قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان کی تاریخی کامیابی اگرچہ کسی فوری تبدیلی کا محرک تو نہ بن سکی لیکن اس تغیر کے دور رس نتائج کو نظرانداز کرنا بھی خود فریبی کے مترادف ہو گا۔ بلاشبہ کوئی بھی منفی یا مثبت سیاسی سرگرمی اجتماعی نظام کی شکست و ریخت یا ارتقا پہ اثرانداز ہوئے بغیر رائیگاں نہیں جاتی؛ چنانچہ یہ ناگوار سیاسی کشمکش‘ جو ایک قسم کے اذیت آمیز انتشار کا زینہ بنتی نظر آتی ہے‘ ہمارے سیاسی تخیلات کی تشکیلِ نو کی متقاضی بھی ہے کیونکہ اس وقت دنیا کے اُفق پر تیزی سے تبدیل ہوتے تناظر ہمیں ان منجمد تصورات کے آسیب سے نکلنے پر مجبور کریں گے جن کی جبریت نے پچھلے پچھتر سالوں سے ہمارے مقدرکا احاطہ کر رکھا ہے۔ اگر قومی قیادت نے بدلتے ہوئے عالمگیر رجحانات سے خود کو ہم آہنگ رکھنے کی تدبیر نہ کی تو وقت کی سرکش لہریں ہمیں پامال بھی کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان خود بھی اسی تصور کے اسیر نکلے جس سے قوم کو آزاد کرانے کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔ خان صاحب کے بے سمت مزاحمتی بیانیے نے قومی سطح پر وہ سیاسی تاثر بنا لیا ہے جو کسی بھی موڑ پر رائے عامہ کو ریاست کی مخالف سمت کھڑا کر سکتا ہے؛ تاہم ایسے رجحانات کو طاقت کے ذریعے مسخر کرنا بھی مناسب نہیں ہو گا، جیسا کہ اس سے قبل 2017ء میں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو کچلنے کی خاطر کیا گیا تھا جس سے قومی وجود میں ناقابل عبور دراڑیں پڑ گئی تھیں اور جنہیں اب عمران خان کی مزاحمتی روش مزید گہرا کر دے گی۔ عوام کا ردعمل اس مرحلے پہ وہی ہو گا جو کسی بھی ہنگامی صورت حال کی شکار قوم کا ہوتا ہے کیونکہ ہماری اشرافیہ نے مخصوص حکمت عملی کے تحت ہمیشہ قوم کو اندرونی سیاسی خلفشار سے دوچار اور بیرونی خطرات کے خوف میں مبتلا رکھا ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں جنگ کے مسلسل خوف کے باعث یہاں ایک قسم کی پیچیدہ استبدادیت نمودار ہوئی جس کی کوکھ میں ایسی جنگی معیشت پلتی رہی جس کے بینی فشریز نے اپنے وسائل جمہوری نظام کے نفاذ کو روکنے کے لیے وقف رکھے۔ افسر شاہی کی بدعنوانیاں سویلین بالادست کے تجربات کی ناکامیوں کی کلاسیک مثالیں ہیں۔ اب یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ بار بار جن مزاحمتی رجحانات سے کھیلنے کا رسک لیا جاتا رہا‘ وہی اِس بندوبست کو توڑنے کا وسیلہ بنیں گے جس پر ہماری ریاست کی اساس رکھی گئی ہے۔
افسوس کہ جس عہد پُرآشوب میں قوم کو مضبوط اور قابلِ اعتماد ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت تھی‘ عین اسی وقت ہم بے یقینی کے سرابوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ فرسودہ استبدادی نظام کے زوال جیسے مسائل سے قطع نظر فی الوقت سوشل میڈیا کی آزاد تنقید نے ہر شعبۂ زندگی میں بددیانتی اور کم صلاحیتی کو بے نقاب کرنے کے علاوہ ہمیں جمہوریت کی مقدس حیثیت پر بھی شک کرنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ میڈیا، سیاست، مذہب، صحافت، ادب، حتیٰ کہ سائنس پر بھی اوسط درجے کے لوگ چھا گئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران تشدد کو روکنے اور اجڑی ہوئی دنیا کی تعمیرِنو کے لیے عالمی افق پہ ونسٹن چرچل، روزویلٹ، چارلس ڈیگال، مائوزے تنگ، جوزف سٹالن، مصطفی کمال، محمدعلی جناح، موہن داس گاندھی، جواہرلعل نہرو، حسن البنا، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی،رابندرناتھ ٹیگور اور فیض احمد فیضؔ جیسے عظیم اور اعلیٰ پائے کے بیسیوں قائدین عالمِ انسانیت کی رہنمائی کے لیے موجود تھے لیکن شومیٔ قسمت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مربوط دنیا اب قحط الرجال کے آشوب میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اس ترقی یافتہ عہد میں عالمی طاقتیں تعمیر کے پیمانے اور تخریب کی حدود متعین نہیں کرسکیں اس لیے چہارسو کبھی نہ تھمنے والی جنگوں کی بھڑکتی آگ اور سیاسی انتشار کی روزافزوں فضا مجموعی طور پر بدامنی کو بڑھا رہی ہے۔ شاید اسی''مابعد صداقت عہد‘‘ نے سب سے پہلے شرفِ آدمیت کو موت کے گھاٹ اتارا۔
امریکہ سے لے کر یورپ تک اورایشیا سے لے کر آسٹریلیا تک شہریوں کی مدد کرنے کے بجائے ماڈرن ریاستیں اپنی اہلیت کے خلا کو پُر کرنے کی خاطر میڈیا کی جدلیات کے ذریعے رائے عامہ کو التباسات کی افیم دے کر پیچیدہ مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا ہنر آزما رہی ہیں۔ اہلِ دانش اور صاحبانِ جبہ و دستار بھی اصلاحِ احوال کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی پیش کرنے سے عاری ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران سرعت کے ساتھ گہرا ہو رہا ہے اور جس اشرافیہ کے ہاتھ میں مملکت کی عنان ہے وہ دشمن طاقتوں کو ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی خلیج سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔ حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن کا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق بیان دراصل ہمارے ریاستی نظام کے انحطاط کی تصدیق اور پڑوسی ممالک کو محتاط رہنے کی تلقین تھا، جس پر ٹھنڈے دل و دماغ اور سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے ہم نے اسے پُرشور حقارت سے ٹھکرا دیا۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے داخلی سیاسی بحران کی بدولت کچھ عرصہ سے چین جیسے عظیم دوست نے خود کو فاصلے پر کر لیا ہے، اگر مملکت میں سیاسی بحران مزیدگہرا ہوا تو عالمی طاقتیں بالخصوص زخم خوردہ امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی راہ اختیار کر سکتا ہے۔ صدر جوبائیڈن کا سوچا سمجھا بیان دراصل ایک متعین منصوبے کی پیش بندی دکھائی دیتا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ دنیا کی واحد سپرپاور کو افغانستان میں شکست کے داغ کے علاوہ یوکرین جنگ سے پاکستان کی شعوری لاتعلقی پر شدید غصہ ہے۔ چنانچہ ایسے حالات میں جب ہماری مملکت عالمی طاقتوں کے پنجۂ استبداد سے نکلنے کے نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں مشغول ہے‘ داخلی تنازعات کو بڑھانا خطرات سے خالی نہیں ہو گا۔ بہتر یہی ہو گا کہ وزیراعظم صاحب پہل کرکے عمران خان کو سیاسی دھارے میں واپس لانے کی راہ ہموار کریں۔ سب مل کر نفرتوں اور عداوتوں کی بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کی مساعی کریں۔ بصورتِ دیگر ایک بے مقصد داخلی کشمکش میں الجھ کر دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں ہم مملکت کی سلامتی کے تقاضے پورے نہیں کر پائیں گے۔ لاریب ذرا سی کسرِ نفسی اور تھوڑی سی دیانت ہمیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے کافی ہو گی کہ زندگی وکائنات کا تنوع اور بوقلمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطے سے باہر ہے۔ تاریخ کی رفتار اور معنی بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ بہ تسلسل تشدد اور من مانی کارروائیوں کا دائرہ تنگ تر کیا جائے اور صلح و امن کے خط میں برابر توسیع ہوتی رہے۔
ہرچند کہ تاریخ کا اہم ترین اصول یہی ہے کہ ہر چیز جو ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے لیکن پھر بھی مغربی اہلِ دانش عہدِ زوال کے سکندری مہندسین کی طرح اپنی ناکامیوں کی تفاصیل اور فروعات جمع کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے اہلِ علم اس سوال پر غورکر رہے ہیں کہ بظاہر اعلیٰ سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں شامل انسان بتدریج زوالِ عقل کا شکار ہیں یا پھر رومن ایمپائر کی طرح نظام ہائے ریاست بجائے خود انہدام کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ اب تو عالمی سطح کے زوال کے نیچے چپکے سے قومی اور مقامی سطحوں پر سماجی و طبقاتی انحطاط کی بھی علامات کافی نمایاں ہونے لگی ہیں جس کے نتیجے میں نچلی سطح تک وسیع پیمانے کی معاشی بدحالی، چند افراد کی ضرورت سے زیادہ بڑھتی آمدنی، تقسیمِ دولت کی عدم مساوات، فاسد انفارمیشن کا سیلاب، سماجی ٹوٹ پھوٹ اور علاقائی تنازعات مقامی سطح پر تقسیم در تقسیم کا سبب بن کر انسانی بحران کو روز بروز بڑھا رہے ہیں۔ نفرتوں اور تعصبات پر مبنی ردعمل بدانتظامی کا محرک بن کر بے پناہ وسائل کی حامل اس ترقی یافتہ دنیا میں عام انسانوں کیلئے خوراک، صحت، پانی، زمین، پناہ گاہ تک رسائی محدود اور مذہبی، لسانی، نسلی اور گروہی تشدد کو بڑھا رہا ہے۔ زمین کے طول و عرض میں پھیلی جنگوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ بھی وسیع پیمانے کی نقل مکانی اور ہجرت کا وسیلہ بن گئی ہے۔ اگر اس بحران کی قطعی وضاحت کیلئے کوئی مطلق تجرباتی پیمانہ یا قدر ہی موجود نہیں تو اس کی دوبارہ تعمیر کیسے ہو گی؛ تاہم کنفیوشس کہتے ہیں''اگر ریاست بدنظمی کا شکار ہو تو موزوں کام اس کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی زندگیوں کو فرض کی باقاعدہ ادائیگی والا بنا لیجئے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved