تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     19-10-2022

حکمران اشرافیہ کے زکوٹا جن

عرصہ ہوا میں نے کالموں میں سکینڈلز کی تفصیلات دینا تقریباً بند کر دیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ اچانک ایماندار ہوگئی اور اب دو نمبری یا مار دھاڑ ہونا بند ہوگئی ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہوا! سب کام ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے آپ سوچ رہے ہیں۔ یہ کلاس ہر دور میں ہر حکومتِ وقت میں ایکٹو رہتی ہے اور ان کا کام کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ یہ ہر دور میں حکمران رہتے ہیں کیونکہ ہر حکمران ان کی جیب میں ہوتا ہے۔ یہ حکمرانوں کی کمزوریوں سے کھیلتے ہیں۔ یہ وہ بادشاہ گر لوگ ہیں جو بادشاہوں تک کو خرید لیتے ہیں۔ انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ بادشاہ بنیں جب بادشاہ اُن کے گھر کے دربان بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
سکینڈلز سے دور رہنے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر عارف والا سے ایک ای میل آئی تھی۔ وہ صاحب میرے کالموں کے ریڈر تھے۔ وہ میرے کالموں میں سکینڈلز کی تفصیلات پڑھتے رہتے تھے اور ان کا اپنا پٹرول پمپ تھا جس پر کچھ نوجوان لڑکے ملازم تھے۔ وہ بھی اخبار پڑھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا جس رفتار سے سکینڈلز رپورٹ ہو رہے تھے انہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ لڑکے خود بندوقیں اٹھا کر لوٹ مار شروع نہ کردیں۔ یہ لڑکے سوچنے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ اسلام آباد میں تو لٹ مچی ہوئی ہے‘ جو جتنا بڑا ڈاکو ہے اسے اتنی ہی عزت ملی ہوئی ہے اور وہ بڑے عہدے پر بیٹھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے سکینڈلز پڑھ کر ان کے ذہنوں میں کوئی بھی خطرناک خیالات جمع ہو سکتے ہیں۔ دوسری وجہ آپ لوگ ہیں۔ اب اتنے سکینڈلز سامنے آ چکے ہیں کہ اب کوئی سکینڈل سکینڈل نہیں رہا۔ آپ لوگوں کے لیے اب یہ روٹین کی خبر بن چکی۔ ویسے بھی آپ لوگوں کے اپنے اپنے پسندیدہ لٹیرے ہیں۔ اب تو جیسے سڑک پر حادثے کی سرخی پڑھ کر آپ کسی اور خبر کی طرف بڑھ جاتے ہیں‘ ایسے ہی سکینڈلز اب آپ کے لیے دلچسپی کھو چکے ہیں۔ اب کرپشن یا کرپٹ اس ملک کا مسئلہ نہیں رہا۔ سب حکومتوں اور پارٹیوں میں کرپٹ بیٹھے ہیں جو خود بھی تگڑا مال کماتے ہیں اور اپنے پارٹی سربراہوں کا منہ بھی بھرتے ہیں۔ اب سزا جزا کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ نیب میں ترامیم کے بعد جس طرح مقدمات ختم ہوئے ہیں اس کے بعد کس کو یہ دلچسپی ہے کہ وہ سکینڈل یا کرپشن پر خبر پڑھے یا اس پر رپورٹر کو داد دے۔ اگر نیب نے کچھ مقدمات بنائے بھی تھے اور سزائیں ہونے لگیں تو فوری طور پر این آر او کے ذریعے سب کچھ مٹا دیا گیا۔ جب ملک کا وزیراعظم وہ بن جائے جس پر ایف آئی اے نے 16 ارب روپے کا منی لانڈرنگ چالان جمع کرا رکھا ہو اور کچھ دن بعد عدالت وہ کیس ہی ختم کر دے تو پھر کس کو دلچسپی ہوگی کہ کون کتنا لوٹ گیا۔
تحریک انصاف کے دوست نازک مزاج ہیں کیونکہ ان کے کپتان نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ جو کرپٹ ایلیٹ ان کے ساتھ مل جاتی ہے وہ نیک پاک ہو جاتی ہے۔ اس لیے انہیں اپنی پارٹی کے اندر کرپٹ عناصر نظر نہیں آتے۔ اگر انہیں چند نام بتا بھی دیں تو وہ کہتے ہیں عمران خان خود کرپٹ نہیں۔ لیکن اگر بیگم صاحبہ کی ایک بڑے کاروباری سے پانچ سو کنال عطیہ لینے کے بدلے برطانیہ سے پچاس ارب روپے جرمانے میں ایڈجسٹ کرنے کی یا توشہ خانے میں تیس کروڑ کی چوریوں کی بات کریں تو کہیں گے کہ وہ شریف خاندان کے مقابلے میں تو کچھ نہیں ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے لوگ بھی درست کہتے ہیں کہ شریفوں کی پانچ براعظموں میں پھیلی کرپشن اور عمران خان کی چھوٹی موٹی وارداتوں کا کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ دراصل عمران خان پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے۔
نواز شریف جب 1991ء میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تو اس وقت ان پر بھی اس لیول کی کرپشن کے الزامات نہ تھے۔ اس وقت ان پر الزام بینکوں سے قرضہ لے کر واپس نہ کرنے کا تھا یا حکومتی اثر و رسوخ سے اپنا کاروبار چمکانے کا۔ نواز شریف دوسری دفعہ وزیراعظم بنے تو بھی کرپشن کے الزامات کی سنگینی وہ نہ تھی جو ان کے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر سامنے آئی۔ دوسری دفعہ وزیراعظم بن کر تو نواز شریف نے اپنے خاندان کے بینک قرضے واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ ایک الگ واردات تھی جس پر پھرکبھی بات کریں گے۔ شریف خاندان کی اصل کرپشن کہانیاں نواز شریف کے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر سامنے آئی تھیں۔ بعض تو کہتے ہیں کہ جو پیسہ نواز شریف کے پہلی دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد کمایا گیا تھا وہ چھبیس برسوں بعد 2016ء میں پاناما سکینڈل میں سامنے آیا‘ لہٰذا کسی وزیراعظم کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس نے پہلے دوسرے یا تیسرے دور میں کیا کمایا اور کیا چھپایا۔
عمران خان کو یہ Edge حاصل ہے کہ ابھی ایک دفعہ وزیراعظم رہے ہیں جبکہ شریف خاندان تین دفعہ بن چکا اس لیے موازنے میں شریف خاندان زیادہ کرپٹ لگتا ہے‘ جو ٹھیک بھی ہے۔ لیکن اگر پہلی ٹرم کے حساب سے دیکھا جائے تو کسر عمران خان دور میں بھی کسی نے نہیں چھوڑی۔ گندم سکینڈل‘ شوگر سکینڈل‘ آئی پی پی سکینڈل‘ آئل سکینڈل‘ ایل این جی سکینڈل یا پھر اپنے ارب پتی دوستوں کو جی آئی ڈی سی میں تین سو ارب روپے معاف کرنے ہوں یا بزنس مین کو برطانیہ سے آنے والے پچاس ارب روپے کا فائدہ دے کر اس سے بدلے میں پانچ سو کنال زمین لینا ہو یا لاہور مال روڈ پر سروسز انٹرنیشنل ہوٹل کو کوڑیوں کے مول اپنے ہی ایک اے ٹی ایم کو چپکے سے بیچ دینا ہو۔ کیا کچھ نہیں ہوتا رہا‘ لیکن ابھی خان صاحب شریف خاندان سے کوسوں دور ہیں مگر شاید دوسری تیسری دفعہ وزیراعظم بن کر وہ یہ فرق بھی ختم کر دیں۔ یہ تو ثابت ہو چکا کہ برائی تو موجود ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کم برائی کسی وقت بھی بڑی برائی بن سکتی ہے۔ صرف موقع ملنے کی دیر ہے اور اگلے لمحے وہی کم برائی بڑی بن چکی ہوتی ہے۔ شریف خاندان کو بھی کبھی بھٹو خاندان کے مقابلے میں کم برائی کا درجہ دے کر آخرکار بڑی برائی بنا دیا گیا۔ آج بھی جب عمران خان کو کم اور نواز شریف کو بڑی برائی سمجھا جاتا ہے تو میرے ذہن میں ایک ہی خوف جنم لیتا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ بھی شریف خاندان کی طرح ترقی کریں گے۔
ابھی ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں کہ پرسوں سینیٹ کی پٹرولیم کی کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ پاکستان کو دو ڈالر کے حساب سے ایل این جی گیس مل رہی تھی لیکن انرجی کے چیئرمین اسد عمر نے خط لکھ کر وزرات کو روک دیا۔ بعد میں وہی گیس 40ڈالرز کے حساب سے خریدی گئی۔ اندازہ کریں کتنے کروڑوں ڈالرز بچائے جا سکتے تھے‘ لیکن کسی کو کیا پروا۔ اور سنیں ندیم افضل چن صاحب میرے ٹی وی شو میں فرما رہے تھے کہ مسئلہ صرف سستی گیس نہ لینے کا نہیں تھا بلکہ جب دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں بیس ڈالرز فی بیرل تھیں اس وقت بھی سیکرٹری پٹرولیم اور وزیر ندیم بابر نے خط لکھ کر آئل کمپنیوں کو روک دیا کہ وہ سستا تیل نہیں خریدیں گی۔ جو مہنگا تیل ریفائنریاں منگوا چکی تھیں وہی خریدا جائے گا‘ یوں سستا تیل ہم عوام مہنگا خریدتے رہے۔ کسی کو عوام پر رحم نہ آیا‘ لیکن اربوں کا فائدہ آئل مافیا کو دیا گیا۔
جو کچھ کمیٹی اجلاس میں سنا اس پر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی۔ وہ شہزادی یاد آئی جو کسی جن کی قید میں تھی۔ جب اس نے برسوں بعد آدم زاد دیکھا تھا تو پہلے ہنسی پھر روئی۔ اس نوجوان نے وجہ پوچھی تو شہزادی نے جواب دیا: ہنسی اس لیے ہوں کہ برسوں بعد کسی انسان کی شکل دیکھی ہے۔ روئی اس لیے ہوں کہ ابھی جن آکر تمہیں کھا جائے گا۔ میرا بھی تین گھنٹے کمیٹی اجلاس میں خوفناک انکشافات سن کر پہلے ہنسنے لیکن پھر یہ سوچ کر رونے کو دل کیا کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ کے یہ زکوٹا جن آپ کو بھی کھا جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved