تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان توشہ خانہ ریفرنس میں اثاثے چھپانے کے جرم میں الیکشن کمیشن سے نااہل قرار پائے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں قرار دیا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے‘ اس آرٹیکل کے مطابق وہ نافذ العمل کسی قانون کے تحت فی الوقت قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے اہل نہیں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کے تحت عمران خان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک ہے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عمران خان فوجداری کارروائی سے بچ جاتے ہیں تو آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہے مگر وزیر قانون کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہلی پانچ برس کیلئے ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ یہ ان کا قانونی حق ہے تاہم قانونی حق کو استعمال کرنے سے پہلے تحریک انصاف نے نااہلی کے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے پورے ملک میں احتجاج ریکارڈ کرایا جس میں خاطر خواہ لوگ باہر نہیں نکل سکے‘ توقع تھی کہ خیبرپختونخوا سے سخت ردِعمل آئے گا مگر وہاں سے بھی بڑے احتجاج کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر خان صاحب کا ایک وڈیو کلپ گردش کر رہا تھا جس میں انہوں نے عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی ‘ انہیں یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ شاید آج کے بعد وہ عوام سے مخاطب نہ ہو سکیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کو کمزور مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی اسی طرح عمران خان کو بھی کمزور کیس میں سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان کی نااہلی سے محض چند روز قبل قومی اسمبلی کے آٹھ اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی‘ اگر ایک ماہ پہلے سے محفوظ فیصلے کو سنانے کا پروگرام تھا تو ضمنی انتخابات کیوں کرائے گئے؟ اپریل 1979ء کو عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی جس کا دارومدار وعدہ معاف گواہوں پر تھا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی کو سزا دلوانا مقصود ہو اور مقدمہ کمزور ہو تو وعدہ معاف گواہوں کا سہارا لیا جاتا ہے کیونکہ مقصد پورا ہونے کے بعد وعدہ معاف گواہوں کی سزا معاف کر دی جاتی ہے یا سزا میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ بھٹو کو سزا دینے والے کرداروں کو چونکہ معلوم تھا کہ کیس کمزور ہے اس لئے گواہوں کو بھی اقبالِ جرم میں لاہور ہائی کورٹ نے صوابدیدی اختیارات کے تحت سزائے موت سنا دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے قانونی ماہرین اور سابق ججز اعتراف کر چکے ہیں کہ کمزور کیس میں انہیں سزا دی گئی‘ سزا دینے والے ججز نے بعدازاں افسوس کا اظہار بھی کیا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ جب عدالت کی طرف سے ایک کمزور کیس میں بھٹو کو موت کی سزا سنائی گئی تو سیاسی حلقوں نے اس پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ کندھے بھی فراہم کیے۔
28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا‘ نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ لیگی رہنما اسحاق ڈار‘ مریم نواز‘ حسن نواز‘ حسین نواز‘ اور کیپٹن(ر) صفدر کو شامل تفتیش کرنے اور ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا حکم بھی دیا گیا‘ یعنی پانامہ کیس میں پوری شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا۔ کیس پانامہ کا تھا مگر نواز شریف کو سزا اقامہ پر دی گئی۔ پانامہ کیس میں عائد کردہ الزامات کے بجائے نواز شریف کو ایک کمپنی کا ملازم بنا کر اس کی تنخواہ کا معاملہ اٹھایا گیا جس کے وہ رسمی ملازم تھے اور جس رقم کو انہوں نے وصول ہی نہیں کیا تھا ‘کہا گیا کہ وصول تو کر سکتے تھے اور یہ آپ کا اثاثہ ہے‘ اس معاملے پر آپ نے جھوٹ بولا ہے اس لیے نااہلی کی سزا سنا دی گئی۔ لیگی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین نے نواز شریف کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کو کمزور قرار دیا تھا‘ ایک پوائنٹ پر آج کے چیف جسٹس بھی متفق ہیں کہ تاحیات نااہلی کا قانون ''کالا‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو اس کالے قانون کی زد میں آ چکے ہیں اس کا ازالہ کیسے ہو پائے گا؟ میاں نواز شریف کے نااہلی کے فیصلے پر تحریک انصاف نے خوشی کا اظہار کیا تھا‘ عمران خان نے کہا تھا کہ جب تک اس ملک میں ''طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے کر عدالت نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقتور کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے‘‘۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کی نااہلی پر اکثر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کیس بھی کمزور ہے‘ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں سقم موجود ہے‘ تحریک انصاف اس سقم کا فائدہ اٹھائے گی‘ تاہم معاملہ یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں کمزور فیصلوں پر سیاسی حریفوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا گیا‘ اسی طرح خان صاحب کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد بھی ویسی ہی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ یعنی صرف چہرے بدلے ہیں کہانی وہی پرانی ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کو نااہل کرانے کیلئے جو جال بچھایا تھا خود بھی اسی جال میں پھنس گئے ۔ مذکورہ تینوں وزرائے اعظم کا شمار عوام کے مقبول ترین لیڈروں میں ہوتا ہے‘ مگر ایگزیکٹو آرڈر سے انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا‘ جس طرح نواز شریف کو نااہل قرار دینے کیلئے غیر مرئی قوتوں کی مداخلت کی حمایت نہیں کی جا سکتی اسی طرح اگر عمران خان کو غیر مرئی قوتوں کی ایما پر نااہل قرار دیا جا رہا ہے تو اس کی حمایت کرنا مشکل ہے۔ عمران خان کے بیانیے کے شدید ناقد ہونے کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی سطح کے لیڈر کو کمزور کیس میں نااہل قرار دینے کا اقدام ریاست کی جڑیں کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اقتدار کے تمام شراکت داروں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پانچ برس پہلے نواز شریف کو آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی‘ نواز شریف کو اقتدار سے تو ہٹا دیا گیا مگر ان کی عوامی مقبولیت کو کم نہ کیا جا سکا‘ آج اگر اسی پیٹرن پر چلتے ہوئے عمران خان کو آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ مقصد بھی پورا نہ ہو گا۔ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف قیادت اور اتحادی حکومت کے درمیان سیاسی بندوبست کے تحت براہِ راست ملاقات ہوئی ہے‘ تحریک انصاف کے مطالبے پر مارچ یا اپریل 2023ء میں عام انتخابات پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے‘ اس کے عوض تحریک انصاف میثاقِ معیشت اور ادارہ جاتی اصلاحات پر اتفاق کرے گی۔ ایک طرف اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کئی ماہ کے بعد ڈیڈ لاک ختم ہوا ہے تو دوسری طرف عمران خان کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے یہ دو متضاد باتیں ہیں کیونکہ اگر واقعی سیاسی قیادت ملکی مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے لیے باہم مل بیٹھ رہی ہے تو نااہلی کا عمل سیاسی بندوبست کو سبوتاژ کرنے کے زمرے میں آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved