ویسے تو اس ملک میں جو بھی وزیراعظم رخصت ہوا‘ اس پر مختلف نوعیت کے الزام لگے اور اس کی مقبولیت میں کمی ہوئی لیکن عمران خان کے معاملے میں بالکل الٹ ہوا ہے۔ الزامات تو ان پر بھی لگے اور خوب لگے‘ ان کی کردارکشی تک کی گئی، آڈیو‘ وڈیو لیکس سمیت کون سا حربہ تھا جو نہیں آزمایا گیا لیکن ان کا بیانیہ مقبول ہوتا رہا اور آج وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈرز میں سے ایک ہیں۔ ایسا ہم نے ماضی قریب میں کبھی نہیں دیکھا کہ کسی حکومت یا وزیراعظم کو برطرف کیا جائے اور وہ عوام میں مقبول ہوجائے۔ ہر بار یہی ہوا کہ جو برطرف ہوا‘ وہ کسی نہ کسی طرح بدنام بھی ہوا اور اس کا ووٹ بینک بھی متاثر ہوا۔ عالمی جرائد اور میڈیا سرویز کے مطابق عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کو فالو کرتی ہے۔ بچے‘ خواتین‘ مرد اور بزرگ بھی ان کے گرویدہ ہیں۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق)، اے این پی اور ٹی ایل پی سمیت دیگر جماعتوں کا بھی ووٹ بینک موجود ہے؛ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف جس طرح جیت رہی ہے اس کو دیکھ کر صاف لگ رہا ہے کہ پہلے کبھی ووٹ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین تقسیم ہوتا تھا‘ اب مقابلہ مسلم لیگ اور اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے درمیان ہے بلکہ اب پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے مدمقابل آگئی ہے اور مسلم لیگ (ن) بتدریج نیچے گئی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت میں ہونے کے باوجود جیت نہیں پارہی اور تحریک انصاف کو ہر صوبے میں کثرت سے ووٹ مل رہے ہیں۔ ویسے بھی جب سے نئی حکومت آئی ہے‘ عوام زیادہ خوش نہیں ہیں۔ خود وزرا بھی غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ ہر چیز کی قیمت دگنی ہو گئی ہے اور ووٹرز پی ڈی ایم سے سخت نالاں ہیں۔ (ن) لیگ کے بہت سے نظریاتی کارکنان بھی خفا ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ان کی پارٹی کو حکومت میں نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس سے پارٹی کی مقبولیت متاثر ہورہی ہے۔ نئی حکومت نے آتے ہی پٹرول‘ بجلی اور اشیائے خور ونوش مہنگی کر دیں‘ یہاں تک کہ گرمیوں کے مہینوں میں بل دینے کے لیے عوام کو اپنے زیورات تک بیچنے پڑ گئے۔ دال اور سبزی سمیت پھل بھی عوام کی قوتِ خرید سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ اور ان چیزوں کا اثر لیڈران اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت پر براہِ راست پڑرہا ہے جس سے پی ڈی ایم کے کچھ رہنما بھی خوش نہیں ہیں۔
پی ڈی ایم کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی کہ کسی طرح تحریک انصاف سے اقتدار چھین لیا جائے۔ جیسے وفاق میں بندوں کو خریدا گیا، اتحادیوں کو ہٹایا گیا‘ ویسا سب کچھ پنجاب میں بھی کیا گیا۔ کچھ مہینے اعصاب شکن رہے لیکن پی ٹی آئی پنجاب کا میدان مارنے میں کامیاب ہو گئی۔ گزشتہ چند مہینوں میں کیا کچھ نہیں دیکھا؟ ایک دن کی کابینہ بھی اس دوران دیکھنے کو ملی۔ حمزہ شہباز کبھی وزیراعلیٰ ہوتے تھے اور کبھی نہیں۔ پھر ووٹنگ میں کم ووٹ ملنے کے باوجود انہیں وزیراعلیٰ بنادیاگیا۔ معاملہ عدالتوں میں گیا اور وہاں آئینی و قانونی جنگ لڑی گئی۔ ایسا ہماری نسل نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ہم کسی تھیٹر میں آگئے ہیں جہاں پردہ گرتے ہی سب کردار بدل جاتے ہیں۔ بہت سے افراد کے لیے یہ جمہوری تماشا نیا تھا۔ بہت افسوس ہوا کہ سیاست دان جمہوریت اور پارلیمان کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔سیاست یا جمہوریت کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ عوام بھی اس سب سے تنگ آگئے کہ چند خاندان سارے عہدے اور وسائل اپنے تک ہی کیوں محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا ان کے علاوہ کوئی اہل نہیں؟ حکومتوں کی تبدیلیوں اور وزرائے اعظم کی برطرفیوں میں عوام رُل جاتے ہیں‘ معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔جمہوریت کی پامالی عوام کی بدحالی کی وجہ بنتی ہے۔ اس لیے خدارا! کسی ایک حکومت کو تو ایک وزیراعظم کے ساتھ پانچ سال پورے کر لینے دیں۔
اگر حالیہ ضمنی انتخابات کا جائزہ لیں تو اتوار کے روز قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ نشستوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور دو سیٹوں پر پیپلز پارٹی کی جیت ہوئی۔ پنجاب اسمبلی کی تین سیٹوں‘ جو پہلے مسلم لیگ (ن) کے پاس تھیں‘ میں سے دو پر تحریک انصاف کامیاب ہوئی اور ایک سیٹ مسلم لیگ (ن) واپس لینے میں کامیاب رہی۔ غلام احمد بلور سیاست کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ ان کے دوست اور مخالفین‘ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا جب بھی انٹرویو کیا‘ ان میں خاندانی وضعداری اور فہم و فراست پائی۔ ان کی نشست اے این پی کے ہاتھ سے چلے جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اے این پی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کی بساط میں اتنی پیچھے کیوں ہوگئی ہے۔ مجھے ہر جماعت کے ووٹ بینک کا احترام ہے؛ تاہم اگر کسی کے ووٹ بینک میں کمی آرہی ہے تو یہ بات غور طلب ہے کہ کیا اس کے پیچھے موروثی سیاست ہے یا کوئی اور عوامل ہیں جن کو نیا ووٹر مسترد کررہا ہے۔ اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی طور پر بالغ اور سب کچھ جانتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ 2018ء میں انہوں نے پانچ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور پانچوں سیٹیں اپنے نام کر کے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس بار انہوں نے سات سیٹوں پر الیکشن لڑا اور چھ سیٹیں جیت کر اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر کیا۔ اگر ہم آٹھویں نشست کی بات کریں تو وہاں ملتان کے دو روایتی سیاسی خاندانوں کے مابین مقابلہ تھا۔ گیلانی اور قریشی مدمقابل تھے۔ یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے والد کی بدولت یہ الیکشن لڑ ا۔ موروثی سیاست کسی طور پاکستانی جمہوریت کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ علی موسیٰ گیلانی یہ سیٹ جیت گئے اور مہربانو قریشی ہار گئی ہیں۔ بہت سے تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شاید ہمارا معاشرہ اور ووٹرز خواتین کو اب تک سیاسی عمل میں وہ جگہ دینے کو تیار نہیں جو مردوں کو حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کا زیادہ تر ووٹر موروثیت کو پسند نہیں کرتااور اس سیٹ پر پارٹی کے اندر بھی امیدوار کی کافی مخالفت کی گئی تھی؛ تاہم مہربانو قریشی سیاسی باب میں ایک اچھا اضافہ ہیں اور ان کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ موجودہ سیاسی کھیل میں اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اب تک بہت محفوظ ہے اور سمجھ داری سے اپنے کارڈز کھیل رہی ہے۔ دو نشستیں بھی اسے مل گئی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے زبردستی اقتدار میں آکر (ن) لیگ نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ فیصل آباد اور ننکانہ کی نشستیں مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ یہ بات مسلم لیگ کی قیادت کو سوچنا ہوگی کہ اس سے کب اور کہاں کیا غلطی ہوئی۔ اس کا ووٹ بینک کیوں مسلسل کم ہورہا ہے۔
عمران خان پر یہ الزام تھا کہ وہ صرف سوشل میڈیا کی حد تک مقبول ہیں‘ ان کے زیادہ تر فینز سوشل میڈیا تک محدود ہیں‘ وہ عملی سیاست میں باہر نکل کر ووٹ نہیں ڈالتے۔ ان کی حکومت میں اپوزیشن الزام لگاتی تھی کہ وہ الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہیں مگر کرسی چھن جانے کے بعد جس طرح سے وہ ضمنی الیکشن جیتے اور پنجاب میں حکومت واپس لینے میں کامیاب ہوئے‘ یہ ان کی زمینی و انتخابی شہرت کا ثبوت ہے؛ تاہم ان کو اس بات کا خیال کرنا ہوگا کہ ان کی پارٹی ون مین شو نہ بن جائے۔ پارٹی کے دیگر چہروں کو بھی سامنے آکر کام کرنا ہوگا تاکہ پارٹی عام انتخابات میں بھی نشستیں لے سکے۔ نئی نسل موروثیت اور کرپشن کو مسترد کررہی ہے۔ اب بھی اگر سیاسی جماعتیں ووٹرز کے موڈ کو نہیں سمجھ رہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved