امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں جو موشگافیاں چھوڑیں‘ وہ اپنی جگہ لیکن اس پر ہمارے وزیر خارجہ نے جس طرح یہ کہہ کر کلین چٹ دینے کی کوشش کی کہ یہ غیر رسمی سی ایک گفتگو تھی‘ صدر بائیڈن کے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا‘ یہ تو انہوں نے ایسے ہی کہہ دیا۔ یہ طرزِ عمل زیادہ افسوسناک ہے۔ خدا کرے کہ بلاول بھٹو زرداری کی خوش گمانی درست ہو اور صدر بائیڈن بھی فرما دیں کہ اس عمر میں ان کی زبان سے بلا ارادہ بھی بہت کچھ نکل جاتا ہے۔ صدر بائیڈن نے جو کچھ کہا‘ وہ اس لیے لائقِ تبصرہ نہیں کہ اگر امریکی صدر اور ان کے ماتحت ادارے پہلے اپنے اور اپنے اتحادیوں کے ایٹمی اثاثوں کے ریکارڈ پر ایک نظر ڈال لیتے تو اس حوالے سے پاکستان کو معطون کرنا تو دور کی بات‘ وہ ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا بھی پسند نہ کرتے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں 1950ء سے 1968ء کے کولڈ وار کے دور کی۔ اس عرصے میں امریکہ کے 9 وارہیڈز لاپتا ہوئے جن کی آج تک کوئی خبر نہیں مل سکی کہ کدھر گئے‘ کہاں بھیجے گئے‘ کسے دیے گئے؟ اگر وائٹ ہائوس کی 2010ء کی ''سٹڈی آن انرجی ایکسیڈنٹس‘‘ پڑھیں تو علم ہوتا ہے کہ نیوکلیئر ری ایکٹرز کے کم از کم 56 حادثات صدر بائیڈن کے اپنے ملک میں ہو چکے ہیں۔ کیا وائٹ ہائوس 1979ء میں نیوکلیئر وار ہیڈز کے ہونے والے بدترین ''Three Mile Island‘‘ حادثے کو بھول چکا ہے؟ امریکی صدر سے پوچھا جانا چاہیے کہ 14 فروری 1950ء کے اُس حادثے کا جواب دہ کون ہے جب امریکی Convair B-36B، سیریل نمبر 44-92075 نارتھ برٹش کولمبیا میں کریش ہوا جسے7th Bombardment Wing Carswell Air Force base کی کمانڈ میں دیا گیا تھا؟ امریکہ اور بھارت کے نیوکلیئر اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی ایک نہیں‘ درجنوں ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کے بعد ہر شخص پکار اٹھے گا کہ اگر دنیا کے لیے کسی ملک کے ایٹمی اثاثے خطرہ اور بوجھ بن چکے ہیں تو وہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کے ایٹمی اثاثے ہیں۔ پاکستان میں کیوبا کے سفیر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جو دنیا کے دو شہروں پر ایٹمی حملہ کر چکا ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جو گزشتہ سوا دو سو سالوں میں 469 مرتبہ مختلف ملکوں‘ علاقوں میں لشکر کشی کر چکا ہے۔
بھارت کے غیر محفوظ ایٹمی اثاثوں کا جائزہ لیں تو 7 جولائی 2018ء کو بھارت کے شہر کولکتہ سے پانچ بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے ایک کلو یورینیم بر آمد ہوا تھا۔ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ اس یورینیم کی ڈیل تھرڈ پارٹی سے انڈین کرنسی میں 3 کروڑ روپے کے عوض طے پا چکی تھا اور یہ ایک کلو گرام یورینیم زرد رنگ کے دو پیکٹوں میں رکھا ہوا تھا۔ انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے سینئر سائنسدان روی کمار گپتا نے بھارتی ٹی وی چینل NewsX کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ یہ خالص یورینیم ہے، جسے بھارتی پولیس دنیا سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ روی کمار کے الفاظ میں:
Even low grade uranium can be used as a Toxin.
12 مارچ 2021ء کی شام ملنے والی ایک مخبری پر نیپالی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ایک جگہ پر چھاپہ مارا تو وہاں سے ڈھائی کلو گرام خام یورینیم برآمد ہوا۔ تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ یورینیم بھارت سے سمگل کر کے لایا گیا تھا۔ گرفتار افراد میں شامل ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے سسر گزشتہ بیس برسوں سے بھارت کے ایک ایٹمی مرکز میں کام کر رہے ہیں‘ یہ یورینیم انہوں نے فراہم کیا ہے۔ 8 مئی 2021ء کو بھارت میں مہاراشٹر پولیس کے اینٹی ٹیررازم ونگ کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے جگر جے ایش پانڈیہ اور افضل چودھری نام کے دو افراد کو ممبئی کے نواح سے گرفتار کیاجن کے قبضے سے سات کلو ایک سو گرام قدرتی یورینیم برآمد کیا گیا جس کی قیمت مارکیٹ میں 21 کروڑ بھارتی روپے بتائی گئی۔ اے ٹی ایس کی طرف سے بتایا گیا کہ ملزمان اس یورینیم کی فروخت کے لیے گاہک کی تلاش میں تھے۔
یہ اس بھارت کی چند مثالیں ہیں جس نے امریکہ کی جانب سے ایف سولہ کے پرزے پاکستان کو دینے پر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک سوتے جاگتے ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں‘مگر بھارت میں ہونے والے پے درپے واقعات چیخ چیخ کر دنیا اور اقوام عالم کو بتا رہے ہیں کہ بھارت میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نیوکلیئر دھماکوں میں استعمال ہونے والا یورینیم بھارت کے گلی کوچوں میں فروخت ہو رہا ہے جسے کوئی بھی خرید کر عالمی امن کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دس سے زیادہ ممالک افزودہ کیے گئے یورینیم کی خریداری کیلئے تگ و دو میں ہیں اور اگر ان میں سے کسی کو بھی یہ بھنک پڑ گئی کہ بھارت کے ایٹمی مراکز میں کام کرنے والے سینئر اہلکار افزودہ یورینیم کی فروخت کیلئے ''آن لائن‘‘ تجارت کر رہے ہیں تو اس کے نتائج دیکھنے کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ وقفے وقفے سے واشنگٹن میں یہ جو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا رونا رویا جاتا ہے ‘تو کیا امریکہ اور یورپ سمیت ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے حساس ملک جاپان کو دکھائی نہیں دے رہا کہ بھارت کے کم از کم 8 نیوکلیئر ری ایکٹرز ''آئوٹ آف سیف گارڈز‘‘ ہیں جو ایک سوالیہ نشان بن کر پوری دنیا کیلئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ آٹھ بھارتی ایٹمی ری ایکٹرز کی سکیورٹی کسی عام سی فوجی تنصیب کی سکیورٹی کے معیار کے برابر ہے جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے طے کردہ سکیورٹی معیار سے انتہائی کم تر ہے۔
INDIA's Nuclear Exceptionalism And India's Strategic Nuclear and Missile program کے نام سے کنگز کالج برطانیہ کی ترتیب دی گئی دو رپورٹس‘ جن میں بھارت کے 2600 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کا جائزہ لیا گیا‘ سامنے رکھیں تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا شخص ان کی کمزور سکیورٹی اور نقل و حمل کے بارے میں جان کر کانپ کر رہ جائے۔ پاکستان کا اپنے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی کیلئے نظام اس قدر مربوط اور فول پروف ہے کہ اس نے پچیس ہزار کے قریب انتہائی تربیت یافتہ، چاق و چوبند فوجی نفری ایٹمی اثاثوں کی ہمہ وقت سخت ترین حفاظت کیلئے مقرر کی ہوئی ہے۔ نیو کلیئر اثاثوں کے تہہ در تہہ حفاظتی حصار، قدم قدم پر ناقابلِ عبور رکا وٹوں اور ہر قسم کے مواد کی بھرپور سکیننگ کیلئے جدید ترین مشینیں اور آلات، ایٹمی اثا ثوں کیلئے علیحدہ علیحدہ مقامات اور ان کے گرد سکیورٹی کا جامع اور ناقابلِ تسخیر حصار ان تمام شرائط اور انتظامات کو پورا کرتا ہے جو IAEA نے نیوکلیئر اثاثوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے اپنے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت اور ممکنہ حالات سے مؤثر اور بروقت نمٹنے کیلئے الگ سے موبائل ایکسپرٹ امدادی ٹیمیں تعینات کر رکھی ہیں اور یہ سب ان پچیس ہزار انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کی نفری کے علاوہ ہیں جو ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اپنے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت کیلئے جس قسم کے حفاظتی اور انتظامی انتظامات پاکستان نے اختیار کر رکھے ہیں‘ ان کے پیشِ نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ایٹمی صلاحیتوں کے حامل کسی بڑے سے بڑے ملک میں ان انتظامات کا عشرِ عشیر بھی نہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ اور مغرب آئے دن پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔کیا دنیا بھر کے میڈیا اور معلوماتی اداروں کیلئے یہ بات حیران کن نہیں کہ ان کی ہر روز نئی گھڑی جانے والی کہانیوں کے باوجود پاکستان کے پاس ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جو کسی اور نیوکلیئر سٹیٹ کے پاس نہیں ہے۔ وہ یہ کہ Pakistan is the only nuclear country with zero incidents of mishap.
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved