تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     23-10-2022

ہر کوئی الجھن کا شکار

نہ پائے رفتن‘ نہ جائے ماندن۔ کرو تو بھی مرو‘ نہ کرو تو بھی مرو۔ اسے انگریزی محاورے کے مطابق ''قیدی کی الجھن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں کسی فیصلہ ساز شخص کے سامنے ایسے حالات ہوں جن میں ایک متبادل دوسرے سے زیادہ نقصان دہ ہو۔ درست متبادل کا انتخاب کرنے کی کوشش ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اس کی کوشش میں آپ مشکل اور غیر یقینی امکانات کے درمیان سرگرداں رہتے ہیں۔ قیدی کی الجھن کی کہانی اس طرح ہے: ایک مجرم گینگ کے دو ممبر گرفتار ہو جاتے ہیں اور اُنہیں جیل میں ڈال دیا جاتاہے۔ دونوں کو الگ الگ کوٹھری میں رکھا جاتا ہے۔ ان کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے یا پیغام رسانی کاکوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ پولیس کو اعتراف تھا کہ اس کے پاس دونوں کو اصل جرم میں سزا دلانے کے لیے مطلوبہ ثبوت موجود نہیں۔ وہ منصوبہ بندی کے تحت کسی کم شدت کے الزام میں دونوں کو ایک ایک سال قید کی سزا دلواتی ہے۔ اس دوران پولیس افسران دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھ سودا بازی کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے دوسرے ساتھی کے خلاف ثبوت دے دے تو وہ سزا سے بچ جائے گا۔ یہ پیش کش دونوں کے سامنے رکھی جاتی ہے۔ ہر قیدی کے سامنے الجھن یہ ہے کہ کیا وہ دوسرے کو دھوکا دے یا خود دھوکے کا نشانہ بن جائے۔
پاکستانی سیاست کی کہانی ایسی بھی ہے اور مختلف بھی۔ اس نئی حکومت کے اتار چڑھاؤ‘ نشیب و فراز‘ چیخ و پکار‘ صدمے اور خوف کی لہریں کسی ہیجان خیز ڈرامے کی یاد دلاتی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے جارہا ہے لیکن ہر کسی کو معلوم ہے کہ کیا ہوا تھا۔ جاننے اور لب کشائی نہ کرنے کی جگہ اب جاننے اور لب کشائی نے لے لی ہے لیکن بولنا اور عمل کرنا ہنوز قیدی کی الجھن جیسی صورت حال کے گرداب میں ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ متذبذب ہیں۔ تاریخ میں کبھی بھی اس درجے کی آگاہی نہیں پھیلی جتنی عدم اعتماد کے ووٹ نے عوام کو دے دی۔ تاریخ میں کبھی بھی ممنوعہ موضوعات عوامی گفتگو کا حصہ نہیں بنے۔ تاہم اس پیش رفت نے ہر طرف ایک الجھن سی پیدا کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں تناؤ ہے جو اگر احتیاط نہ برتی گئی تو تشدد کا راستہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ آئیے حکومت تبدیلی کے کھیل میں حصہ بننے والوں کو درپیش الجھن ''ایسا ہو یا نہ ہو‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ سیاست کی الجھن: ملکی سیاست اس وقت الجھن کا شکار ہے۔ سیاست دانوں سمیت ہر کسی پر جن کا حکم چلتا تھا وہ بھی الجھن کا شکار ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے ایک جانی پہچانی حقیقت تھی لیکن حال ہی میں کھل کر اس پر بحث ہوئی ہے۔ ماضی میں ان کا طریقہ کار ہموار اور لگا بندھا تھا۔ اسے کسی چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔ اُن کی حمایت سے حکومت میں آنے والے بدلے میں کچھ اہم تقرریوں‘ نامزدگیوں اور تبادلوں میں تعاون کرتے۔ ایم کیو ایم کے بہت سے رہنماؤں کو وزارتیں دیے جانے پر ماضی میں بہت سی پیشانیاں شکن آلود ہوئیں لیکن مسکراتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ وہ درست انتخاب ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے شکن آلود پیشانیوں کو سوالات میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے ایسی عوامی بحث چھیڑ دی ہے کہ کسی کے پاس اس کا جواب دینے کا تجربہ یا مہارت نہیں ہے۔ کامران ٹیسوری کی بطور گورنر سندھ تقرری کی حالیہ مثال لے لیں۔ اس نے ایک بے مثال ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ یہ نئی پیش رفت ہے کیونکہ اس طرح کی تقرریاں ماضی میں بغیر کسی شور شرابے کے ہوتی رہی ہیں۔ عشرت العباد ایک دہائی تک سندھ کے گورنر رہے۔ وہ مبینہ طور پر کئی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ دہری شہریت رکھتے تھے۔ الطاف حسین کی ٹیم کے خفیہ سکواڈ کے رکن تھے لیکن کسی نے اس پر کھل کر بات نہیں کی۔ تاہم ٹیسوری کی تقرری کو ٹاک شوز میں موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے‘ ہیش ٹیگ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں لانے والوں کے حامی چینلز اور اینکر بھی پریشان ہیں۔ یہ ان کے مخمصے کی انتہا ہے۔ کامران ٹیسوری کی تقرری پرملنے والے ردِ عمل کے بعد وہ الجھن کا شکار ہیں کہ اب کیا کریں؟ تردید وہ کر نہیں سکتے‘ قبول کرنا بھی ناممکن ہے ۔ اگر کوئی اور متبادل چال چلی گئی تو مزید بہت کچھ عیاں ہو جائے گا۔ ہر حوالے سے وہ عوام کے طوفانی غیظ و غضب کا نشانہ بنیں گے۔ اب اس طوفان کے سامنے بندش اورڈانٹ ڈپٹ کے روایتی حربے کام نہیں آئیں گے۔
2۔ حکومت کی الجھن: پی ڈی ایم کی حکومت بہت سی سکون کی سانسیں لی چکی لیکن اس کی سانسیں بے ربط ہونے کا وقت دور نہیں۔ جن مقدمات کی گرفت میں تھے‘ ان سے ایک ایک کرکے جان چھوٹتی جارہی ہے۔ نیب قوانین پر کی گئی ترامیم کی وجہ سے انہیں مستقبل کی لوٹ مار پر بھی تحفظ مل گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹوں سے پہنچنے والی زک سے بھی اُنہوں نے خود کو بچا لیا۔ شکر کررہے ہیں کہ رواں برس انتخابات بھی نہیں ہونے جارہے۔ لیکن مخمصہ بہت پیچ دار ہے۔ ان کا اُس معیشت پر کوئی کنٹرول نہیں جسے سنبھالنے کا دعویٰ تھا۔ اُنہوں نے تمام الزام تحریک انصاف کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں پر عائد کردیا لیکن ایک ایک کرکے فاش ہونے والے حقائق کہتے ہیں یہ بارودی سرنگیں مفتاح اسماعیل کی بچھائی ہوئی تھیں جیسا کہ مریم اور شہباز شریف کی لیک ہونے والی آڈیو سے پتا چلتا ہے۔ اب اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا وہ مفتاح کے اقدامات کا دفاع کریں یا اسحاق ڈار کی واپسی کے جواز کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی ژولیدہ فکری اور بوکھلائے ہوئے بیانیے کے ساتھ الجھن کے گرداب میں ہے۔ کبھی وہ تقریریں کرتے ہیں کہ کس طرح تحریک انصاف مقتدرہ پر حملے کررہی ہے‘ کبھی وہ خود ایسا کرنے لگتے ہیں۔ اگر وہ دفاع نہ کریں تو ان کے قدموں تلے سے قالین کھینچا جا سکتا ہے اور اگر وہ خود تنقید نہ کریں تو عوام ان پر زمین تنگ کر دیں گے۔ تو یہ ہے اُن کی حالت کہ نہ پائے رفتن‘ نہ جائے ماندن۔
3۔ حزبِ اختلاف کی الجھن: تحریک انصاف بھی حتمی کال دینے میں متذبذب ہے۔ اس نے چھ ماہ سے عوام کو تیار کیا ہے۔ وہ نصف سال سے زبردست عوامی احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کال کو فیصلہ کن لمحہ قرار دے رکھا ہے۔ لیکن ان کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت اور اس کے حامی مایوسی کے عالم میں محاذ آرائی پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تصادم ہو سکتا ہے۔ جھڑپوں سے ہنگامی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور دم توڑتی ہوئی حکومت کو ایک اور زندگی مل سکتی ہے۔ اس لیے مذاکرات کا راستہ نکالنا ضروری ہے‘ چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ یہی پہلا انتخاب ہو سکتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے ہفتے گزر رہے ہیں اور عوام کا پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ الجھن یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ کال نہ دیں تو عوام کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جائیں اور وہ خود ہی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
4۔ عوام کی الجھن: ماضی میں دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کے حامی عوام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اب ملک گیر احتجاج نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ پاکستان کے عوام لاتعلق‘ پریشان اور گھریلو تنک مزاجی تک ہی محدود نہیں۔ یہ حقیقت ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ وہ فرق ڈال سکتے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی کو تقویت ملی ہے کیونکہ عمران خان کو طاقت کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوششوں کو عوام نے شکست دی ہے جو باہر نکل کر آواز اٹھاتے ہیں۔ تاہم عوام اس مخمصے میں ہیں کہ نظام کو چلنے دیا جائے یا باہر نکلیں اور پھر اس وقت تک لڑیں جب تک کہ نظام عوامی مطالبے پر پورا نہ اترے۔
نتائج بتاتے ہیں کہ چناؤ کا معیار کیا تھا۔ اب تک طاقتوروں کے تمام چنائو ناقص نکلے ہیں۔ وہ اب نجات دہندگان کے نقاب کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں ہیں۔ اب اُنہیں صرف باعزت پسپائی کی راہ کی تلاش ہے۔ وہ الجھن کی وجہ سے تاخیر اور مسلسل ایک جیسی غلطیاں دہراتے ہوئے مختلف نتائج کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ کامران ٹیسوری پر ہونے والی تنقید اُنہیں ممکنہ طور پر آئندہ بہتر انتخاب کرنے میں مدد دے گی لیکن الجھن اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک ان کا چنائو ماضی کے برعکس میرٹ اور عدم مداخلت کے اصولوں پر مبنی نہ ہو۔ یہی اصل بات ہے۔ چاہے حکومت ہو یا حزبِ اختلاف‘ الجھنیں ان کے تعاقب میں رہیں گی جب تک وہ دیانت داری اور قومی مفاد کے عالمی اصولوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ لیکن کوئی شخص ہو یا ادارہ‘ کیا چناؤ کی بنیاد ذاتی انا ہو یا اہلیت؟ اس وقت اربابِ اختیار کے سامنے سب سے بڑی الجھن یہی ہے۔ یہ چنائو بہت اہم ہے کیوں کہ یہی ملک کے مستقبل کا تعین کرنے جارہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved