تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     31-08-2013

ایریا 51پہلی بار سطح زمین پر

سیلاب کے حوالے سے بڈبیر گزشتہ دنوں خبروں میں تھا مگر پشاور کے مضا فات میں اس ہوائی اڈے کو جو شہرت یا رُسوائی1960ء میں حاصل ہوئی پہلے یا بعد میں کبھی حاصل نہیں ہوئی ۔یکم مئی کو اس جگہ سے ایک امریکی طیارہ‘ سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے روانہ ہوا مگر روسی توپوں نے اسے مار گرایا اور نکیتا خروشچیف نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے پھر اپنی سر زمین سے سوویت علاقے کے خلاف کسی کارروائی کی اجازت دی تو اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا ۔ یو ٹو اور انتہائی بلندی پر پرواز کرنے اور دکھائی نہ دینے والے ہوائی جہازوں کی آزمائشیں ریاست نواڈا کے جس دور افتادہ علاقے میں کی جاتی تھیں وہ امریکی نقشے پر موجود نہیں تھا۔ اب ہے اور ایریا 51کہلاتا ہے۔ سی آئی اے کی دستا ویزات میں‘ جو حال ہی میں صیغہ راز سے باہر آئی ہیں‘ پہلی دفعہ اس علاقے کی موجودگی مانی گئی ہے ۔ یہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قومی سلامتی کے عتیقات National Security Archive پر جمعرات کے روز ڈالی گئی ہیں ۔اگر آپ کے پاس کمپیوٹر ہے تو ان کاغذات کو آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک سائنسدان پروفیسر کی محنت شاقہ کا ثمر ہے جو جاسوسی طیارے کی تاریخ پر سی آئی اے کی جاسوسی کر رہا تھا ۔ پشاور سے صرف دس کلو میٹر دُور کوہاٹ روڈ پر1958 ء میں پاک فضائیہ کے لئے بڈبیر کے مقام پر ایک مستقر تعمیر کیا گیا تھا جو امریکی فوج کے تصرف میں تھا۔ یہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا اور ریا ست ہائے متحدہ امریکہ اور یونین آف دی سوویت سوشلسٹ ری پبلکس USSR کے مابین کشیدگی زوروں پر تھی ۔ دونوں بڑی طا قتیں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتی تھیں۔ واشنگٹن نے سوویت یونین پر پروازوں کاایک پروگرام شروع کیا اور سویلین ایجنسی سی آئی اے نے امریکی فوج کو اس سے الگ رکھنے اور ملک کو کسی امکانی نتیجے سے بچانے کی کوشش میں اسے چلانے کی ذمہ داری قبول کی ۔ اس کے خیال میں یو ٹو اس پرواز کے لئے موزوں تھا جو نہایت بلندی پر اُڑ سکتا تھا مگر روس نے اسے Sverdlovsk (موجودہ Yekaterinburg یوکرین) کے نزدیک گرا لیا۔ واشنگٹن نے پہلے تو اس واقعے سے انکار کیا مگر جب ماسکو نے امریکی ہوائی جہاز کے پرزے ہوا با ز فرانسس گیری پاور زکو زندہ اور اس کی لی ہوئی تصویریں دنیا کے سامنے پیش کیں تو اس نے تسلیم کیا کہ یو ٹو اسی کا تھا اور اسے سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ ا مریکہ میں یہ صدر ڈوائٹ آئزن ہاور اور پاکستان میں صدر محمد ایوب خان کے ا قتدار کا زمانہ تھا ۔ دونوں بہت خفیف ہوئے ۔ پیرس میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ایک امن کانفرنس ہونے والی تھی جو منسوخ ہوئی اور پاکستان نے پشاور سے امریکی صف لپیٹنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا ۔ تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ ماسکو ’ واشنگٹن اور کراچی میں حالات معمول پر نہ تھے ۔ سوردلوسک ایک اہم ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس تھا جہاں ٹینک‘ توپیں‘ نیوکلیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنتے تھے ۔پشاور سے یہ جگہ چھ سو میل دُور تھی جب کہ ماسکو اس جگہ سے ایک ہزار میل پرے تھا ۔ پاکستان کو ایک محافظ درکار تھا جس کی چھتری تلے وہ ترقی کا عشرہ مکمل کر سکتا اور اس محافظ کا انتخاب صدر ایوب کے پیشرو کر چکے تھے ۔ صدر آئزن ہاور نے کراچی کا دورہ کیا اور ایوب نے ان کی مہمانداری کی ۔ اگر یوُ ٹو سے آپ کا ذہن شیکسپیئر کے المیے جولیس سیزر کی طرف جاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ سیزر کا ایک دوست مارکس بروٹس تھا ۔جب اس نے سیزر پر خنجر کا وار کیا تو بے تحاشہ اس کی زبان سے نکلا۔ ’’You too, Brutus یعنی تم بھی‘ بروٹس؟‘‘ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم میں روس امریکہ کا اتحادی تھا ۔جرمنی اور جاپان وغیرہ (محوری طاقتوں) پر فتح پانے کے بعد یہ اتحاد ٹوٹ گیا اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک ‘‘سرد جنگ ’’ شروع ہو گئی جس کے تحت سوویت یونین نے کئی ملٹری کمپلیکس بنائے اور امریکہ نے جدید طیاروں کی آزمائش کے لئے ایریا 51 جیسے بہت سے علاقے مخصوص کئے جن کے باہراندرونی سلامتی کے قانون کے زور پر یہ انتباہ کیا جاتا تھا کہ ناجا ئز طور پر گزرنے والے کے خلاف ہلاکت خیز طا قت کے استعمال کی اجازت ہے ۔ عوام کو اس علاقے سے دور رکھنے کے لئے اس کے ارد گرد اسرار کا جالا بُن دیا گیا تھا ۔ایک افواہ یہ تھی کہ اڑن طشتریاں اس علاقے میں اترتی ہیں اور امریکی فوج آسمانی مخلوق پر تجربے کرتی ہے۔ فوج ہمیشہ اس بات کی تردید کرتی تھی کہ لاس ویگاس سے کوئی ایک سو میل شمال میں مو ہاوی صحرا میں ایریا 51 کا وجود ہے۔ وہ اس علاقے کو گروُم لیک کہنا پسند کرتی تھی جو یو ٹو اور دوسرے stealthخفیہ طیاروں کے اترنے اور چڑھنے کی ایک پٹی سے وابستہ ہے ۔بیشتر افراد علاقے میں کام کرنے کے لئے ویگاس سے آتے تھے ۔ان میں سے کچھ جسم پر عجیب و غریب خراشیں پڑنے اور سانس کے مسائل میں مبتلا ہو کر مر گئے۔ دوسروں نے ماحولیاتی زہر ناکی کا مقدمہ دائر کیا اور یہ کہنے لگے کہ وہ زہریلے کیمیاوی مادوں کی زد میں آکر بیمار پڑ گئے ہیں جن میں ریڈار کی آنکھ سے بچا نے والے مادے اور دوسرا پوشیدہ سازو سامان شامل ہے۔ یہ مادے اڈے پر کھلے گڑھوں میں جلائے جاتے تھے۔ ان کارکنوں نے تحریری طور پر عہد کیا تھا کہ وہ کسی کو یہ نہیں بتائیں گے کہ علاقے یا ranch میں وہ کرتے کیا ہیں؟ جب جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ واشنگٹن ڈی سی کے پروفیسر جاناتھن ٹرلی نے حکومت کے خلاف دعویٰ دائر کیا اور ان میں سے کئی کارکن مدعی بنے تو ایریا 51 کا راز کھل گیا ۔ صدر آئزن ہاور نے بنجر زمین کے اس ٹکڑے کو جو ہمیشہ ایریا 51کے نام سے یاد کیا جاتا رہا نواڈا ٹیسٹ سائٹ میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی ۔یہ علاقہ جوہری اسلحہ کی آزمائش گاہ کے قریب تھا ۔ کلنٹن انتظامیہ نے کارکنوں کو اپنے دعوے کی پیش رفت سے روکنے کی سر توڑ کوشش کی ۔ صدر کلنٹن نے ایک حکم پر دستخط کئے جس کی رو سے ایریا 51 کو اپنی ماحولیاتی آلودگی کے افشا سے تحفظ دیا گیا تھا تاہم علاقے کے اسرار و رموز ہالی وڈ کے فلمسازوں کی قوت متخیلہ کو گرماتے رہے ہیں اور اس علاقے کے حوالے سے بہت سے سائنس فکشن فلمیں نمائش کے لئے پیش ہو چکی ہیں ۔ ایک ایسی فلم تو نمائش کی منتظر ہے ۔ پلاٹ سادہ ہے ۔ جب اخبار نویس ایک ایسے علاقے کا جو آسمانی مخلوق کا بسیرا ہے دورہ کرتے ہیں تو ان پر عذاب نازل ہوتا ہے ۔اب تو صرف کوئی فاتر العقل ہی یہ باور کرے گا کہ آسمانی مخلوق ہمارے ہاں آتی جاتی ہے اور ایریا 51 میں رہتی بستی ہے ۔ نہ سوویت یونین ہے اور نہ گیری پاورز’ یو ٹو کی جگہ انٹر نیٹ نے لے لی ہے اور امریکی شہریوں کی جاسوسی کے سرکاری راز ظاہر کرنے کے ہفتوں بعد روس‘ سی آئی اے کے ٹھیکیدار ایڈورڈ سنو ڈن کو سیاسی پناہ دیتا ہے اور صدر اوبامہ’ ولا دیمیر پُوتن سے اپنی طے شدہ میٹنگ منسوخ کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد سمیت دنیا بھر کے صدر مقامات سے امریکی سفارتکاروں کے لاکھوں خفیہ تار Wikileaks.com کے حوالے کرنے کے جرم میں آرمی کے تجزیہ کار بریڈلی میننگ کو 35سال قید ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی باقی زندگی عورت کی حیثیت سے گزارنے کا اعلان کرتاہے اورگیری پاورز جونیر اب امریکی شہری ڈاکٹر سرگے خروشیف کے ذاتی دوست اور کولڈ وار میوزیم کے ڈائریکٹرہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved