تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     22-10-2022

آخری چال

یہ تو واضح ہوچکا تھا کہ میدان میں اس کا مقابلہ کر نہیں سکتے۔ یہی آپشن پھر رہ جاتا تھا کہ کوئی تکنیکی حربہ استعمال کرکے عمران خان کو سیاسی میدان سے ناک آؤٹ کر دیا جائے۔ ایسا حربہ کیا ہوسکتا تھا وہ ہم نے دیکھ لیا۔ قانونی دلائل تو وکیلوں کا کام ہے اور یہ دلائل عدالتوں میں سنے جائیں گے۔ لیکن جو سیاست اس حربے کے پیچھے ہے وہ ڈھکی چھپی نہیں ہے۔پاکستان کے عوام جان چکے ہیں کہ سامنے والی سرکار اور اصلی سرکار عمران خان کو برداشت نہیں کرسکتے اور اُنہوں نے اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا تھا۔
سوال صرف اتنا ہے کہ نقلی اور اصلی سرکار اس اقدام کو ہضم کر پائیں گے یا نہیں۔ یعنی عمران خان کو نااہل قرار دینے کا عوامی ردِعمل کتنی شدت اختیار کرسکتا ہے۔اہم سوال یہ ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں اسلام آباد سے خبریں یہ تھیں کہ عوامی ردِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیکن کتنا ردِ عمل ہوسکتا ہے یہ کچھ دیر بعد ہی پتا چلے گا۔
ایک بات البتہ واضح ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو اس دھرتی کے عوام ہضم نہیں کرپائیں گے۔ جن کے خلاف بڑے بڑے منی لانڈرنگ کے مقدمات تھے وہ تو بری ہوتے جا رہے ہیں لیکن عمران خان کو توشہ خانہ کے معاملے میں دھرلیا جائے‘ یہ بات کون مانے گا۔ بہرحال دیکھتے ہیں صورتحال کیا بنتی ہے۔ لانگ مارچ کی کال اب بے معنی ہوکر رہ گئی کیونکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے یوں سمجھئے طبل ِ جنگ بج چکا ہے۔ جیسے اوپر عرض کیا فیض آباد وغیرہ سے احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں۔ شام تک اور رات گئے کیا صورتحال بنتی ہے اس کا اندازہ بعد میں ہی لگایا جاسکے گا۔
خدا ہی اس ملک پر رحم کرے۔ شاید ہمارے نصیب میں استحکام نام کی چیز نہیں لکھی ہوئی۔ اچھی بھلی حکومت چل رہی تھی لیکن اگلوں نے اپنی وجوہات کی بنا پر اُس حکومت کو چلتا کیا۔ صورتحال سنبھال لیتے تو اور بات تھی لیکن پچھلے پانچ چھ ماہ میں ملکی صورتحال ہرمحاذ پر بگڑتی ہی گئی۔اور اسلام آباد میںجو حکومت بٹھائی گئی ہے وہ حکومت ہونے کا شائبہ دیتی ہی نہیں۔اصل طاقت کہاں ہے وہ ہم سب کو پتا ہے لیکن صورتحال کسی کی گرفت میں نہیں۔اور اب ایک نیا تماشا شروع ہو گیا ہے۔ اس تماشے کی منطق واضح ہے۔ یہ سارے رنگساز جو حکومت میں بٹھائے گئے ہیں سیاسی لحاظ سے عمران خان کا مقابلہ کر نہیں سکتے۔یہ رنگساز کہاں کھڑے ہیں اور عمران خان کی مقبولیت کیا ہے وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں واضح ہو گیا تھا۔ کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ چند دن پہلے کے ضمنی انتخابات میں پوری ہو گئی جب آٹھ میں سے چھ سیٹیں عمران خان جیت گیا۔ عام انتخابات کی سکت کسی میں نہ تھی کیونکہ تمام رنگسازوں کو معلوم تھا کہ عام انتخابات ہوئے تو پٹ جائیں گے۔پھر یہی رہ گیا تھا کہ کوئی عذر بنا کر عمران خان کو سیاست سے نکال دیا جائے۔ یہ مہربانی الیکشن کمیشن نے کر ڈالی ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔
تکنیکی ناک آؤٹ تو کر دیا لیکن عمران خان کی مقبولیت کا کیا کریں گے۔ عمران خان اچھا یا برا ہے‘ یہ الگ بحث ہے۔ لاکھ خامیاں ہوں گی اُس میں لیکن فی الوقت عوام کی اکثریت کے دلوں پر وہ راج کررہا ہے۔ کسی کو بری یا اچھی لگے یہ حقیقت ہے۔اوراس حقیقت کے ہوتے ہوئے تکنیکی ہتھکنڈے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔پہلے تو سرکار یہ فیصلہ کرے کہ عام انتخابات پہلے یا وقت آنے پر کرانے ہیں یا نہیں۔اگر انتخابات سے کوئی چھٹکارا نہیں اور کرانے ہی پڑیں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو نکال کر انتخابات کی وقعت کیا رہ جاتی ہے۔ایسے انتخابات کو کوئی مانے گا ؟ ان کو درست سمجھا جائے گا ؟ تو پھر ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں نے کیا سوچ رکھا ہے ؟ جو کھلواڑ ہے وہ کم ہے کہ آپ اس میں بڑھاوا کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد کیا پاکستان میں سیاسی استحکام آ جائے گا؟کیا کوئی ڈھنگ کی حکومت بن سکے گی؟پتا نہیں پھر اکابرینِ ملت کی کیا سوچ ہے۔
پہلے ہی پروفیشنل قسم کے لوگ جن کے پاس کچھ تعلیم اور ہنر ہے‘ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں۔ پروفیشنل لوگوں میں جس کسی کو باہر کی نوکری ملے وہ ملک چھوڑ کے جا رہا ہے۔ایک تو اتنے بہترین دماغ یہاں ہیں نہیں اور جو ہیں اُ ن کی ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کمزور پڑ جائے تو اسے کوئی مثالی صورتحال تو نہیں کہے گا۔ اوپر سے ہماری سیاسی صورتحال ہے جو بگڑتی جا رہی ہے۔ خود ملاحظہ کیجئے کہ جب سے شہبازشریف اور اُن کا ٹولہ اقتدار میں لائے گئے ہیں ملک و قوم کی کون سی بہتری ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں سے آگے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن نہیں‘ آپ کی ذاتی سوچ کہتی ہے کہ جو بھی ہو جائے عمران خان کو ہم نے برداشت نہیں کرنا۔ہمیں وہ چاہئے جو ڈگڈگی پر ناچ سکھائے۔ پوچھا جائے کہ عمران خان کا گناہ کیا تھا تو آگے سے جواب نہیں ملتا۔بس ذاتی نوعیت کے مسائل تھے جن کی وجہ سے عمران خان قابلِ قبول نہ رہا۔ حکومت کی تبدیلی سے ملک کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے اس کا کام دکھانے والوں نے نہ سوچا۔ نکال کر اُنہوں نے سمجھا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
یہیں پر تو غلطی کھا گئے کیونکہ حل ہونے کے بجائے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا کیونکہ عمران خان بکری بننے کے بجائے کھڑا ہو گیا اور اُس نے ہرایک کو چیلنج کردیا۔ صرف چیلنج ہی کرتا تو کسی کا کیا بگڑنا تھا لیکن عوام اُس کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ جو کال دیتا عوام لبیک کہتے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کے پسینے چھوٹنے لگے کیونکہ اُ ن کی تمام منصوبہ بندی میں یہ نکتہ درج نہیں تھا کہ عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ یہی اُن کی پریشانی کا باعث بن گیا۔ اور اب یہ نااہلی والا فیصلہ آ گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے مقصد کیا حاصل ہوگا؟
اب ایک نئے کھیل میں ہم داخل ہو گئے ہیں۔ مزید خرابہ ہوگا۔ معیشت پہلے ہی بسترِعلالت پر ہے۔ اس اقدام سے معیشت کی بہتری تو ہو نہیں سکتی۔ عوام سیاست سے بیزار نہیں لیکن سیاست کے پرانے چہروں سے بیزار ہیں۔جو ٹھیکیدارانِ ملت ہیں اُن کو صرف پرانے چہرے ہی نظر آ رہے ہیں‘اس لیے اُن سے گزار اکر رہے ہیں۔ پہلے ہی بے یقینی بہت تھی مزید بڑھ جائے گی۔ کوئی تو ہوجو ہمیں بتا سکے کہ آگے کیا ہونے کو ہے۔
نااہلی کے اقدام سے پہلے بھی علامتیں کچھ اچھی نہ تھیں۔ جو کچھ شہبازگل کے ساتھ ہوا‘ جو اعظم سواتی کے ساتھ ہوا‘ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اصل فیصلہ سازوں کا موڈ کیا ہے۔صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ برداشت کا مادہ کم ہو گیا ہے۔ اور اب یہ آخری چال بھی ہمارے سامنے آ گئی۔عوامی ردِ عمل ہوگا‘ اس میں شک نہیں ہونا چاہئے۔صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس ردِعمل کی شدت کیا ہوتی ہے۔یہ بھی دیکھنا ہے کہ عمران خان گرفتار ہوتے ہیں کہ نہیں۔ نہیں ہوتے تو کیا کرتے ہیں۔ بس سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ ایک طرف عوام کے جذبات دوسری طرف چھوٹی چھوٹی مصلحتیں۔ چھوٹی مصلحتوں سے قوم خاصا نقصان اٹھا چکی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جس نئے کھیل کا آغاز ہوچکا ہے اُس سے قوم کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved