نون لیگ کی سیاسی حکمتِ عملی پر کالم لکھنا ایسا ہی ہے جیسے 'افغانستان کی ریلوے‘ پر مضمون نگاری کی جائے۔
قیادت نامعلوم۔ بیانیہ معدوم۔ تنظیمِ جماعت ہے نہ تفہیمِ مسائل۔ عوام سے معاملہ نہ خواص سے رابطہ۔ اقتدار پارٹی کی رگوں میں تازہ لہو دوڑانے کے بجائے اس کے لیے ملک الموت کی دستک ثابت ہوا۔ رخشِ سیاست بس چل رہا ہے 'نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘۔ چند ماہ پہلے تک جسے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھا جا رہا تھا آج 'ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔
نون لیگ کے کچھ مسائل تو موروثی ہیں۔ جیسے ایک خاندان میں اختیارات کا ارتکاز۔ جیسے تنظیم اور جماعت سازی کو بے وقعت سمجھنا۔ جیسے مخلص کارکنوں سے لاتعلقی۔ بہت سے مسائل مگر نئے بھی ہیں۔ جیسے سماج کے فکری اور عملی رجحانات سے افسوس ناک حد تک عدم آگہی۔ آج کی نون لیگ ان قدیم و جدید مسائل کی آماجگاہ بن چکی۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اپنی ان کمزوریوں کا ادارک بھی نہیں۔
آپ نون لیگ کے کسی رہنما یا کارکن سے یہ چند سوال کریں: آپ کی جماعت کا بیانیہ کیا ہے؟ آپ کی تنظیم کہاں ہے؟ مرکزی یا صوبائی دفاتر کہاں پائے جاتے ہیں؟ جماعتی سطح پر فیصلہ سازی کا فورم کون سا ہے؟ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ رہنما ہوں یا کارکنان‘ کسی کے پاس ان میں سے کسی سوال کو کوئی جواب نہیں۔ اس کے بعد‘ کیا ضمنی انتخابات کے نتائج وہی نہیں ہونے چاہئیں تھے جو سامنے آئے؟
ہر کام کے لیے مردانِ کار ہوتے ہیں۔ لکل فن رجال۔ کام ہی نہ ہو تو مردانِ کار کہاں سے آئیں گے؟ قیادت کی سطح پر سب سے پہلے یہ ادراک لازم ہے کہ پارٹی کی ضروریات کیا ہیں؟ اس کے بعد وہ یہ دیکھے گی کہ اس کی صفوں میں کون ہیں جو ان ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں؟ اگر ہیں تو ان سے کام لیا جائے۔ اور اگر نہیں ہیں تو اس کمی کی تلافی کی جائے۔ میں نون لیگ کے بہت سے باصلاحیت لوگوں کو جانتا ہوں جو اس وقت پارٹی کی ان ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ان کی طرف مگر کسی کی نگاہ نہیں۔ نواز شریف صاحب کی نگاہ اگر اٹھتی ہے تو گھر کی چار دیواری سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔ لیڈر کی پہچان تو یہ ہے کہ وہ دور بین ہوتا ہے۔
تین دائرے ہیں جن میں ایک پارٹی کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوتا ہے۔ پہلا دائرہ ہے فکری۔ ایک بیانیہ کی موجودگی۔ عوام آپ کے ساتھ ہم قدم کیوں ہوں؟ کوئی وژن؟ کوئی نعرہ؟ کوئی پیغام؟ 'ووٹ کو عزت دو‘ مثال کے طور پر ایک پیغام ہے اور ایک وژن بھی۔ یا 'روٹی کپڑا اور مکان‘ بھی ایک نعرہ ہے جو عوام کو متوجہ کرتا ہے۔ یہ بحث تو بعد کی ہے کہ نعرہ یا پیغام عوام کا جذباتی استحصال ہے یا اس میں اخلاص ہے۔ پہلے مرحلے میں آپ کے پاس کہنے کوکوئی بات تو ہو جسے لے کر آپ عوام کے پاس جائیں۔
پچھلے چھ ماہ سے نون لیگ کے پاس کوئی ایسا نعرہ یا پیغام نہیں ہے جو عوام کو اس جماعت کی طرف متوجہ کر سکے۔ عمران خان صاحب پر جوابی الزامات اور بس۔ کوئی مثبت پیغام نہیں۔ میں حکومت کی نہیں‘ پارٹی کی بات کر رہا ہوں۔ اقتدار تک پہنچنے کے بعد‘ ووٹ کو عزت دینے کی بات بھی نہیں کی جارہی۔ کیا ووٹ کو عزت مل چکی؟ کیا اس نعرے کی اب ضرورت نہیں رہی؟ اگر مل گئی ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تمام فیصلے عوام کے منتخب نمائندے کر رہے ہیں۔ اب ووٹ کو مزید عزت کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد لازم ہے کہ پارٹی کے پاس عوام کے لیے کوئی نیا پیغام ہو جو نون لیگ کا ساتھ دینے کے لیے جواز بن سکے۔ اور اگر ووٹ کو ابھی عزت نہیں ملی‘ آج بھی فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں تو اس نعرے کو چھوڑنے کا جواز کیا ہے؟
بیانیے کی تفہیم‘ تشکیل اور ادراک کے لیے لازم ہے کہ پارٹی کے پاس ضروری فکری و علمی سرمایہ (Intellectual Capital) ہو۔ ایسے افراد جو سماج اور ریاست کی تفہیم رکھتے ہوں۔ سماجی علوم کے ماہر۔ میرا خیال ہے کہ پارٹی کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن میں یہ صلاحیت ہے۔ مثال کے طور پر بیرسٹرظفر اللہ خان ہیں۔ وہ قانون دان ہی نہیں بلکہ مذہبی اور سماجی علوم و ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف اس کی گواہ ہیں۔
دوسرا دائرہ تنظیم ہے۔ ایک موثر تنظیم کے بغیر جو تحصیل اور قصبے کی سطح تک پھیلی ہو‘ کوئی سیاسی جماعت اپنا وجود ثابت نہیں کر سکتی۔ اس وقت ملک میں نون لیگ کی کوئی تنظیم موجود نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی اور تنظیمی مناصب کی یکجائی ہے۔ تنظیم سازی ایک کل وقتی کام ہے اور وزارت بھی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک آدمی دو کل وقتی کام بیک وقت سر انجام دے سکے۔ رانا ثنا اللہ مثال کے طور پروزیر داخلہ ہیں اور ساتھ ہی پنجاب نون لیگ کے صدر بھی۔ موجودہ حالات میں وزارتِ داخلہ کے لیے 24گھنٹے بھی کم ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دونوں کام ایک ساتھ کر سکیں؟
نون لیگ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس میدان میں بھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ جیسے صدیق الفاروق۔ جیسے خواجہ سعد رفیق۔ یہ لوگ اپنے دورِ طالب علمی سے سیاسی تنظیموں کا حصہ رہے ہیں۔ پارٹی کے ساتھ ان کا اخلاص بھی ظاہر و باہر ہے۔ ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ملک میں ایک مؤثر تنظیم کھڑی کی جا سکتی ہے۔ پنجاب میں چلیں کچھ لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں‘ کے پی اور سندھ میں تو پارٹی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ میں کے پی کے جس سنجیدہ صحافی یا سیاست دان سے ملا‘ اس کی رائے یہ تھی کہ نون لیگ کے پی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی قومی جماعت اس درجہ ایک پورے صوبے سے غیرمتعلق ہو سکتی ہے۔
تیسرا دائرہ ابلاغ ہے۔ عوام تک اپنے پیغام کو اس طرح پہنچانا کہ وہ واضح ہو اور سب تک اس کا ابلاغ بھی ہو جائے۔ پیغام ہو مگر اس کا مؤثر ابلاغ نہ ہو تو اس کا ہونا بے معنی ہے۔ پارٹی کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اب بھی اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز سے اپنی رائے بناتے ہیں۔ جیسے اخبار میں دو یا تین کالمی خبر کی اشاعت آج بھی مؤثر حکمتِ عملی کا اظہار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رائے سازی میں ان اداروں کا حصہ اب بہت کم ہو گیا ہے۔ آج سوشل میڈیا سب سے مؤثر ذریعۂ ابلاغ بن چکا ہے۔
اس کی دلیل تحریکِ انصاف ہے جوغیر مصدقہ اطلاعات کو بھی اس طرح پھیلاتی ہے کہ بچے بچے تک اس کا ابلاغ ہو جاتا ہے۔ جیسے کرپشن پر نیٹ فلیکس کی فلم۔ جیسے کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کے کورس میں کرپشن کا ذکر اور ان میں شریف خاندان کا حوالہ۔ ایسے سفید جھوٹ کی بھی مؤثر تردید نہیں ہو سکی۔ نون لیگ اس حقیقت کا بھی ابلاغ نہیں کر سکی کہ 'صحت کارڈ‘ کا آغاز وزیراعظم نوازشریف نے کیا تھا۔ اسلام آباد‘ آزاد کشمیر اور پنجاب کے کئی شہروں میں اس کا با ضابطہ افتتاح ہو چکا تھا۔ تحریکِ انصاف اسے اپنی حکومت کا بڑا کارنامہ بنا کر پیش کرتی ہے اور نون لیگ اس کی موثر تردید پر بھی قادر نہیں۔ نون لیگ کے لوگ صرف ایک کام جانتے ہیں: 'پریس کانفرنس‘ ہر لیڈر یہی ایک کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اس 'حکمتِ عملی‘ کے ساتھ جو جماعت سیاست کرے گی اس کے ساتھ عوام وہی سلوک کریں گے جو انہوں نے ضمنی انتخابات میں کیا ہے۔ نون لیگ کی قیادت کو اس سوال پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہارے کیوں؟ انہیں تو یہ سوچنا چاہیے کہ کسی سیاسی حکمتِ عملی کی غیر موجودگی میں ہزاروں لوگوں نے انہیں ووٹ دیے کیسے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved