کو قابو کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہتا۔
4۔ نیوٹرلز اور الیکشن کمیشن پر خان صاحب کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ عمران خان صاحب نے انتخابات کے دن‘ اپنی ٹویٹ میں نیوٹرلز اور الیکشن کمیشن کو بھی اس انتخابی معرکے میں ایک فریق قرار دیا تھا۔ نیوٹرلز نے خود کو انتخابی عمل سے الگ رکھا۔ الیکشن کمیشن نے بھی اپنا آئینی کردار نبھایا۔ خان صاحب کے نزدیک محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اسی لیے انہوں نے اُن اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لیے‘ اُن کوہدف بنا رکھا ہے اور یہ سلسلہ ان شفاف انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا۔
5۔ عمران خان نے مسلسل متحرک رہنے کی جو حکمتِ عملی اپنا ئی‘ وہ درست ثابت ہوئی۔ انہوں نے حکومت سے نکلنے کے بعد ایک دن ضائع نہیں کیا۔ عوام سے رابطہ رکھا۔ اپنے بیانیے کو مقبول بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور اس معاملے میں وہ اپنے سیاسی مخالفین سے کوسوں آگے دکھائی دیے۔ قانونِ قدرت کے تحت‘ ان کی محنت کو رائیگاں نہیں جانا تھا۔
6۔ تحریک انصاف کوئی جماعت نہیں‘ ون مین شو ہے۔ عام انتخابات میں‘ جب ہر حلقۂ انتخاب سے خان صاحب کے علاوہ کوئی امیدوار سامنے آئے گا تو لازم نہیں کہ اس کے لیے بھی یہی نتائج نکلیں۔ خان صاحب نے ہر حلقۂ انتخاب میں اپنا ووٹ بینک پیدا کر دیا ہے؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کھمبے کو کھڑا کریں گے تو وہ جیت جائے گا۔ الیکٹ ایبلز پر تحریکِ انصاف کا انحصار برقرار رہے گا۔
7۔ ہمارے انتخابی قوانین میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ ایک امیدوار کو پابند بنانا چاہیے کہ وہ ایک یا دو حلقۂ انتخاب ہی سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ وسائل کا ضیاع ہی نہیں‘ اس نظام کو مضحکہ خیز بنانے کے مترادف بھی ہے۔ اسی طرح ایک رکنِ اسمبلی حلف اٹھا لے اور اس کے بعد ایک دن بھی اسمبلی میں نہ آئے تو بھی اس کی رکنیت باقی رہتی ہے۔ اس قانون کو بھی بدلنا چاہیے۔ یہ دونوں قوانین ووٹر کے بنیادی حقوق کی پامالی ہیں۔
8۔ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی بھی ایک متحرک سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس نے تنکوں سے ایک آشیانہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ قومی اسمبلی کی دو نشستیں جیتیں۔ پنجاب سے ایک نشست کا جیتنا پیپلز پارٹی کے عام کارکن کے لیے حوصلہ افزا بات ہے۔ نون لیگ نے ثابت کیا کہ اس کا دامن کسی سیاسی حکمتِ عملی سے خالی ہے۔ نہ قیادت نہ کوئی تنظیم۔ جمعیت علمائے اسلام کی کارکردگی بھی غیر متاثرکن رہی۔
9۔ یہ الیکشن سیاسی بندوبست پر تو اثر انداز نہیں ہوں گے لیکن سیاسی فضا کو ضرور متاثر کریں گے۔ اس کا فائدہ خان صاحب کو ہوگا‘ اِلا یہ کہ نون لیگ کوئی مؤثر جوابی حکمتِ عملی تشکیل دے سکے۔ میں سرِ دست اس کا امکان دیکھ رہا ہوں نہ صلاحیت۔
یہ تو ان انتخابات کے سیاسی مضمرات ہیں۔ اب ایک سوال باقی ہے؟ کیا عوامی تائید کے اس مظاہرے کی بنیاد پر خان صاحب حکومت کو جلد انتخابات پر آمادہ کر پائیں گے؟ اتنا جلد کہ یہ وزیراعظم نومبر میں ہونے والی اہم تعیناتی نہ کر سکے۔ حکومت تو اس پر آمادہ نہیں ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ انتخابی نتائج کیا کامیاب مارچ کے لیے مہمیز بن سکیں گے؟ اس کا فیصلہ چند دن میں ہو جائے گا کہ نومبر ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved