تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     25-10-2022

اک اور دریا کا سامنا!

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو 34نکاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کے بعدبالآخر چار سال بعد گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری‘ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر‘ تحریک انصاف کی سابق حکومت اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت ان تمام افراد کو جاتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے جون 2018ء کو اس بنا پر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا کیونکہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں تھا۔ فیٹف کی طرف سے پاکستان کو چند اہداف دے کر پابند بنایا گیا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ان اہداف کا حصول ضروری ہے۔ فیٹف حکام نے جون 2018ء میں پاکستان کے مالی نظام اور قوانین کو ایف اے ٹی ایف کی 40میں سے 13سفارشات کے مطابق قرار دیا تھا جبکہ باقی 27سفارشات پر عملدرآمد کیلئے ایک سال کا وقت دیا گیا۔ فروری 2020ء تک پاکستان صرف 14سفارشات پر عمل کر پایا سو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اکتوبر 2022ء تک کا مزید وقت دیا تاکہ باقی کی 13سفارشات پر بھی عمل ہو سکے۔ اکتوبر 2020ء میں ہونے والے اجلاس میں چھ سفارشات کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا اور چار شعبوں کی نشاندہی کرکے اصلاحات لانے کیلئے پاکستان کو فروری 2021ء کا وقت دیا گیا۔ جون 2021 ء تک پاکستان نے 27 میں سے 26نکات پر عملدرآمد کیا جس پر ایف اے ٹی ایف نے اطمینان کا اظہار تو کیا مگر پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستان نے طویل جدوجہد اور مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
فیٹف کی طرف سے منی لانڈرنگ روکنے پر کچھ زیادہ ہی زور دیا گیا۔ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ فنڈز کی ترسیل کو شفاف بنانے کیلئے مروجہ بینکنگ کے نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔ پاکستان نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قانون میں ترمیم بھی کی؛ تاہم پاکستان کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر دیا جاتا اور فیٹف کی طرف سے نئے مطالبات کی ایک لسٹ تھما دی جاتی۔ فیٹف حکام کے رویے میں شدت کی وجہ بھارت کا منفی پروپیگنڈا بھی تھا جو وہ پاکستان کے خلاف مسلسل کر رہا تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں فلاحی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل امدادی ٹیموں کو پاکستان کی طرف سے دیے جانے والے فنڈز کو بھارت نے یہ ظاہر کیا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ چونکہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی مالی معاونت کر رہا تھا‘ اس لیے فیٹف حکام نے بھارتی الزام کی بنا پر پاکستان کی نگرانی سخت کر دی۔ پاکستان کو یہ ثابت کرنے کے لیے چار سال کا عرصہ لگا کہ کشمیریوں کو دیے جانے والے فنڈز درحقیقت فلاحی کاموں کے لیے تھے۔ ان چار برسوں میں پاکستان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان معاشی طور پر بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا آسان نہ تھا۔ یوں دیکھا جائے تو بھارت پاکستان کو معاشی لحاظ سے زک پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔ اب فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے لیکن فوری طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہونے والا کیونکہ بیرونی دنیا کا اعتماد بحال ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان نے منی لانڈرنگ سے متعلق فیٹف کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہے لیکن فنڈز کی مانیٹرنگ کرنے والا ادارہ فیٹف شاید یہ نہیں جانتا کہ ہم عسکریت پسندی کے کن مسائل سے دوچار ہیں۔ عسکریت پسندی ہمارے لیے دہرا چیلنج بن چکی ہے۔ بیرونی دنیا ہمیں عسکریت پسندوں کا معاون قرار دے کر ہم پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے جبکہ اندرونی طور پر ہمیں امن و امان اور عسکریت پسندی کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب سب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے پر شاداں ہیں تو مجھے سوات اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں نے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا ضرور ہے مگر اس کی مانیٹرنگ اب بھی جاری ہے۔ اگر بھارت نے واویلا مچا دیا اور سوات جیسے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شواہد بھی مل گئے تو فیٹف کو ایک بار پھر جواز مل جائے گا کہ وہ دوبارہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دے‘ اس لیے ہمیں اس لایعنی بحث میں پڑنے کے بجائے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے کس نے کتنا کام کیا ہے‘ کچھ ایسا کرنے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں ڈالنے کا راستہ مستقل طور پر بند ہو جائے۔ جو لوگ گرے لسٹ کے معاملے کو معمولی لے رہے ہیں انہیں یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ماضی میں گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے پاکستان کو 38 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہ ایک خطیر رقم ہے جسے عوامی مسائل کے حل کیلئے خرچ کیا جا سکتا تھا۔ جو قوتیں پاکستان کی ترقی سے خوفزدہ ہیں وہ پاکستان کے اس نقصان سے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ایسی قوتوں کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل کی جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جائیں گی بلکہ اپنے حریف ملک کو معاشی مسائل میں الجھا کر لڑی جائیں گی۔ ہم بھی ایسی ہی جنگ کا شکار ہوئے ہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم پر مختلف نوعیت کی جنگیں مسلط کرکے ہمیں معاشی طور پر کمزور کیا گیا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی کئی سخت شرائط کی وجہ پاکستان کی گرے لسٹ موجودگی تھی۔ اب گرے لسٹ سے اخراج کے بعد آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی نرمی آئے گی۔ گرے لسٹ میں ہونے کے باعث بینک کے ذریعے کی جانے والے ٹرانزیکشن کو نگرانی کے سخت مراحل کا سامنا تھا جس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اب بینک ٹرانزیکشن آسان ہو جائے گی جس کے سرمایہ کاری پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ ملکی سطح پر بینک ٹرانزیکشن مشکل تھی بلکہ بیرونی ممالک سے رقوم بھجوانے والوں کو بھی مکمل تفصیلات دینا پڑتی تھیں جو بیرون ممالک سے زرِمبادلہ میں کمی کا سبب بنتا تھا۔ اب بیرونِ ممالک سے رقم بھجوانے والوں کیلئے قدرے آسانی پیدا ہو جائے گی۔
پاکستان نے چار برسوں کی سخت محنت کے بعد فیٹف کی شرائط کو پورا کیا ہے جسے عالمی فورم پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس دوران پاکستان نے کئی اقدامات کیے ہیں جو بظاہر آسان نہ تھے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ منی لانڈرنگ کے سدباب کیلئے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ طویل المدتی منصوبہ بندی پر مشتمل ہوں‘ بینکوں کو سختی کے ساتھ قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کیونکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے فیٹف نے جن امور کا ہمیں ذمہ دار قرار دیا تھا‘ ان کا تعلق کمزور بینکنگ نظام سے تھا۔ گوکہ ہم اب گرے لسٹ سے نکل چکے ہیں لیکن پھر بھی ایف اے ٹی ایف کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے پیش کردہ سفارشات پر عملدرآمد میں کوئی نرمی نہیں کیا جانی چاہیے ورنہ بقول منیر نیازی ہماری صورتحال یہ ہو گی کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved