تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-10-2022

کھیل یا جنگ ؟

سب سے پہلے یہ کرسی جنرل محمود اختر صاحب کے کلینک میں دیکھی اور یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔
جنرل محمود اختر صاحب کا تعارف ایک کالم کے ایک حصے میں نہیں ہو سکتا۔ میڈیکل سپیشلسٹ! کئی نسلوں کے استاد! آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل! مسلح افواج کے سرجن جنرل! ساری زندگی مہنگی ادویات کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ قدرت نے ہاتھ میں شفا رکھی۔ یوں کہ جس مریض نے ایک بار دکھایا‘ زندگی بھر کے لیے نرم گفتاری‘ شفقت اور طریقِ علاج کا اسیر ہو گیا۔ ریٹائر ہوئے تو ایک نجی میڈیکل کالج نے بھاری مشاہرے پر سربراہی پیش کی۔ جنرل صاحب نے قبول کر لی۔ مگر چند ہفتوں کے اندر جب دیکھا کہ دیانت عنقا ہے اور نیت خراب تو بیگ اٹھایا اور گھر آگئے۔کلینک جنرل صاحب کا گھر کی بیسمنٹ میں تھا۔سیڑھیاں اندر سے تھیں۔ یہیں وہ کرسی پہلی بار دیکھی۔ جنرل صاحب کرسی پر بیٹھے تھے۔ کرسی سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی۔ اوپر بھی لے کر جاتی تھی۔
کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ ایسی کرسی کی ضرورت ‘ جلد یا بدیر‘ ہر گھر میں پڑ سکتی ہے۔ عمرِ رواں جس رفتار سے اُڑی جا رہی ہے کسی بھی وقت‘ کسی کو بھی ‘ اس کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔ پاکستان میں ایک دو ڈیلرز سے بات کی مگر اطمینان نہ ہوا۔ کل انٹرنیٹ پر ایک اشتہار دیکھا۔ یہ کمپنی کسی دوسرے ملک میں تھی اور اس کا کہنا یہ تھا کہ آپ جس ملک میں بھی ہیں ‘ ہم سے بات کر کے دیکھیے۔ بات کی۔دوسری طرف جو صاحب تھے انہوں نے کہا کہ ایک دو دن میں بتائیں گے کہ پاکستان میں ان کی جانب سے یہ کام کوئی کر سکتا ہے یا نہیں! مگر یہ سب کچھ آج کا موضوع نہیں!
اصل بات جو بتانے والی ہے وہ ہے جو ان صاحب نے گفتگو کے آخری حصے میں کی۔ شکریہ ادا کر کے فون رکھنا چاہتا تھا کہ کہنے لگے ''کل کے میچ سے تو آپ بہت ناخوش ہوں گے؟‘‘ اسے جواب دیا کہ مجھ سے زیادہ میرے بارہ سالہ پوتے کی حالت غیر ہو رہی تھی۔'' پھر اُن صاحب نے اُس ''حالتِ جنگ‘‘ کا ذکر کیا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کے دوران برپا ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے کروڑوں لوگ سولی پر لٹکے ہوتے ہیں۔ ان صاحب کو تو یہ کہہ دیا کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان میچ ہو یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان‘ تو تب بھی تو جنگ کی سی ہی حالت ہوتی ہے۔ مگر اچھی طرح سے معلوم تھا کہ یہ تقابل زیادہ درست نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا ہو تو یہ صرف میچ نہیں ہوتا‘ اس بلّے میں اور اس بال میں اور ان وکٹوں میں ہزار سالہ تاریخ کا نچوڑ سمٹا ہوتا ہے جو غزنوی اور غوری سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے عرصے پر محیط ہے۔ غزنوی‘ غوری‘خلجی‘ تغلق۔لودھی ‘سُوری اور مغل جس مقصد کے لیے بھی آئے تھے اُس کی نوعیت سے آج کسی کو غرض نہیں ہے۔ اسلام کے سپاہی تھے یا اپنی اپنی غرض کے ‘ یہ بھی آج غیر متعلق سوال ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہم پاکستانی انہیں اپنا جانیں یا نہ جانیں‘ بھارت انہیں ہمارے ہی کھاتے میں ڈالتا ہے۔ بھارت کے معروف ترین دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل جی ڈی ( گگن دیپ) بخشی کی‘ بھارتی ٹی وی چینلوں پر تقریریں اور بیانات سن کر دیکھ لیجیے‘ اس کی تصنیف کردہ کتابیں پڑھ کر دیکھ لیجیے‘ وہ پاکستان کا ذکر1947ء سے نہیں کرتا بلکہ غزنوی اور ایبک سے کرتا ہے۔ کتنی ہی بار اس نے کہا ہے کہ یہ ہم پر آٹھ سو سال حکمرانی کرتے رہے۔ اس لیے آپ جو چاہے کہتے رہیں‘ اس سے آپ کا ماضی نہیں تبدیل ہو سکتا۔کرکٹ کا یہ بَلّا وہ گھٹنا ہے جسے واہگہ بارڈر پر پاکستانی اور بھارتی سپاہی زمین پر ایڑی مارنے سے پہلے سر کے قریب لے جانے کی مشقت کرتا ہے۔
مگر کیا یہ رویّہ درست ہے ؟ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کو دو مذاہب کی جنگ سمجھا جائے ؟ کیا یہ میچ پاکستان کے لیے اُس جدو جہد کا تسلسل ہونا چاہیے جو مسلمان برِ صغیر میں ہزار سال تک کرتے رہے؟ بھارت اگر میچ کو ہزار سالہ مسلم عہد کا بدلہ سمجھتا ہے تو کیا اسے ایسا سمجھنا چاہیے ؟ ان سب سوالوں کا ہوشمندانہ جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے'' نہیں۔‘‘ پاکستانیوں اور بھارتیوں دونوں کو اپنے اپنے رویّے پر نظر ثانی کرنا ہو گی! میچ کو میچ سمجھنا ہو گا۔ کھیل کو کھیل گرداننا ہو گا۔وہ جو انگریز کہتے ہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہit's not the end of the world۔یہ کیا بات ہوئی کہ کرکٹ کا میچ ہو تو ایک مسجد کی طرف دوڑتا ہے کہ سجدے میں گر کر میچ میں کامیابی کے لیے گڑ گڑائے اور دوسرا بھگوان بھگوان جپنے لگے۔ ارے بھئی! کچھ مانگنا ہے تو ڈھنگ کی شے مانگو! کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے!
کہاں یہ خواب کہ بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس طرح مثبت ہوں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے ہیں! اور کہاں دشمنی کی اتنی شدّت کہ کھیل کا میدان بھی جنگ کا میدان بن جائے۔ جنوبی ایشیا غربت کی چکی میں پِس رہا ہے۔ آدھے بھارت میں گھروں کے اندر لیٹرین نہیں ہے۔ یونیسیف کے سروے کی رُو سے دو کروڑ سے زائد پاکستانی رفع حاجت کے لیے گھروں سے باہر کھلے میں جاتے ہیں۔ ٹیپ کا پانی اکثریت کی دسترس میں نہیں۔ پیچش اور دوسری بیماریوں سے ہر سال کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ بچوں اور حاملہ عورتوں میں شرحِ اموات بہت زیادہ ہے۔ کروڑوں خطِ غربت سے نیچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جی رہے ہیں۔ خواندگی کا تناسب ناقابل رشک ہے۔توہم پرستی نے جکڑ رکھا ہے۔ بیمار‘ مزاروں اور سمادھیوں کی مٹی پھانک رہے ہیں۔ اتائیوں کی چاندی ہے۔ یہ کوئی تصوراتی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ لاکھوں لوگ دانتوں‘ کانوں اور آنکھوں کا علاج اُن ''ماہرین‘‘ سے کراتے ہیں جو فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں۔ اور اندازہ لگائیے ! ان دونوں ملکوں کی سوئی میچ پر اٹکی ہوئی ہے!
پاکستانیوں کو بطور خاص یہ سوچنا چاہیے کہ اگر بھارت سے مسابقت ہی کرنی ہے تو صرف کھیل کے میدان ہی میں کیوں؟ بھارتی ریلوے کی طرف بھی تو دیکھیے کہاں پہنچ چکی ہے! دہلی کے بعد اب دوسرے بڑے شہروں میں زیر زمین ریلوے بچھائی جا رہی ہے۔ بنگلور‘ حیدرآباد اور چنائی کے شہر آئی ٹی کے عالمی مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں! بھارت کو بڑے سائز اور بڑی معیشت کا بھی فائدہ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت سمیت بہت سے پیرا میٹرز میں ہم سے وہ آگے ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہر تیسرا فرد بھارتی ہے۔شرق اوسط کے دیگر ممالک میں بھی بھارت کا اثر و نفوذ بہت زیادہ ہے۔ یہ سب کچھ بلا سبب نہیں۔ اس صورتحال کی پشت پر درست پالیسیوں کا تسلسل ہے اور محنت! ہم تو اُن فوائد سے بھی محروم ہیں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں حاصل ہیں۔ مثلاً ہم بھارتیوں ہی کی طرح ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لڑکیاں بوڑھی ہو جاتی ہیں مگر شادی نہیں ہوتی کیونکہ اپنی ذات کا رشتہ ملتا نہیں اور باہر کرنا نہیں۔ شادی کے وقت ہمارے ہاں بھی دلہن کو بتایا جاتا ہے کہ جہاں جا رہی ہو وہاں سے اب تمہاری میت ہی نکلے تو نکلے۔ جہیز یہاں بھی عفریت بنا ہوا ہے۔کارو کاری‘ ونی اور سوارہ کی لعنت موجود ہے۔ پنچایتوں کی صورت میں عدالتوں کا پورا متوازی نظام موجود ہے ! کوئی ہے جو جنوبی ایشیا کے عوام کے لیے بھی سوچے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved