کامیابی کسی ایک عامل کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی۔ بہت سے معاملات اور عوامل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ کامیاب پروفیشنل اپروچ یہ ہے کہ جو کچھ مارکیٹ میں چل رہا ہے اُس سے واقف رہا جائے تاکہ چلنے والی اشیا و خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔ اِس سے ایک قدم آگے جاکر یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ایسا کیا ہے جو مارکیٹ میں نہیں ہے؛ تاہم اُس کی خواہش پائی جاتی ہے۔ یعنی خواہشات کا درجہ رکھنے والی اشیا و خدمات پیش کرنے کا دماغ ہونا چاہیے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کی خواہش رکھنے والے ادارے تحقیق پر بہت زور دیتے ہیں۔ کاروباری اداروں کی تحقیق اخلاقی اصولوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ وہ صرف منافع کا سوچتے ہیں۔ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ جہاں کروڑوں، اربوں روپے داؤ پر لگے ہوں وہاں صرف اور صرف اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ جو سرمایہ لگایا گیا ہے وہ منافع کے ساتھ کیونکر واپس آئے گا۔ دیکھا جائے تو انسانی فطرت بھی کچھ ایسی ہی واقع ہوئی ہے۔ کوئی بھی انسان اپنے مفادات کو داؤ پر لگانا یا داؤ پر لگتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ دیکھا گیا ہے کہ جہاں کچھ داؤ پر نہ لگا ہو وہاں بھی انسان اپنی شکست دیکھنے کا متمنی نہیں ہوتا۔ پھر بھلا کاروباری ادارے ایسا کیوں کرنے لگے؟
مارکیٹ کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھنا ہی کافی نہیں‘ اُنہیں نبھانا بھی پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر حقیقی اور پائیدار کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی نوع کی اشیا و خدمات کی مارکیٹ میں کچھ نیا کرنے کی، کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ بعض نچلی سطح کے معاملات میں کچھ نیا کرنے کی گنجائش ہو نہ ہو، اعلیٰ سطح پر تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا ٹھہر جائے، جدت و ندرت کا بازار گرم نہ ہو اور ہم جہاں ہیں وہیں کھڑے رہ جائیں۔ جو کچھ انسان سوچ سکتا تھا وہ تقریباً سب کا سب ایجاد ہوچکا ہے۔ اب کچھ نیا ایجاد نہیں ہو پارہا۔ ہاں‘ اختراعات کا بازار گرم ہے۔ ہر چیز کو زیادہ سے زیادہ معیاری اور بارآور بنانے پر تواتر سے کام ہو رہا ہے۔ سیل فون اِس کی بہت واضح مثال ہے۔ بہت کچھ جو کسی دور میں الگ الگ دستیاب تھا وہ سب کا سب سیل فون میں سمودیا گیا ہے۔ فوٹو گرافی کے لیے کیمرا ہوا کرتا تھا۔ پھر مووی بنانے والے کیمرے آئے۔ آواز ریکارڈ کرنے والے آلات ایجاد ہوئے۔ اُن میں بھی اختراعات ہوئیں۔ لکھنے کے لیے ٹائپ رائٹر ایجاد کیے گئے۔ پھر اُن میں بھی اختراعات کی گئیں۔ مقررہ وقت پر بیدار ہونے کے لیے الارم بنائے گئے۔ دنوں کا حساب رکھنے کے لیے دیوار پر کیلنڈر لٹکائے جاتے تھے۔ یہ سب اور دوسرا بہت کچھ اب ہتھیلی میں سما جانے والے سیل فون میں دستیاب ہے۔ آج بھی مارکیٹ میں وہی کامیاب رہتے ہیں جو طلب کے مطابق ہی نہیں کرتے بلکہ بعض نئی اشیا و خدمات کی طلب پیدا کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ موجودگی کا احساس اِسی صورت دلایا جاسکتا ہے۔ معمول کے مطابق کام کرنے والوں کی موجودگی کوئی بھی محسوس نہیں کرتا۔ جو لوگ عام ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں صرف وہی کامیابی کی طرف جاسکتے ہیں۔
اگر ہم مارکیٹ کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے کام کرنے والوں کی مثال دینا چاہیں تو شوبز کی دنیا سے سلیم خان اور جاوید اختر کی مثال دینا بالکل درست ہوگا۔ سلیم خان اداکار بننے آئے تھے۔ ایک فلم کے ہیرو بھی بنے مگر ناکام رہے۔ اُنہیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ وہ اداکاری نہیں کرسکتے مگر ہاں، سکرین پلے رائٹنگ کی طرف ضرور جاسکتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی منظر کو سوچنے اور اُسے جزئیات کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ دوسری طرف جاوید اختر تھے۔ وہ علم دوست خانوادے سے ہیں۔ اُن کے دادا مضطرؔ خیر آبادی بڑے شاعر تھے۔ والد جاں نثار اخترؔ بھی کیا کم تھے۔ جاوید اختر کے ماموں اسرارالحق مجازؔ نے بھی چالیس اور پچاس کی دہائی کے شعرا میں خاصا نام پیدا کیا۔ جاوید اختر شعر بھی کہتے تھے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر اُنہیں کہانی بیان کرنے کا شوق تھا۔ اُنہوں نے سلیم خان کے ساتھ مل کر فلمیں لکھنا شروع کیا۔ ''سلیم جاوید‘‘ کے نام سے کام کرنے والی اِس جوڑی نے بالی وُڈ میں فلم رائٹنگ کو بدل ڈالا۔ سیتا اور گیتا، ہاتھی میرے ساتھی، انداز، ہاتھ کی صفائی، زنجیر، دیوار، شعلے، ایمان دھرم، مجبور، ترشول، ڈان، کالا پتھر، دوستانہ، شان، شکتی اور مسٹر انڈیا جیسی شاندار فلمیں دینے والی اِس جوڑی کو اندازہ تھا کہ انڈسٹری کو کیا چاہیے۔ جب اِنہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تب فلمیں گھسے پٹے انداز سے لکھی جاتی تھیں، منظر کو جامعیت کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے محض کہانی بیان کی جاتی تھی۔ اداکاروں کو اداکاری پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ سلیم جاوید نے لکھنے کا ایسا انداز اختیار کیا کہ کسی بھی اداکار کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ کہانی منظر بہ منظر بیان ہوتی چلی جاتی تھی۔ فلم کا زیادہ زور مکالموں پر ہوا کرتا تھا۔ سلیم جاوید کی فلمیں لوگ کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں مکالموں کے لیے زیادہ دیکھا کرتے تھے۔ دونوں نے مل کر فلم رائٹنگ کا ڈھانچا ہی بدل ڈالا۔ امیتابھ بچن کو بامِ عروج پر پہنچانے میں سلیم خان اور جاوید اختر کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے وہ کیا جو دوسرے نہیں کر رہے تھے یا نہیں کر پارہے تھے۔ اُنہوں نے سکرپٹ رائٹنگ کو توانائی دی۔ وہ اِس طور لکھتے تھے کہ شوٹنگ کے دوران ڈائریکٹرز کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی تھی اور نتیجہ بھی بہت اچھا نکلتا تھا۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے مارکیٹ کے تقاضوں ہی کو نہیں نبھایا بلکہ سکرین رائٹرز کے لیے وہ مقام یقینی بنایا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن دونوں سکرین رائٹرز نے ایک فلم کا معاوضہ انڈسٹری کے سب سے بڑے ہیرو امیتابھ بچن سے بھی زیادہ لیا! ''دوستانہ‘‘ کے لیے امیتابھ بچن کو بارہ لاکھ روپے ملے جبکہ سلیم جاوید کو اِس فلم کا سکرپٹ لکھنے پر ساڑھے بارہ لاکھ روپے ادا کیے گئے۔
مسابقت کب نہیں ہوتی؟ اور کبھی کم نہیں ہوتی۔ مسابقت کے لیے خود کو تیار کرنا اور رکھنا پڑتا ہے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کی کامیاب ترین شخصیات کے بارے میں پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے مارکیٹ کی مجموعی کیفیت کو سمجھنے کے بعد ہی کچھ کرنے کی ٹھانی تو کامیاب رہے۔ آج ہر شعبہ ایسا بھرپور دکھائی دیتا ہے گویا اُس میں مزید پنپنے کی گنجائش نہ ہو۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ کچھ نیا کرنے کی گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب مارکیٹ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مارکیٹ کو سمجھنے کے لیے پڑھنا پڑتا ہے اور مشاہدے سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ جو مارکیٹ سے باخبر رہتے ہیں وہ کچھ نیا سوچتے اور کچھ نیا دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہر شعبے میں کچھ ہی لوگ عام ڈگر سے ہٹ کر سوچ پاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، اِس کام میں محنت بہت ہے۔ جو کچھ دوسرے کر رہے ہیں وہ کرنا بہت آسان ہے۔ انسان کی آزمائش تو اِس بات میں ہے کہ جو کچھ دوسرے نہیں کر پارہے وہی کر دکھائے۔ محض خواہش کرلینے سے ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ع
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
سارا مزہ صرف اس بات میں ہے کہ انسان تقلید کی ڈگر سے ہٹ کر چلے، تخلیق پر مائل ہو۔ تخلیق یعنی کچھ نیا کر دکھانا۔ اِس کے لیے وہ سب کچھ سمجھنا لازم ہے جو ہوچکا ہے۔ جو کچھ ہے اُسے سمجھے بغیر ہم وہ نہیں سوچ سکتے جو ہونا چاہیے۔ تخلیقی ذہن اُسی وقت پنپتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھا اور قبول کیا جائے جو ہے۔ آج کم و بیش تمام معاشروں پر جمود کی سی کیفیت طاری ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر سوچنے والوں کی شدید کمی ہے۔ جب سبھی کچھ یکسانیت کا شکار ہو جائے تو زندگی تھم سی جاتی ہے۔ کچھ نیا کرنے کا ولولہ پیدا ہی نہیں ہو پاتا۔ جمود توڑنے کے لیے تخلیقی سوچ کا پروان چڑھانا ناگزیر ہے۔ محض تقلید انسان کے لیے تکریم یقینی نہیں بناسکتی۔ تخلیقی سوچ ہی انسان کے کام میں جامعیت پیدا کرتی ہے اور وہ مارکیٹ کے تقاضے نبھا پاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved