اہلیت کے معیار تو چھوڑیں ذرا ہمارے نا اہلی کے معیارات ملاحظہ فرمائیں۔ ہم تو اس معاملے میں بھی نا اہل ثابت ہورہے ہیں کہ کسی کی نااہلی ہی درست طریقے پر کر سکیں۔ کیسی کیسی نا اہل نااہلیاں ہم نے کی ہیں۔ محض خود کو اہل ثابت کرنے کے لیے۔
ہم جیسا تو تھانے کچہری ہی کے خوف سے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ عدالت تو پھر بڑی بات ہے‘ شریف آدمی کا تو صرف راستہ ہی روک دیا جائے تو اپنے سارے الفاظ سے تائب ہونا شروع کردیتا ہے۔ میں اسلام آباد سے براستہ موٹر وے لاہور آ رہا تھا جب یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ یہ آثار نمایاں تھے کہ عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ کچھ ہی دیر میں یہ خبر آگئی کہ ایسا ہو چکا ہے اور نااہلیت کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قومی اسمبلی کی نشست سے عمران خان فارغ ہو چکے ہیں۔ گاڑی کی اور دل کی رفتار ایک ساتھ تیز ہوگئی۔ ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ یہ تو بات بعد میں سوچیں گے‘ اصل اور فوری مسئلہ یہ کہ راستے بند ہوگئے تو لاہور پہنچوں گا کیسے؟ میں لاہور پہنچ کر سیدھا مال روڈ پر اپنے دفتر جانا چاہتا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں لگتا تھا۔ لاہور ہی پہنچ جاؤں اور وقت پر خیریت سے پہنچ جاؤں‘ یہی بہت ہے۔ ٹی وی چینلز تو ان خبروں کے انتظار میں رہتے ہیں چنانچہ گھر والوں کے تشویش کے فون آنا شروع ہوگئے اور میری تشویش بڑھاتے گئے۔ جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھتی گئی‘ پریشانی بھی بڑھتی گئی۔ راوی کا پل عبور کرتے وقت بھی دھڑکا سا لگا تھا کہ نہ جانے آگے کون سی رکاوٹ ہماری منتظر ہو‘ شکر ہے کہ خیریت سے گھر پہنچے اور اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سنیں کہ موٹر وے اور جی ٹی روڈ شاہدرہ کا روای کا پل بند کردیا گیا۔ کتنی صداقت تھی ان خبروں میں پتا نہیں لیکن سوشل میڈیا پر قطار در قطار لوگوں‘ راستوں اور گاڑیوں کی تصویریں بتاتی تھیں کہ بہت کچھ سچ ہے۔ ہم خوش نصیب نکلے لیکن سب اتنے خوش نصیب نہیں نکلے کہ راستوں سے نکل جاتے۔ بہت جلد اندازہ ہونا شروع ہوگیا کہ بہت زیادہ لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلے تھے۔ کئی جگہ یہ تعداد سو تک بھی نہیں پہنچی اور کئی جگہ چند سو سے اوپر نہیں گئی تھی۔ لیکن لگتا یہ تھا کہ ملک بھر میں حشر بپا ہوگیا ہے اور ہونے والا ہے۔
یہ ہمیں کیا نفسیاتی مرض ہے کہ ہم‘ اور ہم سے مراد تمام سیاسی‘ مذہبی‘ قومی‘ علاقائی گروہ سب کے سب ہیں‘ کوئی ناپسندیدہ خبر سنتے ہی سب سے پہلے مسافروں کے راستے بند کرنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ مسافر جن کا دور دور تک اس خبر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ بچے جو گاڑیوں کی سیٹوں پر بیزاری اور بے صبری سے اپنے گھر پہنچنے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ وہ مریض جنہیں کسی ہسپتال یا کسی ڈاکٹر کے ہاں پہنچنا ہے۔ وہ عورتیں جنہیں گھر پہنچ کرکھانا بنانا ہے‘ اور وہ مرد جنہیں اس کھانے کے لیے پیسے فراہم کرنے ہیں۔ سب کے سب ایک خوف میں مبتلا ہوکر ان قطاروں میں مقید ہو جاتے ہیں‘ جو نہ انہیں آگے جانے دیتی ہیں‘ نہ مڑنے کا موقع دیتی ہیں اور نہ اس جگہ رکنے کی کوئی سبیل ہوتی ہے۔ شہروں کی اندرونی شاہراہیں ہو ںیا قومی شاہراہیں‘ سب قید خانے بن جاتی ہیں۔ اور جو مسافر ہوتے ہیں ‘ اچانک صابرین کے خانے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کسی سے پوچھا نہیں جا سکتا۔ کسی سے شکایت نہیں کی جا سکتی اور کسی کو فون نہیں کیا جا سکتا کہ بھیا! ہم نے کیا قصور کیا ہے۔ یہ تو کوئی اور نہیں‘ ہم نا اہل ہو گئے ہیں۔ اور بے جرم نااہل ہو گئے ہیں۔
ایک لمحے کو ذرا ٹھہر کر سوچئے۔ جنہوں نے نا اہل کیا‘ جن کے ایما پر نااہل کیا گیا‘ اور خود جنہیں نااہل کیا گیا‘ جو ان تینوں فریقوں کے ساتھی ہیں‘ ان میں سے کسی کا راستہ بند ہے؟ ان میں سے کسی کو اس مشقت سے گزرنا پڑتا ہے جس سے بالکل غیر متعلق پاکستانی گزرتے ہیں۔ بیشتر کو سیاست سے اور سیاست دانوں سے عملی دلچسپی نہیں ہوتی۔ دیکھا جائے تو عملی اعتبار سے شاید ملک کی آبادی میں دس فیصد سے زیادہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے ہوں گے۔ ان دس فیصد میں بھی فعال لوگ نصف سے بھی کم ہوں گے۔ آپ اندازہ لگا لیجیے کہ ان فعال لوگوں کی وجہ سے کتنے لوگ اچانک غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ زندگی کس کس شعبے میں مفلوج ہو جاتی ہے۔ اور کام کہاں کہاں رک جاتے ہیں۔
توشہ خانہ کیس بھی ایک عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اقامہ کیس میں تنخواہ نہ لینے پر نا اہلی سمجھ نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یہ فیصلہ ختم کردے گی کہ اس میں بہت سے قانونی سقم بتائے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کے اختیار پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اس بات پر بھی کہ جس نشست سے عمران خان اپنا استعفیٰ پہلے ہی دے چکے ہیں‘ اس پر ڈی سیٹ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ لوگ اسے اسی خواہش کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ ایک مقبول رہنما کو کسی بھی کھیل سے باہر نکال دیا جائے۔ میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں نون لیگ کے کارکن مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ حیرت ہے بھئی‘ جس اسمبلی میں عمران خان جانا ہی نہیں چاہتے‘ جس کی چھ نشستیں جیت کر بھی حلف نہ اٹھانے کا اعلان کر چکے ہیں‘ اس سے باہر کر دینے پر خوشیاں منانا چہ معنی دارد۔ کروڑوں اربوں ہضم کرکے ڈکار نہ لینے والے‘ ڈھٹائی سے نشستوں پر براجمان ہیں۔ چالیس چالیس سال حکومت کرکے ٹکے کا کام نہ کرنے والے آج بھی حکومت میں ہیں۔ لوٹے اسی طرح ہیں‘ لٹیرے اسی طرح۔
لیکن جناب خان صاحب! ایک عام آدمی کی بات بھی سن لیں۔ یہ کیا کیا آپ نے؟ میں توشہ خانے سے ہار لینے کی نہیں اسے مارکیٹ میں بیچ دینے کی بات کر رہا ہوں۔ قانونی گرفت ہو یا نہ ہو‘ ایک عام سا آدمی بھی تحفہ بیچا نہیں کرتا۔ اور آپ جو بار بار کہہ چکے ہیں کہ آپ کو روپے پیسے کی کوئی ہوس نہیں‘ آپ کو اس کی کیا ضرورت تھی۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ آپ کی خود پسندی آپ ہی کو نہیں‘ آپ کی پارٹی ہی کو نہیں‘ ملک کو بھی بار بار مشکلات سے گزارتی رہی ہے۔ اور ہم جو اس ملک کے شہری ہیں‘ ہم بھی اس کا بے سبب‘ بے جواز خمیازہ بھگتتے رہے ہیں‘ ہنوز بھگت رہے ہیں۔
ہم جو قطاروں میں لگنے کے عادی ہیں اور ساری عمر یہی کام کرتے آئے ہیں‘ کب تک نہ سوچیں۔ کب تک نہ کڑھیں۔ کب تک دل کو تسلی دیں کہ بس اسی کے ساتھ جینا بھی ہے اور کسی طرح خوش بھی رہنا ہے۔ ہم جو زندگی کے لیے نا اہل ہو چکے ہیں‘ اس ملک کی شہریت کے لیے نا اہل ہیں۔ اور اپنا حق لینے کے لیے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ وہ ہم بے بسی سے قطاروں میں لگ کر یہ تماشا دیکھتے ہیں۔ دیکھتے چلے آئے ہیں۔ عمر انہی تماشوں کو دیکھتے گزر گئی لیکن بازی گر ہیں کہ تھکنے کا نام نہیں لیتے۔ ہے کوئی اس ملک میں جو ٹریفک پولیس کو نا اہل قرار دے جو راستے نہیں کھلوا سکتی؟ ہے کوئی جو اس انتظامیہ کو نا اہل قرار دے جو معمولی سے گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے؟ ہے کوئی جو اس بار راہ گیروں کو نہیں بازی گروں کو نا اہل قرار دے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved