تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     19-10-2022

جہلم کا اندر کمار گجرال … (آخری قسط)

اندر کمار خود کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ لاہور میں اردو کے نامور شاعر فیض احمد فیضؔ اس کے انگریزی کے استاد تھے جن کی شخصیت نے اسے اردو شاعری کی طرف مائل کیا تھا اور پھر علی سردار جعفری کی ہمراہی میں اردو کے نامور شاعروں سے ہر روز ملاقات نے اردو شاعری کی چنگاری کو شعلے میں بدل دیا تھا۔ تب اس کی زندگی میں خوشبو کا ایک جھونکا آیا جس نے اس کی زندگی میں رنگ بکھیر دیے۔ یہ اس کی ہم جماعت شیل تھی۔ شیل کے والدین کا گھر‘ کلی میں تھا۔ وہ ایک حسین لڑکی تھی جو شعر و ادب کی رسیا تھی اور پنجابی اور انگریزی میں شاعری کرتی تھی۔ اندر کمار اسے بیاہ کر جہلم کے گھر میں لے آیا۔ اب سیاست کے میدان میں ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔ اندر کمار کو فرنگیوں کے خلاف مزاحمت کی تڑپ اپنے والدین سے ورثے میں ملی تھی۔ اس کے والد فرنگیوں کے خلاف مزاحمت کی پاداش میں جیل جا چکے تھے۔ اب دوسری جنگِ عظیم کا اختتام ہو رہا تھا اور آزادی کی جدوجہد میں تیزی آگئی تھی۔ اندر کمار پڑھنے کے ساتھ سیاست کے میدان میں بھی متحرک تھا جس کا واحد مقصد ہندوستان کو انگریزوں کے قبضے سے نجات دلانا تھا۔ اندر کمار نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت حاصل کی‘ لاہور سٹوڈنٹس یونین کا صدر بنا اور پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ اندر کمار کو مزاحمت کی جدوجہد پر دوبار جیل جا نا پڑا۔ اب اندر کمار لاہور میں یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس نے والد کے وکالت کے پیشے کے برعکس اپنا کاروبار شروع کرنے پر توجہ دی۔ پہلے جہلم اور پھر کراچی میں کاروبار کا آغاز کیا۔ وہ کاروبار میں کامیابی کے لیے پُر امید تھا۔ تب حالات تیزی سے بدلنے لگے۔ ہر طرف ہندوستان کی تقسیم کی باتیں ہونے لگی تھیں لیکن اندرکمار اور اس کے والد اوتار نارائن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں ایک روز جہلم چھوڑنا ہوگا۔ 1946ء کے شروع میں اوتار نارائن قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کا اعلان ہو گیا لیکن اوتار نارائن کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ جہلم میں ہی رہیں گے۔
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا لیکن اندر کمار کے والد اوتار نارائن‘ جو قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے تھے‘ کی خواہش اور ارادہ اپنی جگہ لیکن حالات روز بروز مشکل ہوتے جا رہے تھے اور پھر ایک دن انہوں نے اپنے جہلم والے گھر کو چھوڑا‘ اپنے دلبر شہرِ جہلم کو الوداع کہا اور دہلی چلے گئے۔ شاید قدرت اسے زندگی کے ایک نئے تجربے سے متعارف کرا رہی تھی۔ یہ 1958ء کی بات ہے جب اندر کمار نے دوستوں کے اصرار پر دہلی الیکٹورل کالج کا الیکشن لڑا اور بلامقابلہ جیت گیا۔ 1964ء میں ایک بار پھر اسے کامیابی ہوئی‘ تب اندرا گاندھی کی سفارش پر اسے راجیہ سبھا کے لیے کانگریس کا ٹکٹ دیا گیا اور اندر کمار راجیہ سبھا کا ممبر منتخب ہو گیا۔ وہ اندرا گاندھی کے بہت قریب تھا لیکن پھر سیاست میں ایک نیا موڑ آیا جب اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی‘ تب اندر کمار انفارمیشن منسٹر تھا۔ ایک روایت کے مطابق اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی نے سختی سے اندر کمار کو ہدایت کی تمام نیوز بلیٹن کو سنسر کیا جائے‘ اندر کمار نے اس کی مخالفت کی اور راجیو کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اسے ملکی منظر نامے سے ہٹا کر روس میں بطور سفیر تعینات کر دیا گیا‘ یوں اندر کمار 1976ء سے 1980ء تک روس میں رہا۔ ایک روز اسے خبر ملی کہ اس کے لاہور کے استاد اور معروف شاعر فیض احمد فیضؔ روس آئے ہوئے ہیں۔ اندر کمار نے فیض کے روس میں قیام کے دوران کتنی ہی شعر و شاعری کی محفلوں کا انعقاد کیا۔ ان محفلوں میں فیض صاحب کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا۔
1989ء میں اندر کمار لوک سبھا کا ممبر منتخب ہوا اور اس کے حصے میں امورِ خارجہ کی وزارت آئی۔ 1992ء میں ایک بار پھر وہ راجیہ سبھا کا ممبر بنا اور اسے امورِ خارجہ کی وزارت دی گئی۔ اپریل 1997ء میں اس وقت کے بھارت کے وزیراعظم دیوے گوڑا (H. D. Deve Gowda) اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکے تو یونائیٹڈ فرنٹ کی مخلوط حکومت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا تاج اندر کے سر پر رکھا گیا۔ یہ منصب کسی بھی سیاستدان کا خواب ہوتا ہے لیکن ان مناصب‘ دولت اور شہرت کے باوجود کوئی کمی ایسی تھی جو اندر کمار کو تنہائی میں اداس کر دیتی تھی۔ جب کبھی دہلی میں زوروںکا مینہ برستا تو اندر کمار کو اپنے جہلم کی یاد آجاتی جہاں اس کا گھر دریائے جہلم کے نزدیک تھا۔ اس کے گھر سے دریا کا منظر صاف نظر آتا۔ کیسا دل فریب منظر ہوتا جب بارش دریائے جہلم کے پانیوں پر برستی۔ وہ فرصت کے لمحوں میں اکثر سوچا کرتا کیا وہ کبھی اس گھر کو دوبارہ دیکھ سکے گا؟ کیا کبھی جہلم کی فضاؤں‘ اس کی گلیوں اور اس کے لوگوں کے درمیان جا سکے گا؟
تب اچانک ایک دن اس کی خواہش پوری ہونے کا سامان بن گیا۔ یہ 1982ء کا سال تھا۔ اندر کمار اور شیل نے جب پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو بیتے دن جیسے پھر سے جاگ اُٹھے۔ اندر کمار کی عمر کا ایک حصہ لاہور میں گزرا تھا جہاں قدم قدم پر یادوں کے سائے تھے لیکن اندر کمار کا دل اپنے جہلم کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا اور پھر وہ دن بھی آگیا جب وہ جہلم جا رہا تھا۔ سب سے پہلے اس نے اپنا سکول دیکھا جہاں وہ سائیکل پر آیا کرتا تھا اور پھر شمالی محلے میں اپنے گھر کے سامنے پہنچ کر اسے یوں لگا جیسے وقت نے بہت کچھ بدل دیا لیکن جونہی وہ شیل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی دہلیز پار کرکے اندر آیا تو یوں لگا وقت پیچھے کو لوٹ گیا۔ یہی گھر تھا جہاں وہ شیل کو بیاہ کر لایا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو بائیں ہاتھ اوپر جاتی جانی پہچانی سیڑھیاں تھیں اور پھر وہ کمرہ جہاں وہ شادی کے بعد شیل کے ہمراہ رہتا تھا۔ کمرے میں جا کر گئے دنوں کی یادوں نے اسے گھیر لیا تھا۔ اس نے چاہا کاش وقت رک جائے۔ لیکن وقت کبھی رکتا نہیں۔ اسے یہاں سے جانا ہی تھا۔ اب وہ شیل کا ہاتھ پکڑ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ آخری سیڑھی پر پہنچا ہی تھا کہ اسے یوں لگا کسی نے اس کا نام لے کر آواز دی ہے۔ یہ کیسی آواز تھی‘ وہ چونک پڑا‘ بالکل اس کی ماتا پشپا جیسی آواز۔ وہ ایک لمحے کو ٹھٹک کر وہیں کھڑا ہوگیا۔ اسے یوں لگا اس کے بچپن کا وقت لوٹ آیا ہے۔ اسے وہ دن یاد آگیا جب وہ کم سن تھا اور آزادی کے لیے جلوس نکالنے کے جرم میں پولیس کے ہاتھوں پٹ کر ڈرا ڈرا گھر واپس آیا تھا۔ تب انہی سیڑھیوں کے پاس وہ ماں کی آواز سن کر ٹھٹک گیا تھا۔ اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ اور پھر کیسے اس کی ما ں نے مسکراتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اس کا ماتھا چوم لیا تھا۔ ماں کو اپنے بیٹے پر فخر تھا کہ آج وہ آزادی کی راہ کا مسافر بن گیا ہے۔ یاد کا یہ لمحہ آیا اور گزر گیا۔ اندر کمار نے سر جھٹک کر شیل کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی دہلیز پار کرکے باہر نکل آیا‘ لیکن ذرا آگے جا کر وہ رُک گیا اور مڑ کر اپنے گھر کو دیکھنے لگا۔ اسے یقین تھا وہ اپنے خوابوں کے اس نگر کو پھر کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ اس لمحے اسے یوں لگا اس کے اندر کوئی چیز ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved