اللہ کے محبوب،شافع محشر،حضرت محمدمصطفیﷺ دنیا کی زندگی میں بڑی مشکلات سے گزرے۔ غلبۂ دینِ حق کے لیے آپﷺ نے اور صحابہ کرامؓ نے اتنی بے شمار قربانیاں دیں کہ ہر واقعہ پڑھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آجاتے، رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ مشکلات کا مقابلہ ان اہلِ حق نے جس پامردی کے ساتھ کیا اس کی قدرافزائی ربّ کائنات نے خود فرمائی۔ ہر مشکل میں آسمان سے نصرت اتری، مقابلہ خواہ مسلح دشمنوں سے ہو یا حالات کی سنگینی کا سامنا ہو، اللہ نے اپنے نبیﷺ اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو کبھی بے یارومددگار نہ چھوڑا۔ غزوۂ احزاب میں خندق کی کھدائی سے لے کر دشمن سے نبردآزمائی تک ایک ایک لمحہ قیامت کا تھا۔ ربّ رحمن ان لمحات میں اپنی نصرت سے اہلِ ایمان کی مدد فرما رہا تھا، مشکلات کو آسانی میں اور حوصلوں کو بلندی میں تبدیل کررہا تھا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بیان کردہ کئی واقعات میں سے چند ذیل میں دیے جارہے ہیں۔
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ غزوۂ خندق کے دوران حضرت نعمان بن بشیرؓ کی بہن اور حضرت بشیر بن سعدؓ کی بیٹی کے ساتھ یہ ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میری والدہ حضرت عمرہ بنت رواحہؓ نے مجھے بلایا اور کہا: ننھی بیٹی یہ کھجوریں لے جاؤ اور اپنے باپ اور ماموں عبداللہ بن رواحہؓ کو دے آؤ۔ ایک کپڑے میں مٹھی بھر کھجوریں لے کر میں خندق کی جانب گئی۔ یہی میرے ابو اور ماموں کا دوپہر کا کھانا تھا۔
میں اپنے والد اور ماموں کی تلاش میں تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا،آپ ہمارے گھر میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: بیٹی ادھر آؤ، یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! یہ کھجوریں ہیں جو میری والدہ نے دے کر بھیجی ہیں کہ ان سے میرے والد اور ماموں پیٹ کی آگ بجھالیں۔ آپﷺ نے فرمایا: لاؤ یہ مجھے دے دو۔ میں نے کھجوریں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ہاتھوں میں ڈال دیں۔ آپﷺ کے ہاتھ ان سے پوری طرح نہ بھرسکے۔ بہرحال آپﷺ نے حکم دیا کہ دسترخوان بچھایا جائے اور دسترخوان بچھ جانے کے بعد آپﷺ نے کھجوریں اس پر بکھیر دیں۔ پھر آپﷺ نے کسی صحابی کو حکم دیا کہ سب لوگوں کو کھانے کے لیے بلالیں۔ بنتِ بشیر کہتی ہیں کہ میں یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اہلِ خندق دسترخوان پر جمع ہوگئے اور کھجوریں کھانے لگے۔ ایک جماعت کھا کر اٹھ جاتی اور دوسرے لوگ آکر کھانے لگتے یہاں تک کہ موقع پر موجود سب اہلِ خندق سیر ہوکر کھاچکے مگر کھجوریں ختم نہ ہوئیں۔ بخدا دسترخوان کے اطراف میں ابھی تک کھجوریں موجود تھیں جوکناروں سے گری پڑتی تھیں۔ (معجزاتِ سرورِعالمؐ، ص:17تا 22، بحوالہ سیرۃ ابن ہشام، مغازی للواقدی، البدایۃ والنھایۃ)
انصاری صحابہ کرامؓ کی یہ صفت قرآن وحدیث میں کئی مقامات پر بیان ہوئی ہے کہ وہ ایثار کرنے والے اور مشکلات میں دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دینے والے لوگ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ اگرچہ بہت مال دار نہیں تھے، مگر دل کے فیّاض اور انتہائی خدمت گزار تھے۔ آپؓ مشکلات کے باوجود مہمان نوازی کا حق ادا کرتے تھے۔ بابائے تاریخِ اسلام ابن اسحاق، حضرت جابرؓ بن عبداللہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابرؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خندق کی کھدائی میں مشغول تھے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک چھوٹی سی لاغر بکری تھی۔ انہوں نے سوچا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافی دنوں سے کچھ نہیں کھایا‘ کیوں نہ یہ بکری ذبح کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافت کا اہتمام کیا جائے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں: میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آٹا گوندھ لے۔ چنانچہ اس نے آٹا گوندھ کر روٹیاں پکائیں۔ میں نے بکری ذبح کی اور حضور اکرمﷺ کی خاطر ہم نے گوشت بھون لیا۔ جب شام ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کی جانب جانے لگے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ہمارے پاس ایک بکری تھی۔ آج ہم نے اسے ذبح کیا ہے اور روٹی بھی پکائی ہے، آپﷺ ہمارے گھر تشریف لاکر ہمیں شرف میزبانی بخشیں۔ میرا ارادہ تو صرف حضور کریمﷺ ہی کو مدعو کرنے کا تھا، مگر آپ جانتے تھے کہ بیشتر اہلِ خندق آپﷺ کی طرح بھوک کا شکار تھے۔ چنانچہ جوں ہی میں نے دعوت دی، آپﷺ نے دعوت قبول فرمائی اور کسی پکارنے والے کو کہا کہ سب لوگوں کو آواز دے کر کہہ دو کہ عشائیے کے لیے جابرؓ بن عبداللہ کے گھر پہنچ جائیں۔
میں نے دل میں اِنَّا لِلّٰہ پڑھا کیونکہ طعام تو بہت ہی قلیل تھا اور صحابہ کرام کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بہرحال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ میرے گھر میں تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم نے کھانا آپﷺ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ آپﷺ نے اللہ کا نام لیا، اس مختصر سے طعام کے لیے برکت کی دعا کی اور کھانا کھایا۔ لوگ باری باری کھانا کھانے کے لیے آتے رہے اور سیر ہو کر کھاتے رہے۔ کئی نشستوں میں لوگوں نے کھانا کھایا یہاں تک کہ اہلِ خندق کا پیٹ بھر گیا۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے بھی خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ (معجزاتِ سرورِ عالمؐ، ص: 73 تا 74، بحوالہ صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امام بخاری کی روایت ہے : حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں بھوک کی وجہ سے کئی مرتبہ نڈھال ہوکر زمین پر گر جایا کرتا تھا اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے صحابہ کرامؓ کا گزر ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے۔ میں نے ان سے قرآنِ مجید کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے یہ سوال محض اس لیے کیا تھا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے جاکر کھانا کھلا دیں گے۔ عموماً وہ مجھے کھانا کھلا بھی دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے (اس روز) کھانے کی دعوت نہ دی (ان کے گھر میں بھی فاقہ تھا)۔ پھر حضرت عمرؓ کا وہاں سے گزر ہوا۔ ان سے بھی میں نے ایک آیت کے بارے میں پوچھا۔ میرا اب بھی خیال یہی تھا کہ عمرؓ اپنے معمول کے مطابق مجھے کھانا کھلادیں گے۔ انہوں نے بھی دعوت نہ دی (ان کے ہاں بھی فاقہ ہی تھا)۔ اس کے بعد ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے گزرے اور مجھے دیکھ کر تبسم فرمایا۔ آپﷺ سمجھ گئے کہ میرے دل میں کیا ہے اور میرا چہرہ کیا بتا رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: یا اباھرّ! میں نے عرض کیا: لبیک یارسول اللہﷺ۔ فرمایا: آؤ میرے ساتھ آؤ۔ میں آپﷺ کے ساتھ چلا، آپﷺ گھر میں داخل ہوئے، پھر مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ گھر میں دودھ سے بھرا ہوا ایک پیالہ پڑا تھا (کوئی انصاری صحابی تحفہ دے گئے تھے)۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ دودھ کہاں سے آیا؟ آپﷺ کے گھر والوں نے بتایا کہ فلاں مرد یا فلاں عورت نے ہدیہ بھیجا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: اباھرّ! میں نے عرض کیا: لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! فرمایا: اصحابِ صفہ کے پاس جاؤ اور ان سب کو بلا لاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے: اکثر اصحابِ صفہ اسلام کے سپاہی اور اللہ کے مہمان تھے، ان کا کوئی گھربار تھا، نہ اہل وعیال۔ وہ دنیا کمانے کی فکر کرتے نہ مال کی ہوس رکھتے تھے۔ وہ طالبانِ علم اور مجاہدین فی سبیل اللہ تھے۔ آپﷺ کے پاس اگر صدقے کا مال آتا تو پورے کا پورا اصحابِ صفہ پر خرچ کردیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے اور اگر ہدیہ آجاتا تو اصحابِ صفہ کو بھی دیتے اور خود بھی اس میں سے حصہ لے لیا کرتے تھے۔
جب آپﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں اصحاب صفہ کو بلانے چلا تو گیا مگر میں نے سوچا کہ اس دودھ سے اصحابِ صفہ کا کیا بنے گا؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ دودھ پلا دیتے، میں تو سیر ہوجاتا۔ خیر سب اصحابِ صفہ آکر بیٹھ گئے۔ آپﷺ بھی تشریف لے آئے اور مجھے حکم دیا کہ بسم اللہ پڑھ کر ان کو دائیں سرے سے پلاناشروع کردوں۔ ایسے مواقع پر تقسیم کرنا ہمیشہ میری ہی ذمہ داری ہوتی تھی۔ میں نے پلانا شروع کیا تو خیال آیا کہ یہ دودھ میری باری سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا۔ تمام صحابہ نے خوب سیر ہو کر پیا۔ سبھی لوگ پی چکے تو میں پیالہ لے کر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پہنچا۔سب سے آخر میں آپ نے مجھے پلایا اور پھر خود پیا۔ (صحیح بخاری)
قارئین محترم! اوپر بیان کردہ معجزات بہت عظیم ہیں لیکن ان سے عظیم تر بات یہ ہے کہ محمدعربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے سامنے یہ عملی نمونہ پیش کیا کہ اختیارات ملنے پر صاحبِ اختیار کو اپنی رعایا کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ اگر یہ چیز امت مسلمہ کے اندر اسی طرح موجود رہتی، جس طرح خلفائے راشدینؓ نے آنحضورﷺ کے اسوۂ حسنہ سے اخذ کی اور اس پر مکمل عمل کیا تو ہم پوری دنیا میں سب سے بلند وبالا ہوتے۔ آج بدقسمتی سے ہم ساری دنیا میں پست ترین شمار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سنتِ مطہرہ اور شریعت اسلامیہ سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ہے۔
بُجھی عشق کی آگ‘ اندھیر ہے
مسلماں نہیں‘ راکھ کا ڈھیر ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved