تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     24-10-2022

Fragile

آپ نے جہاز‘ ٹرین یا بس پرچڑھتے اور اترتے سامان میں دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزوں پرFragileلکھا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ شے بہت نازک ہے۔ جیسے چینی کے برتن‘ جیسے کوئی پینٹنگ!اسے احتیاط سے اتارنا اور چڑھانا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔
یہ کوئی چوبیس پچیس برس پہلے کی بات ہے۔ کسی کام سے پشاور جانا تھا۔ اپنے دوست پروفیسر اظہر وحید سے کہا کہ ساتھ چلیں۔ پروفیسر صاحب کی معیت مزیدار ہوتی ہے اور مفید بھی۔ گفتگو کا فن انہیں آتا ہے۔ ایسی گفتگو جس میں سننے والے کو دلچسپی ہوتی ہے اور اس کے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔کینٹ کے ایک خوبصورت مَیس میں ہمارا قیام تھا۔ رات کا کھانا کھا چکے تو چہل قدمی کے لیے نکل آئے۔ چلتے چلتے ذرا دور ہی نکل گئے۔ اچانک دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ تیز۔پھر اور زیادہ تیز۔ دھک دھک کی آواز یوں آنے لگی جیسے ڈرم یا ڈھول پر ضرب پڑ رہی ہو۔ بیٹھنے کی جگہ کوئی نہیں تھی۔ کوئی بنچ یا پتھر‘ چبوترہ یا منڈیر کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی چارہ نہ تھا سوائے چلتے رہنے کے۔ سو چلتا رہا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب سے ذکر بھی نہ کیا۔بات چیت بھی چلتی رہی۔ پسینے سے شرابور بھی ہو تا رہا۔کافی دیر صورتحال یہی رہی۔ واپس قیام گاہ پر پہنچے۔ طبیعت کچھ دیر کے بعد بحال ہوئی۔
یہ عارضہ اس سے بھی پہلے کا تھا؛ تاہم برداشت کے اندر تھا۔ہارٹ ریٹ ‘ یعنی دل دھڑکنے کی رفتار ‘ تیز ہو جاتی۔ کبھی چند لمحوں کے لیے۔ کبھی کچھ منٹوں کے لیے۔ کبھی اس سے بھی زیادہ۔ جب بھی دل اپنی رفتار زیادہ کرتا ناصر کاظمی یاد آتے ؎
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
یا باقی صدیقی جنہوں نے کہا تھا ؎
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے
مگر ضروری نہیں کہ ہر عاشقانہ شعر‘ ہر صورتحال پر صادق آجائے۔ بیمار وہ بھی ہوتے ہیں جن کا کاروبارِ عشق مندا ہوتا ہے۔بہر طور وقت گزرتا رہا۔ تکلیف کا دورانیہ بھی بڑھتا گیا اور شدت بھی آہستہ آہستہ زیادہ ہوتی گئی۔ انگریزی طب میں اس تکلیف کو'' ایس وی ٹی ‘‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتانا شروع کر دیا کہ اگر شدت اور دورانیہ دونوں بڑھ رہے ہیں تواس کے لیے ایک عملِ جرّاحی ( پروسیجر) ہوتا ہے۔جسےAblationکہتے ہیں۔ وہ کرا لینا چاہیے۔ مگر پروسیجر کا نام سن کر ‘ یہ تکلیف پروسیجر کی نسبت آسان تر لگی۔انسان کی فطرت میں ہے کہ کام چل رہا ہے تو چلتا رہے‘ گزارہ ہو رہا ہے تو ہو رہا ہے۔لمحۂ موجود برداشت ہو رہا ہے تو سب ٹھیک ہے۔ مستقبل میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ کچھ عرصہ اور گزر گیا۔
یہ دو ماہ پہلے کی بات ہے۔ گھر والے سب کہیں گئے ہوئے تھے۔ میں تھا اور انعام‘ جو ہمارے ساتھ کافی عرصہ سے رہ رہا ہے اور ہمارے خاندان کا حصہ ہے۔ اُس وقت وہ نہ جانے گھر کے کس حصے میں تھا۔ باہر صحن میں یا اوپر کی منزل میں ! دل کی دھڑکن تیز ہوئی اور ہوتی گئی۔ مگر یہ تیزی مختلف تھی۔ چند لمحوں بعد کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ پلنگ پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا۔ سینے میں بائیں جانب جیسے ڈرم پر ضربیں پڑے جا رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ایسے میں انعام کی آواز آئی۔'' سر ! آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟‘‘ یہ ذہین جوان نجانے کیسے جان گیا۔ شاید اس لیے کہ میں پلنگ کی لمبائی کے حساب سے نہیں‘ چوڑائی کے حساب سے لیٹا ہوا تھا۔ یا شاید اس لیے کہ سانس چلنے کی آواز بلند تھی! بہر طور اس نے پانی پلایا۔ یہ کیفیت کافی دیر رہی۔ آدھا گھنٹا یا ذرا کم یا ذرا زیادہ! گھر والوں کے لَوٹنے تک حالت ٹھیک ہو چکی تھی۔ بہت ہی قریبی عزیز‘ ڈاکٹر عمار حمید خان سے ‘ جو سیالکوٹ میں واحد ہارٹ سرجن ہیں‘ بات کی تو انہوں نے بھی Ablationکا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ( پر و سیجر) کرا لینا چاہیے۔ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے کسی ڈاکٹر کا نام بھی بتایا اور کہا کہ وہ اس سے بات کرتے ہیں۔ مگر تساہل اور آرام طلبی پھر آڑے آئے۔
مہینہ ڈیڑھ مہینہ اور گزر گیا۔ اب کے جو کچھ ہوا بازار میں ہوا۔ ہم‘ تین‘ ایک شاپنگ مال میں پھر رہے تھے۔ میں‘ بیگم اور ہمارے بڑے صاحبزادے جو خود بھی معاملاتِ دل کی نزاکتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ پہلے چکر آیا۔ یوں لگا جیسے سر گھوم رہا ہے۔ کچھ دیر کے لیے جہاں کھڑا تھا ‘ وہیں ساکت ہو گیا۔چکر تو ختم نہ ہوئے ہاں دل کی رفتار بڑھ گئی اور اب کے ایسے بڑھی جیسے پہلے کبھی نہ بڑھی تھی۔ کھڑا رہنا دوبھر ہو رہا تھا۔ بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ دونوں مجھے چلاتے ہوئے نہیں‘ بس کھینچتے ہوئے ایک طرف لے جا رہے تھے۔پہلا ریستوران جو نظر پڑا اسی میں داخل ہو گئے۔ ایک کرسی پر بیٹھا اور سر میز پر ٹکا دیا۔پھر نہ جانے کتنا وقت گزرا۔ ثانیے یا منٹ یا گھنٹے یا زمانے‘ سر نہ اٹھایا گیا۔ اسی ریستوران میں ایک اور ڈاکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بھی آگئے۔انہوں نے نبض کی مدد سے ہارٹ ریٹ ماپا تو ایک سو اسّی تھا۔ ایمبولینس منگوائی گئی۔آدھا گھنٹہ لگ گیا ہو گا ایمبولنس کے آنے میں! یمبولنس میں ای سی جی کی گئی جو نارمل تھی۔ اس کے بعد امتلا کے دورے پڑے۔ قے آئی اور دھڑکن کی رفتار کم ہونے لگی۔
اس کا مطلب تھا کہ اب معاملہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ چکا تھا۔ عین ممکن تھاکہ اگلا وقوعہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو کیونکہ پیٹرن یہی ظاہر کر رہا تھا۔ اب تنہا کہیں جانا خطرناک تھا؛ چنانچہ پروسیجر کے لیے ہسپتال میں صاحبِ فراش ہونا پڑا۔پورا بے ہوش کرنے سے پہلے جب نرس نے پوچھا کہ کیا کبھی اس سے پہلے بھی فُلAnaesthesiaلیا ہے؟ تو جواب نفی میں تھا۔ ''کیا مطلب؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا کہ ''کبھی کوئی سرجری نہیں ہوئی؟‘‘ جواب دیا کہ نہیں ہوئی اور یہ میرا قصور نہیں۔ دوسرا سوال تھا کہ کیا کسی شے سے الرجی ہے؟ کہا کہ ہاں ہے ! ہسپتالوں سے ! ہوش آیا تو بتایا گیا کہAblationکا عمل ہو چکا۔ اور یہ کہ پچانوے فیصد امکان اس بات کا ہے کہ اب دھڑکن تیز نہیں ہو گی ! تاہم بے ہوشی کا اثر زائل ہونے کے دوران‘ اور اس کے بعد چوبیس گھنٹے کی کیفیت اضطراب‘ بے کلی‘ بے قراری اور ناراحتی سے بھری ہوئی تھی !
کون کہتا ہے کہ کراکری ‘ پینٹگز اور اس قبیل کی دیگر اشیا فریجائل ہیں۔اصل فریجائل تو ابنِ آدم ہے! پل بھر میں لباسِ فاخرہ اتر جاتا ہے! ہسپتال میں جو پوشاک پہنائی جاتی ہے وہ جائے عبرت ہے! آدھی سِلی ہوئی اور آدھی اَن سِلی! پالش والے چمکدار جوتے تو دور کی بات ہے‘ ہوائی چپل تک اتر جاتی ہے! سرجن اور اُس کی ٹیم کے لیے‘ سامنے بے ہوش پڑے انسان کا کوئی نام ہے نہ قبیلہ ‘ منصب ہے نہ شان! حسب ہے نہ نسب! زبان ہے نہ رنگ نہ مذہب! وہ تو اُن کے لیے بس ایک شے ہے ! ایک خستہ اور شکستہ چیز ! جس کی انہوں نے مرمت کرنی ہے۔کبھی مرمت کا عمل کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی ناکام! تعجب ہے کہ جن پیشانیوں پر فریجائل کی چِٹ لگی ہونی چاہیے‘ وہ شکنوں سے اَٹی ہیں !
نقارے‘ نوبت‘ بان‘ نشاں‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر
کیا مسند‘ تکیہ‘ ملک‘ مکاں‘ کیا چوکی‘ کرسی‘ تخت‘ چھپر
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved