کشمیری مجاہدین کے لیڈرسید صلاح الدین نے دعویٰ کیا ہے کہ ہزاروں مسلح مجاہدین 2014ء میں افغانستان سے بیرونی افواج کی واپسی کے بعدجہاد کشمیر میں شریک ہونے کے لئے آ جائیں گے۔ ان کے آتے ہی کشمیر کی جنگ آزادی میں تیزی آ جائے گی اور آزادی کی جنگ اتنی شدید ہو گی کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ باتیں انہوں نے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہیں۔ اگر واقعی ایسا ہونے والا ہے‘ توہمیں اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ آگے کیا ہو گا؟ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ جو مجاہدینِ اسلام پاکستان میںتیار کر کے ہم نے افغانستان میں داخل کئے تھے‘ انہوں نے افغانستان کا ریاستی نظام‘ جو بھی وہ تھا‘ توڑ کے رکھ دیا۔ وہاں مرکزی اتھارٹی نامی کوئی چیز باقی نہ چھوڑی۔ چھوٹے چھوٹے مسلح گروہ‘ اپنے اپنے علاقے کا کنٹرول سنبھالے بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے‘ روپیہ بٹورتا ہے اور روپیہ بٹورنے کے کام میں دوست دشمن کی تمیز نہیں کی جاتی۔ ایک وارلارڈ کے علاقے سے اگر کوئی ٹرک یا کنٹینر گزرتا ہے‘ تو اس سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ امریکی بھی اسلحہ سے بھرا ہوا ٹرک لے کر جانا چاہیں تو مجاہدینِ اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آگے جا کر یہ اسلحہ انہی کے افغانی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔امریکی ابھی تک کابل کی مرکزی اتھارٹی کی رٹ قائم نہیں کر سکے۔ سارا توازن اسلحہ کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ جس کے پاس زیادہ بندوقیں ہیں اور وہ آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے‘ وہ دوسرے کے بندے مار کے اپنی اہمیت ثابت کرتا رہتا ہے۔ امریکیوں کے جانے کے بعد اس ’’حکومتی‘‘ کلچر میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔ مقامی لیڈروں کے درمیان لڑائیاں بھی ہوں گی۔ سمجھوتے بھی ہوں گے۔ لیکن پورے ملک میں طویل مدت کے لئے نہ کوئی مرکزی نظام نافذ کیا جا سکے گااور نہ ہی مرکزی اتھارٹی قائم ہو گی۔ بڑے اور طاقتور گروہ ‘ جو اپنے سائز اور قوت کے اعتبار سے کسی علاقے پر قبضہ کر کے‘ اپنا حکم چلا سکیں گے‘ وہ افغانستان کے اندر رہیں گے اور جن کی پٹائی ہو گی‘ وہ اسلام کا پرچم لے کر پاکستان کی طرف آ جائیں گے۔ جسے یہاں ’’اسلام ‘‘نافذ کرنے کا موقع ملا‘ وہ یہاں راکٹ اور بم چلائے گا اور اپنی اپنی فقہ کے مطابق ’’کفار‘‘ سے جنگ کرے گا۔ ہر مجاہدِ اسلام کے لئے پاکستان میں بے شمار کافر موجود ہیں۔ اگر وہ سلفی مسلک کا ہے‘ تو اس کے لئے کروڑوں کی تعداد میں شیعہ موجود ہیں‘ جنہیں وہ کافر کہے گا اور اگر وہ تکفیری مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے‘ تو اسے تحقیق کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے لئے پورے پاکستان میں کافر ہی کافر موجود ہوں گے اور وہ جس پر بھی گولی چلائے گا‘ وہ کافر ہی ہو گا۔ جس کا ایمان زیادہ مضبوط ہو گا‘ وہ اصلی کافروں کو ڈھونڈنے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائے گا اور بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے گا۔ بھارتی فوج کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں پاکستان میں کیا ہو گا؟ پاکستان میں ’’اللہ کے فضل و کرم‘‘ سے تحریک طالبان پاکستان موجود ہے۔ وہ اپنے مہمانوں کے لئے ہر طرح کا آرام اور سہولتیں فراہم کرے گی۔ طالبان کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا اور پھر وہ پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کے لئے نئی طاقت کا استعمال شروع کر دیں گے۔ آج بھی وہ پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان کے پاس یہ طاقت بھی ہے کہ ان کے جو ساتھی ‘ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے قبضے میں آئیں گے اور انہیں جیلوں میں بھیج دیا جائے گا اور جب جیل جانے والوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہو جائے گا‘ تو وہ جیل توڑ کے اپنے ساتھیوں کو واپس لے جائیں گے۔ پاکستان میں ’’خدا کے فضل و کرم‘‘ سے سزائے موت کے حکم پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ ’’خدا کا فضل و کرم‘‘ تحریک طالبان کے ایک لیڈر کی دھمکی کے بعد ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ہمارے کسی ساتھی کو پھانسی دی گئی‘ توپھانسی کی سزا پر عملدرآمد کرنے والے حکمران یہ سوچ لیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے؟ نصرت جاوید کے ’’طائرلاہوتی‘‘ یہ دھمکی سنتے ہی اس بات کے قائل ہو گئے کہ پھانسی کی سزا غیراسلامی ہوتی ہے۔ پاکستان کے بیشتر علمائے کرام‘ دائیں بازو کی جماعتیں اور طائر لاہوتی‘ اس بات کے قائل تھے کہ سزائے موت اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز ہے اور اس کی معطلی درست نہیں۔ لیکن ہمیں عالمی برادری کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ ایک ہی دھمکی کے بعد ہم عالمی برادری کے ساتھ جا ملے اور صدر زرداری عرف ’’علی بابا چالیس چور‘‘ سے مدد مانگی۔ وہ چونکہ خود ہی سزائے موت کے خلاف تھے اور اپنی پارٹی کے دور اقتدار میں انہوں نے ایک بھی پھانسی نہیں لگنے دی تھی۔ اس لئے وہ آسانی سے وزیراعظم کو یہ مشورہ دینے پر تیار ہو گئے کہ ’’وہ سزائے موت کے احکامات پر عملدرآمد معطل کر دیں۔‘‘ بے شمار لاپتہ افراد کے معاملے میں ہم عالمی برادری کے مطالبات کو خاطر میں نہیں لائے۔ یہ لاپتہ افراد ’’بہت ہی لاپتہ‘‘ ہیں۔ ان کے وارث بھی اگر جنگجو ہوتے۔ ہمارے شہروں پر خود کش بمبار بھیج سکتے۔ جیلیں توڑ سکتے۔ حکمرانوں کو قتل کی دھمکیاں دے سکتے‘ تو انہیں بھی اپنے پیاروں سے ملنے کا موقع مل جاتا۔ لیکن وہ نہتے اور بے ضرر شہری ہیں۔ ان کے اہل خاندان کی پراسرار گمشدگی پر عالمی برادری کا احتجاج ہم پر اثر نہیں کرتا۔ویسے تو جو سلوک پاکستان کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمارے وزیرخزانہ اسحق ڈار کر رہے ہیں‘ اس پر بھی انسانی حقوق کے لئے لڑنے والی عالمی تنظیمیں احتجاج کر سکتی ہیں۔ کیونکہ ڈار صاحب نے ریٹائرڈ اور بوڑھے مردوں عورتوں کی آخری پونجی میں سے بھی بھتہ نکالنا شروع کر دیا ہے اور آپ جانتے ہیں بھتہ زبردستی لیا جاتا ہے۔ اس بھتے کا نام انکم سپورٹ پروگرام ہے اور جس بوڑھے شخص نے اپنی عمربھر کی پونجی جمع کر کے بنک میں رکھوا دی ہے اور اس کے منافعے پر گزراوقات کر رہا ہے۔ اب ڈار صاحب اس میں سے انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھتہ نکالیں گے۔ آمدنی میں کمی کر کے‘ بازار میں وہ مہنگائی بڑھاتے جا رہے ہیں۔ بوڑھے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک سراسر غیر انسانی ہے۔ ہوسکتا ہے عالمی برادری اس غیرانسانی سلوک پر بھی احتجاج کرے‘ مگر ہماری حکومت ایسے معاملات میں عالمی دبائو کی پروا نہیں کرتی۔ عالمی دبائو اسی وقت موثر ہوتا ہے‘ جب اندر سے کسی دہشت گرد کی طرف سے دھمکی بھی آ چکی ہو۔ جب افغانستان اور باقی دنیا میں پھیلے ہوئے مجاہدینِ اسلام‘ اپنے اپنے ’’جہاد‘‘ سے فارغ ہو کر دنیا کے واحد اسلامی ایٹمی ملک کا رخ کریں گے اور یہاں شریعت نافذ کرنے کے لئے اپنی حکومت قائم کرنے کی خاطر جہاد کریں گے‘ تو ہم پر کیا گزرے گی؟ ایک طرف ہمیں مسلمان بنایا جا رہا ہو گا اور کافر کہہ کر بموں سے اڑایا جا رہا ہو گا۔ دوسری طرف ہر گروہ اپنی اپنی شریعت نافذ کرے گا اور اپنے زیرکنٹرول علاقے میں ان تمام کافروں کو قتل کرنا شروع کر دے گا‘ جو اس کی فقہ کے تحت‘ دائرہ اسلام سے خارج ہوں گے۔ پاکستان ماشااللہ بہت بڑا ملک ہے اور مجاہدینِ اسلام کی شریعتیں بھی ماشااللہ کم نہیں۔ ہمارے وسیع و عریض ملک میں پندرہ بیس شریعتیں تو آرام سے نافذ کی جا سکتی ہیں۔ کچھ شریعتیں ہمارے اپنے اندر موجود ہیں۔ کچھ افغانستان سے آئیں گی۔ عراق میں برسرجہاد مجاہدین بھی فارغ ہو کر ادھر کا رُخ کریں گے‘ تو وہ بھی اپنی شریعت ساتھ لائیں گے۔ لیبیا والے بھی آئیں گے۔ شام والے بھی واپس آئیں گے۔ ان سب کے لئے یہاں سنہرے مواقع موجود ہیں۔ دنیا اس صورتحال کا بے چینی سے مطالعہ کر رہی ہو گی اور اسے فکر ہو گی کہ یہ لوگ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ ہمارے اپنے مجاہدینِ اسلام‘ ہمیں کافر کہہ کر پکاررہے ہوں گے اور دنیا ہمارے ایٹمی اسلحہ کو اسلامی بم کہہ کر ہم پر دبائو ڈال رہی ہو گی۔ جب میں ان امکانی مناظر کو چشم تصور سے دیکھتا ہوں‘ توسوچتا ہوں کہ ہم نے پاکستان اسلام کے نام پر لیا‘ پھر اسے اسلام کے نام پر توڑا اور آنے والے دنوں میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے‘ وہ بھی اسلام کے نام پر ہو گا۔ واہ میرے مولا! مملکت یہ کیسی بنائی؟ کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔میں نے ایک گزشتہ کالم میں‘ مختلف ملکوں میں لڑنے والے مجاہدینِ اسلام کے بارے میں پوچھا تھا کہ وہ جہاد سے فارغ ہو کر کہاں جائیں گے؟ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ وہ پاکستان میں آئیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھی داخل ہوں گے۔ شکریہ سید صلاح الدین۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved