پاکستان کی تباہ حال معیشت کے چار پہلو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔اول: نئے صنعتی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کے ذریعے دولت کے نئے ذرائع کی تخلیق کے علاوہ موجودہ صنعتی پراجیکٹس اور تجارتی سرگرمیوں میں توسیع جن کی مدد سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکیں۔ اس میں درآمدی و برآمدی پالیسیز ‘تجارتی توازن ‘بجٹ میں مجموعی مثبت اشاریے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر شامل ہیں۔دوم: ان ڈونر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ڈیلنگ جو ہمیں قرضے اور گرانٹس فراہم کرتے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی اور قرضوں کی واپسی کی ری شیڈولنگ کا سوال بھی ان میں شامل ہے۔ کبھی کبھار بعض ممالک قرضوں کو گرانٹس میں بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ممالک عالمی مارکیٹس میں ایسے بانڈز بھی فلوٹ کرتے ہیں جن کی ایک خاص مدت کے بعد سود سمیت واپس ادائیگی کردی جاتی ہے۔ پاکستان کو چھ ماہ بعدایک ایسے ہی بانڈ کی ادائیگی کرنی ہے۔علاوہ ازیں انٹر نیشنل بینکوں سے قرضوں کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے مگر وہ ان قرضوں پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ شرح سود لیتے ہیں۔سوم: ایسے داخلی معاشی ایشوز جن کا عوام اور سماج کے ساتھ تعلق ہوتا ہے جن میں افراطِ زر‘ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اور ان کی مارکیٹ میں دستیابی شامل ہیں۔ ان اشیائے صرف کی مارکیٹ میں فراہمی اور ان کی قیمتوں کے تعین میں مارکیٹ فورسز کو کس قدر آزاد ی میسر ہوتی ہے ؟ حکومت صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کس حد تک تیار اورکتنی صلاحیت کی حامل ہے ؟چہارم: یہ کہ حکومت بجلی‘ گیس ‘تیل اور دیگر شہری سہولتوں کی کیا قیمت وصول کرتی ہے ‘ اس میں ٹیکسز کا سسٹم اور ان کا نفاذبھی شامل ہوتا ہے۔ٹیکسز کے نفاذاوران کی وصولی کا سسٹم کس قد رمنصفانہ ہے ؟یہ پالیسیز نہ صرف عام شہریوں بلکہ تمام صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کو بھی متا ثر کرتی ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہمیں معاشی سرگرمیوں‘شہری سہولتوں کی دستیابی اور ٹیکسز کی سرکاری منظوری اور کلیرنس لینے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو ہمارا حکومتی اداروں میں پائی جانے والی کرپشن سے کس قدر واسطہ پڑتا ہے؟ متذکرہ بالا مسائل کے حوالے سے داد رسی کے لیے ایک عام شہری کی سرکاری حکام تک رسائی کتنی آسان ہوتی ہے ؟
اگرچہ کچھ ایشوز پہلی کیٹیگری سے متعلق ہیں تاہم پاکستان کے زیادہ تر مسائل کا تعلق دوسری ‘تیسری اور چوتھی کیٹیگری سے ہے۔ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب پر عالمی برادری کے رد عمل سے یہ عیاں ہو گیا ہے کہ اس نے ہمیں مدد فراہم توکی ہے مگر یہ امدادہماری فوری ضروریات سے کہیں کم ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دو مرتبہ ہمارے لیے مدد کی اپیل کی ہے مگر لگتا ہے کہ سیلا ب سے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے طے شدہ ہدف حاصل ہونے کی زیادہ توقع نہیں۔مزید یہ کہ اس وقت روایتی ڈونر ممالک کوخود معاشی مسائل کا سامنا ہے اس لیے وہ پاکستان کی ضروریات کے مطابق قرضے اور گرانٹس فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔پاکستان کو اپنے قرضوں کی واپسی کے لیے اتنی غیر ملکی امداد ضرور مل جائے گی کہ وہ اس مالی سال میں ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔ان میں سے بعض قرضوں کو ری شیڈول کیا جا رہا ہے تاہم پاکستان کو اتنی غیر ملکی سرمایہ کاری اور مالی سپورٹ نہیں ملے گی کہ وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرسکے اور اپنی معیشت کو بھی پائوں پر کھڑا کر سکے‘لہٰذا پاکستان کی معیشت میں فوری کسی بڑی اور مثبت تبدیلی کی توقع عبث ہے۔
جہاں تک ملکی معیشت کا تعلق ہے تو یہ عام شہری کے لیے کافی تشویشناک بات ہے کیونکہ اشیائے ضروریہ سمیت پٹرولیم مصنوعات ‘گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں بھی عام پاکستانی کو ریلیف ملنے کی کوئی امید نہیں۔ اگر پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں موجودہ سطح پر ہی برقرار رہیں یا ان میں قدرے کمی واقع ہو تو یہ عام شہری کی خوش قسمتی ہوگی۔ سوسائٹی کی اپر مڈل کلاس سے لے کر نچلے طبقات تک سب لوگ قیمتوں میں اضافے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ آبادی کے نچلے طبقے یا دیہاڑی دار مزدور کے لیے حالات قابلِ رحم ہو چکے ہیںکیونکہ ان کے لیے تسلی بخش طریقے سے اپنی فیملی کی خورونوش کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مارکیٹ فورسز اور دکاندار کو کھلی آزادی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی سپلائی اور ان کی قیمتیں اپنی مرضی سے مقرر کریں۔اس سے نچلا طبقہ بری طرح پٹ گیا ہے اور مزید لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اگررضا کار افراد اور این جی اوز کے علاوہ حکومتی اداروں کی طرف سے محدود مقدا رمیں انسانی امداد میسر نہ ہوتی تواب تک پاکستان کے حالات خوفناک صورت اختیارکر چکے ہوتے۔
ان عوامل سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر ہم نے ملکی معیشت کے مقامی وسائل کو مستحکم نہ کیا تو غیر ملکی امداد ملنے کے باوجود پاکستان اپنی معاشی مشکلات سے باہر نہیں نکل سکتا۔ملکی معیشت کے داخلی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو پہل کرنی پڑے گی۔محاذ آرائی پر مبنی سیاست پاکستانی معیشت میں بہتری لانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اگر ہم وفاقی حکومت او ر اپوزیشن کے دوطرفہ چلن کا جائزہ لیں تو وہ ہر قیمت پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔وفاقی حکومت کسی قانونی یا انتظامی ہتھکنڈے کے ذریعے عمران خان کو بہر صورت میدا نِ سیاست سے آئوٹ کرنا چاہتی ہے۔دوسری طرف عمران خان بھی وفاقی حکومت کو پہلی فرصت میں چلتا کرنا چاہتے ہیں۔وفاقی حکومت نے ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی غرض سے ان کے خلاف مقدمات او رانکوائریز کی بھرمار کر رکھی ہے۔عمران خان نے بھی اپنی عوامی مقبولیت کو بھرپور انداز میں متحرک کر رکھا ہے اور وہ جلد از جلد نئے الیکشن کے انعقادپر زور دے رہے ہیں۔اگر حکومت انہیں کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل کرانے میں کامیاب ہو گئی تو و ہ حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے سٹریٹ پاور کا استعمال کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معاشی صورتحال مزیدپیچیدہ اور ابتر ہونے کا احتمال ہے۔اس طرح کی سیاست ہمارے معاشی مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔اگرہم پاکستانی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو اس روش کو تبدیل کرنا لازم ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کو مستحکم کرنے کے لیے سیاست کے میدان میں درج ذیل اقدامات کی اشد ضرورت ہے :
حکومت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت بازاری او رغیر اخلاقی زبان کے استعمال سے گریز کریں۔انہیں چاہئے کہ اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنا بند کردیں۔ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے سیاسی رہنمائوں کو چاہئے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے تجاویز پیش کریں۔وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف تمام مقدمات اور انکوائریز فوری طورپرواپس لے اور عمران خان بھی اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دینے سے گریز کریں۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ اگست 2023ء میں قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے 60دن بعد الیکشن کرانے کے بجائے فروری‘ مارچ 2023ء میں عام انتخابات کرانے پر اتفاق رائے پیدا کریں۔انہیں چاہئے کہ نومبر‘ دسمبر 2022ء میں وفاق او رصوبوں کی نگران حکومتوں کے حوالے سے بھی باہمی اتفاق رائے پیداکرلیں۔دونوں فریقوں کے ماہرینِ معیشت کسی مشترکہ اپروچ پر رضامند ہو جائیں تاکہ پاکستان کے عام شہری کو معاشی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔حکومت اور اپوزیشن میں جاری محاذ آرائی کے پیش نظر یہ تجاویز غیرمعمولی نظر آتی ہیں تاہم ملکی معیشت کی بحالی کا کوئی دوسراقابل عمل راستہ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved