مملکتِ خداداد بھی بارگاہِ الٰہی میں فریاد کرتی ہوگی کہ مجھے کن لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ناشکری کے مرتکب حکمران ہوں یا عوام‘سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ثابت ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی سیاسی رہنما نہیں گلی محلے کے جھگڑالو ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ انا کی لڑائی چل رہی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی پر دھمال ڈالنے والے اب عمران خان کی نااہلی کے فیصلے پر کہیں کونے جھانکتے تو کہیں بغلیں بجاتے پھرتے ہیں جبکہ اکثر کا کردار پراسرار معمہ بنتا چلا جارہا ہے۔خان صاحب کے ارد گرد ہلہ شیری دینے والے خدا جانے کسی ڈیوٹی پرہیں یا کسی تاک میں۔یہ عقدہ آج نہیں تو کل کھلنے ہی والا ہے۔ادھر حکمران اتحاد عمران خان کی نااہلی پر اس عارضی جشن میں مگن ہے‘ جوچند سال قبل تحریک انصاف مناتی رہی ہے۔وہ جشن بھی عارضی ثابت ہوا تو یہ جشن کس طرح مستقل ہوسکتا ہے؟ملکِ عزیز میں کچھ بھی مستقل نہیں۔ جہاں مستقبل مشکوک اور غیر یقینی ہووہاںمستقل کسی کا سوچنا بھی حماقت ہے؛ تاہم عمران خان کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اقتدار کی شاہراہ پر حماقتوں کے سنگ میل جس ریکارڈ مدت میں طے کیے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اس کے پیچھے بھی وہی کردار سرگرم رہے جو ہر دور میں حکمرانوں کے گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں بنتے چلے آئے ہیں۔برسر اقتدارآنے کے بعد عمران خان کو جو پذیرائی اوراہمیت حاصل ہوئی وہ ماضی کے کسی حکمران کو نصیب نہیں ہوئی لیکن چند کردار وہ کام دکھا گئے کہ ایک سال کے دوران ہی نہ صرف مقبولیت کا گراف تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا بلکہ اعتماد اور ساکھ کو بھی زبردست جھٹکا لگا۔وہ سارے اقدامات جن سے گھن کھایا کرتے تھے برسراقتدارآنے کے بعد وہی سب کچھ کرنے پر آمادہ اور انہی اقدامات کے دلدادہ نظر آئے اور ماضی کی بدترین حکمرانی کے ریکارڈریکارڈ مدت میں توڑ کرآج وہیں آن کھڑے ہیں جہاں چار سال قبل نواز شریف کھڑے تھے۔
نااہلی کا طغراگلے میں لٹکائے عوام کے سبھی رہنما اپنے اپنے بیانیوں ‘ ایجنڈوں اور شعبدہ بازیوں کے ساتھ ایک بار پھر میدان لگائے ہوئے ہیں۔ شکاری بھی وہی ہیں‘شکار بھی وہی۔جال بھی وہی ‘بیانیے بھی وہی ہیں۔جھانسے اور وعدے بھی وہی۔اصل نااہل تو عوام ہوئے۔اگر ان میں اہلیت ہوتی تونہ یہ حکمران ہوتے اور نہ ہی باریاں لگاکربے کس عوام پرشوقِ حکمرانی پورا کرتے۔لوگوں کے اپنے گھروں میں کبھی چورآجائے تو کیساشور مچاتے اور بھاگے بھاگے تھانے جاکر دہائی دیتے ہیں‘چور کی گرفتاری اور ریکوری کے لیے کون کون سا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ان کا اپنا ملک پون صدی سے سر عام لٹ رہا ہے اور اکیس‘ بائیس کروڑ کی بادی میں سے دہائی دینے والا کوئی نہیں۔سبھی خاموش تماشائی بنے اس لوٹ مار کواپنا مقدر اور مستقبل سمجھ بیٹھے ہیں۔ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں۔کلیم عاجز یاد آتے ہیں ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سبھی اقتدار کے مزے لے رہے ہیں کوئی وفاق میں رنگے ہاتھوں کے ساتھ برسر اقتدار ہے تو کوئی صوبوں پر شوق حکمرانی کی لت میں لت پت ہے۔ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے جو ڈھیر یہ لگاتے چلے آئے ہیں وہ آج بدترین طرزِحکمرانی کا کوہ ہمالیہ بن چکے ہیں۔ ان سبھی کا طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکومت‘دونوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے ہی لگانے والی دوائی کھا رہے ہیں اور کھانے والی لگائے چلے جارہے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ مستائے بھی چلے جارہے ہیں۔سبھی اقتدار کے جھولے بھی جھول رہے ہیں اور ایک دوسرے کی اپوزیشن بن کر ٹانگ کھینچنے اور کردار کشی کی روایت بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے دوسروں کی آنکھ میں بال کو لے کر زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہیں۔ صورتِ حال اس قدر سنگین اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے کی حب الوطنی اور عقائدپر بھی کھلے عام سوالات اٹھانے سے گریز نہیں ہے۔
کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔ اقتدار کے جوہرآزمانے والے بھی وہی ہیں اور شوقِ حکمرانی کا شکار عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ کاش عوام کو کہیں ہوش آجائے۔نسل در نسل لوٹنے والوں کو جانتے بوجھتے پہچاننے اور ماننے سے فرار کے بجائے اس مٹی کی محبت میں اٹھ کھڑے ہوںاور دہائی دیں کہ ہمارا وطن لٹ گیا۔ لوٹنے والے اگر محاسبے سے بچ نکلیں تو ان کا محاصرہ کریں کہ یہ کسی صورت بھاگنے نہ پائیں۔ مملکت خداداد کی سیاست کا باواآدم ہی نرالا ہے۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے شیروشکر ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے۔آف دی ریکارڈ راز و نیاز کب وائٹ پیپر بن جائیں کچھ پتہ نہیں۔وطن عزیز میں ایسے مناظر کئی بار دیکھے اور دہرائے جاچکے ہیں۔ یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔یہ سیاست ہے۔ یہاں پر ناخوب کا بتدریج خوب ہو جانا اور خوب کا بتدریج ناخوب ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سب چلتا ہے اور ایسے ہی چلتاآرہا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو ویسے ہی موجیں لگی ہوتی ہیں زیرِ عتاب یا زیرِ احتساب ہوں تو جلد یا بدیرضمانت اورکلین چٹ بھی۔
جو عوام ان سیاستدانوں کو اقتدار کے جھولے جھولاتے ہلکان ہو چکے ہیں‘ وہ نہ زندوں میں ہیں اور نہ مردوں میں۔ ان کی ادھ کھلی آنکھیں سارا تماشا دیکھ تو رہی ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتیں۔ زبانیں چیخنا چاہتی ہیںلیکن ہمت‘ طاقت جواب دے چکی ہے۔ اپنی مرضی سے نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔ مرنا کون ساآسان ہے۔ حکمرانوں کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ آج کل مرنا کتنا مہنگا ہے۔ قارئین! یقینا حیران اور منتظر ہوں گے کہ کالم اختتام کے قریب آن پہنچا ہے لیکن ابھی توشہ خانہ کیس اورفیصلے کا دور دور تک ذکر ہی نہیں۔اتنے اہم اور قومی نوعیت کے کیس کے بغیر کالم کیونکہ ممکن ہے۔جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ مملکت خداداد میں ماضی قریب میں ہونے والے فیصلوں کا نتیجہ اور انجام ہم نے دیکھ لیا۔ حکمرانوں سمیت تمام سیاسی اشرافیہ کے مصاحبین اور سہولت کاربابوؤں کے لیے پورا ملک ہی توشہ خانہ ہے‘ وہ جب چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جیسے مرضی چاہیں سب کچھ ان کی دسترس میں اورمن مرضی کے تابع ہے۔وہ جتنے چاہیں گل کھلائیں یا جلتے ہوئے چراغ ہی گل کر ڈالیں۔اس کیس پر تبصرے کے بجائے چپ ہی بہتر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved