الجزائر ، مراکش اور مصر کے بعد ان تمام مغربی طاقتوں کو اس بات کا مکمل اندازہ ہوچکا ہے کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی سیکولر آمریتوں نے عرب دنیا میں ایک ایسی فضا تیار کردی ہے جس کے ردعمل میں عوام کی اکثریت ان نظریات اور خیالات کی پرجوش حامی ہوچکی ہے جو دنیا میں خلافت الہٰیہ کی بازگشت سناتے ہیں۔ عرب ممالک‘ جن کے سینے پر عالمی استعماری قوتوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ایک ناسور کے طورپر مسلّط کیا اور پھر آج تک اس کی ہرلحاظ سے پشت پناہی جاری رکھی، گزشتہ ساٹھ سال کے تجربوں سے اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ان پر مسلّط کی گئی آمریتیں جو کبھی کمیونسٹ نعروں کی صورت میں وجود میں آئیں اور کبھی مکمل طورپر سیکولر نظریات کی حامی بن کر، دراصل نہ ان کے مسائل حل کرسکیں اور نہ ہی اسرائیل کے وجود سے انہیں نجات دلا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں بھی ان آمریتوں کا زور ٹوٹا وہاں سے جنم لینے والی تحریکوں اور عوام کی اکثریت نے اسلام اور اس کے سیاسی اور معاشی نظام کے حق میں اپنی رائے دی۔ سب سے پہلے الجزائر کے الیکشنوں کا دوسرا مرحلہ نہ آنے پایا۔ مغربی امداد پر پلنے والی فوج نے راستہ روکا تو ملک گزشتہ دس سالوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دوسرا مرحلہ گزشتہ دوسالوں میں آنے والی عوامی لہر تھی جسے عرب بہار کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے دانشور یہ کہتے رہے کہ یہ دراصل آمریت کے خلاف انسانی حقوق اور آزادی کی جدوجہد ہے لیکن اس کے نتیجے میں جب مراکش اور مصر میں ایسے لوگ برسراقتدار آئے جو اسلام کے نظامِ عدل کو نافذ کرنا چاہتے تھے‘ تو سب کے سب چونک گئے ۔ فیصلہ ہوگیا کہ بس اب اس سے آگے کسی کو مہلت نہیں دیں گے۔ اب جو بھی برسراقتدار آئے گا‘ خواہ وہ اسلام کی بات کرے یاسیکولرازم کی، ہمارے اشاروں پر ناچے گا اور ہمارے ٹکڑوں پر پلے گا ۔ ہم کسی ایسے گروہ کو اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے جس میں ذرا سی بھی غیرت وحمیت باقی ہو۔ اس پالیسی کا پہلا شکار لیبیا تھا۔ یہاں پر دوسرے عرب ممالک کی طرح معمر قذافی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ لیکن جیسے ہی یہ تحریک اپنی کامیابی کی منازل طے کرنے لگی تو امریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ کود پڑا۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر اس نے گرم لوہے پر ضرب کاری لگائی اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم کروادی‘ جس کی وجہ سے لیبیا آج تک خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ادھرمصر میں عمومی اندازے یہ تھے کہ معاشرے میں سیکولر اثر ونفوذ زیادہ ہے‘ اس لیے مرضی کی حکومت آجائے گی‘ لیکن اخوان المسلمون کی تقریباً 80سال کی قربانیاں رنگ لائیں اور انتخاب نے حیران وششدر کردیا۔ آخرکتنے دن! اپنے پالتو میڈیا کے ذریعے پہلے اس پر اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا الزام لگایا گیا، اسے ایک سخت گیر مسلمان کے طورپر پیش کیا گیا‘ پھر چند لاکھ لوگوں کا ایک ہجوم قاہرہ میں اکٹھا کرکے سترفیصد عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت پر اپنی پروردہ فوج کو چڑھادیا گیا۔ احتجاج شروع ہوا تو تاریخ کے بدترین مظالم سامنے آئے، لیکن کسی کو نہ معصوم بچوں کی میتیں نظر آئیں اور نہ ہی عوام پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ٹینک۔ اپنی مرضی کے اسلام پسندوں کو فوج کی حمایت کا حکم دیا گیا تاکہ اگر کل کوئی ایسی حکومت وہاں لانا ضروری ہو تو یہ لوگ ایک شدت پسند مسلمان کا چہرہ پیش کردیں اور جسے علاقے میں موجود امریکی اشاروں پر ناچنے والی حکومتوں کی حمایت بھی حاصل ہو۔ ورنہ کم ازکم اگلے دس پندرہ سال یہاں خانہ جنگی تو چلائی جاسکتی ہے۔ اب شام نے پریشان کردیا تھا۔ گزشتہ چالیس سال سے وہاں ایک سیکولر بعث پارٹی کی حکومت تھی جسے وہاں کی دس فیصد سے کم اقلیت علوی یا نصیری عقیدہ رکھنے والوں نے قائم کیا تھا۔ میں عقیدے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں اثنا عشریہ عقیدہ رکھنے والے شیعہ بھی انہیں گمراہ تصور کرتے ہیں اور سنی تو تمام کے تمام ان کے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہاں معاملہ عقیدے کا نہیں تھا۔ معاملہ حافظ الاسد کے اس ظلم وتشدد کا تھا جو اس نے اپنے دور میں اپنے عوام پر روارکھا اور وہ خالصتاً سیکولر آمریت کا قائل تھا۔ ’’عرب بہار‘‘ آئی تو یہاں کے لوگوں کے زخم بھی تازہ ہوگئے۔ یہاں اختلاف کی وہ بدترین شکل سامنے آئی جسے عرب وعجم کا اختلاف کہتے ہیں۔ بشارالاسد کی حمایت نہ اس لیے کی جارہی ہے کہ وہ شیعہ ہے کیونکہ شیعہ فقہ کی کتابیں نصیریوں اور علویوں کے بارے میں الزامات سے بھری پڑی ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف لڑنے والوں کی امداد عرب ریاستوں کی جانب سے اس لیے کی جارہی ہے کہ یہ ریاستیں عوام کی خواہشات کے مطابق اسلام کا نظام چاہتی ہیں ۔ دونوں کی سیاسی غلبے کی جنگ ہے جس میں اب تک دولاکھ کے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں۔ لیکن خوف وہی ہے کہ اب یہ جدوجہد کامیابی کے کنارے جاپہنچی ہے ۔ کئی ایسے شہر ہیں جہاں باغیوں کا اقتدار قائم ہے۔ اب پوری مغربی دنیا میں یہ خوف ہے کہ اگر وہاں کوئی ایسی حکومت آگئی جو واقعی خلافتِ الہٰیہ کی قائل ہوئی اور مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگی تو پھر سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اب یہ سب طاقتیں انسانی حقوق اور مدد کے نام پر میدان میں کود رہی ہیں۔ تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ روس اور چین شام کے ساتھ ہوں گے۔ دلیل کے طورپر روس کی دھمکی کو پیش کیا جارہا ہے ۔ کس قدر سادہ لوح ہیں یہ لوگ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اورسکیورٹی کونسل میں جنگ کے حق میں رائے شماری ہورہی ہو تو بائیکاٹ کرنے والوں کا ووٹ ’’ہاں ‘‘ میں شمار ہوگا اور روس اور چین نے بائیکاٹ کیا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف نے عراق کے خلاف جنگ کے دوران سکیورٹی کونسل کا بائیکاٹ کرکے عوام کو یہ دھوکہ دیا تھا کہ ہم کس قدر غیرت مند ہیں کہ امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ سید الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ان طاقتوں کے رویوں کا پتہ دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے: کفر ایک ملت ہے یعنی سب مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں ۔ یہی صورت حال بوسنیا میں ہوئی تھی۔ جب وہاں مسلمانوں کی تحریک غلبے کے قریب ہوئی تو امریکہ نے حملہ کرکے وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنوا دی تاکہ کوئی باغیرت اسلامی حکومت نہ بن سکے۔ اب شام میں دواہداف ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں ایک کمزور حکومت قائم ہو اور مستقل خانہ جنگی شروع ہوجائے یا پھر ان کی مرضی کے اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہو جوان کے سامنے سرنگوں رہے۔ لیکن شاید اب وقت بدل چکا ہے۔ وہ زمانہ قریب آپہنچا ہے جس کی خبر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا ’’جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہوجائے اور جنگ عظیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کوفہ خراب نہ ہوجائے‘‘ (الفتن)۔ پھر فرمایا ’’عنقریب تم افواج کو پائو گے، شام میں‘ عراق میں اور یمن میں‘‘۔ عبداللہ بن حوالہ نے پوچھا ’’میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا تم شام کو لازم پکڑنا (للبہیقی) فرمایا ایمان فتنوں کے وقت میں شام میں ہوگا (للبہیقی) اور آپؐ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ جب شام میں فساد ہوتو تمہاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل ) اور پھر اس حدیث پر غور کریں ’’قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اہل عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہوجائیں اور اہل شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہوجائیں‘‘ اور فرمایا ’’تم شام کو لازم پکڑے رہنا‘‘ (مسند احمد بن حنبل) یہ وہ شام ہے جو امام مہدی کا ہیڈکوارٹر ہوگا، یہیں حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ یہیں سے ایک لشکر جہاد ہند کی نصرت کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ غیب کا علم تو صرف اللہ کو ہے اور وقت بھی اسی ذات باری کے قبضہ قدرت میں ہے۔ لیکن شاید وہ لمحات قریب ہیں کہ جس وقت میں فتنہ دجال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر نمازوں میں تشہد میں پناہ کی دعا مانگی اور سورہ کہف پڑھنے کی ہدایت کی تاکہ اس فتن کے دور میں عافیت میں رہیں اور حق کی پہچان ہوتی رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved