تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-10-2022

نااہل کون؟…(1)

کمالِ ہنر ہے‘اکمل الکمال ہوگیا۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 سیٹوں پر ضمنی الیکشن میں تاریخی شکست کے بعد PDM کی 'امپورٹڈ‘ حکومت نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ بدلے کی آگ بجھانے کے لیے سب سے پہلے عمران خان پردہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹی گئی۔یہ اسلامی جمہوریہ کے دارالخلافہ میں 22ویں ایف آئی آرتھی۔ ملزم مگر صرف ایک‘اکیلا۔ایسی حکمت عملی کو انگریزی میںsingle surgical target کہتے ہیں۔کھلے سیاسی میدان میں اپنے ووٹر کے ہاتھوں کپتان نے 13 جماعتوں کو ہرایا تھا۔جب دہشت گردی کے مقدمے سے تسلی نہ ہوئی تو ایک نیا طریقہ ڈھونڈا گیا۔جو اس سے پہلے پاکستان کی راج نیتی کے کسی دانشور مشیرکے ذہن ِ رسا میں کبھی نہ سما سکا۔ جس کے ذریعے دفعہ 144کی خلاف ورزیوں والی ہر ایف آئی آر میں '' عمران خان کی ایما پر‘‘ کے الفاظ کو سنگین فوجداری جرم میں تبدیل کردیا گیا۔ غصیلی شرمندگی کے نتیجے میں بڑھتے بڑھتے ایف آئی آر زکی تعداد 30 کے قریب جاپہنچی۔ایسے میں ایک گر گِ باراں دیدہ نے یوں مشورہ دیا''شہزادی صاحبہ! اسمبلی کا سپیکر آپ کا اپنا ہے۔آپ اس کے ذریعے‘ عمران خان کو نااہل کروا دیں‘‘۔ چنانچہ نااہلی کی سپیشل ٹرین ٹھکا ٹھک دوڑنے لگ پڑی۔ اس ہنگامی سفر کے دوران سائفر و سازش کی پٹڑیوں پر کئی سٹیشن راستے میں آئے۔ پہلا سٹیشن‘ یہ تھا آڈیو لیکس پورہ جس کا سکرپٹ پاکستان میں بنا۔ منظوری کے لیے اسے لندن بھیجا گیا۔ یوکے سے جن آٹھ حلقوں کی منظوری آئی کہ یہاں ضمنی الیکشن کروائے جائیں‘اس کے لیے تین معیار مقررہوئے۔ ایک یہ کہ وہاں سے پی ٹی آئی کے ووٹروں کی فہرستیں اپنے رہائشی علاقے اور وارڈ کے بجائے گمشدہ افراد کی طرح کسی اور علاقے میں گم سم کر دی جائیں۔ساتھ ہی یہ کہ ان حلقوں میں رجسٹر ڈ ووٹرز کی تعداد سے ہزاروں زیادہ بیلٹ پیپر چھاپ کر رکھ چھوڑے جائیں جوبوقتِ الیکشن اور حسبِ ضرورت مستحق امیدواروں کے کام آجاویں۔دوسرا معیار یہ طے ہوا کہ 13 عددپارٹیوں کے انتہائی مضبوط حلقوں میں ضمنی الیکشن کروائے جائیں۔ اس فارمولے کے تحت پنجاب میں ٹکٹ کے لیے مادرِ پی ڈی ایم پارٹی کے حلقے چنے گئے۔کراچی کی دو میں سے ایک ایک سیٹ MQMاور ایک PPPکو الاٹ کی گئی۔ کے پی میں مردان جے یو آئی ایف کے انتہائی معتبر امیدوار کو سونپا گیاجبکہ چارسدہ سے قومی اسمبلی کی نشست اے این پی کے سربراہ کو دے دی گئی۔اس پلان کا تیسرا حصہ ایسا نامعلوم ہے کہ جو سب کو معلوم ہے۔اس لیے اس بارے میں نثر نگاری چہ معنی دارد؟ہاں البتہ !یہ مصرع حسبِ حال ہے ‘معنی میں بھی اور مفہوم دونوں میں۔
''سیّاں بھئے کوتوال اَب ڈر کاہے کا‘‘
منصوبہ سازوں کا خیال یہ تھا کہ یہ والی '' بدلہ ٹرین ‘‘منزلِ مراد تک ضرور پہنچے گی۔
دوسرا سٹیشن سارے وسائل‘ تمام تر پروپیگنڈا مشینری‘ پروموٹرز اور انویسٹرز جمع کیے گئے۔ غصیلی اور بھڑکیلی تقریروں میں ننگی وڈیوز لیک کر دینے کی دھمکیوں کا تڑکا لگایا گیا۔ایک نہیں‘ دو نہیں‘ سات آٹھ وزیروں نے دھمکیوں کی گولا باری کی ذمہ داری ادا کی۔'امپورٹڈ‘ قیادت کس قدر overconfidenceکا شکار تھی‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے الیکشن جیت لینے کے زعم میں ان سات عدد انتخابی حلقوں میں توشہ خانہ یا کسی دوسری گرائونڈ پر عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی چیلنج تک نہ کیے۔جہاں قدرت نے مسکراتے مسکراتے شکست ان کے مقدر میں لکھ رکھی تھی۔
تیسرا سٹیشن تب آیاجب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ19 ستمبر کے روزسنانے کے بجائے محفوظ کرلیا۔لندن پلان کے مطابق ووٹرز کو یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ پی ڈی ایم چھ ماہ میں ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے۔ عمران خان اورعوام میں اس کی Suport Base تھکاوٹ ‘فٹیگ سے Exhasutہو چکی ہے۔حقیقی آزادی کی تحریک کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔خاص طور سے ڈالر مین کے آنے کے بعد گڑھی شاہوپیرس‘ بھائی پھیرو ٹوکیو‘ پشتہ خرّہ نیو یارک اورکراچی بیجنگ بن چکا ہے۔
پھر16اکتوبر 2022ء کادن آگیا۔الیکشن ہوا‘جس میں بڑے بڑے بُرج اُلٹ گئے۔ایک اکیلے عمران خان نے ثابت کردکھایاکہ کوئی اور نہیں بلکہ عوام کی رائے سب پر بھاری ہے۔پی ڈی ایم مشکل سے کراچی کی ایک سیٹ کسی ذریعے سے اُٹھا لے گئی۔باقی جہاں جہاں عمران خان امیدوار تھا بھان متی کا کنبے کا کنبہ دھڑن تختہ ہوگیا۔دو اڑھائی دن کے سکوتِ مرگ کے بعدعمران خان کو نااہل کر دیا گیا۔ معاملہ عدالت میں ہے۔بہتر ہوگا جوڈیشل فورم اس فیصلے کی حیثیت پرفیصلہ صادر کرے۔لیکن نااہلی کے پیچھے ہے کیا؟ نااہل ہے کون؟اس بارے میں چند اہم سوال یوں ہیں۔
پہلا سوال:پچھلے 75 سال میں کیا صرف عمران خان نے توشہ خانہ سے قیمت ادا کرکے تحفے لیے؟ظاہر ہے 1947ء سے لے کر2022ء تک لاتعدادملکوں کے بے شمار لیڈر‘ حکمران‘ بادشاہ‘ صدر‘ وزیراعظم پاکستان آئے۔پاکستانی حکمرانوں نے75سال میں سینکڑوں بیرونِ ملک دورے کیے۔سٹیٹ لیول کے ہردورے میں ہمیشہ تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔' امپورٹڈ‘ حکومت کا تازہ ترین دورہ‘ وہ تھا جس کے تحائف کے ٹوکرے بانٹنے کی آڈیو لیک سب کے سامنے ہے۔ توشہ خانہ مینوئل میں لکھے ہوئے ضابطے کے مطابق صرف ایک آئٹم خریدی نہیں جا سکتی۔ وہ ہے موٹر گاڑیاں۔ مگرایک سابق وزیراعظم نے ‘ ایک دوسرے سابق وزیراعظم اور سابق صدر کو انتہائی قیمتی گاڑیاں گفٹ کر دیں۔ وہ بھی توشہ خانہ مینوئل تبدیل کرکے۔ 4 عدد گاڑیاںان دونوں کے گھرپہ ڈِلیورکروائیں۔ جن میں سے ایک گاڑی جاتی امرا سے جا کر برآمد کی گئی۔
دوسرا سوال:یہ سوال اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج صاحب کے فیصلے سے پیدا ہوا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب صاحب کے سامنے رٹ پٹیشن کے ذریعے استدعا کی گئی کہ پچھلے 75سال کا توشہ خانہ ریکارڈ عام کیا جائے۔کیبنٹ ڈویژن یہ تفصیل بتائے کس حکمران کے دورِ حکومت میں کیا تحفے آئے؟کون کون سے تحفے کس حکمران نے یا سرکاری ملاز م نے کتنی قیمت میں خریدے۔ادھر فاضل جج صاحب کا آرڈر آیا ادھر بتی چلی گئی۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved