کراچی کے ایک نجی بینک سے رقم لے کر نکلنے والا نوجوان جب رقم لوٹنے والے ڈاکوئوں سے گتھم گتھا ہوا تو ڈ اکوئوں نے اس کی مزاحمت سے تنگ آ کر اس پر سیدھی گولیاں چلا دیں۔ وہ نوجوان سخت زخمی حالت میں سڑک پر گر گیا۔ فائرنگ کی آواز سن کر لوگ ادھر ادھر سے اکٹھے ہونے لگے تو ڈاکو موٹر سائیکل پر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو منا ظر اس دوران دیکھنے کو ملے‘ ان سے تو ایسا لگا کہ یہ کوئی جنگل ہے جہاں انسانوں کا کبھی گزر ہی نہیں ہوا۔ بجائے اس کے کوئی آگے بڑھ کر سڑک پر گرے زخمی نوجوان کی مدد کرتا اور اسے ہسپتال لے جاتا‘ ہر کوئی نوجوان اور ڈاکوئوں کی کھینچا تانی سے زمین پر ادھر ادھر بکھرے دس لاکھ روپوں میں سے اپنا اپنا حصہ لینے کیلئے چھینا جھپٹی میں مصروف ہو گیا۔یہ منظر دیکھ اورسن کر ایسا لگا کہ پورا معاشرہ ہی اب چندمالی مفادات کا اس طرح اسیر ہو چکا ہے کہ کسی اور چیز کی خبر ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ ڈاکوئوں کی بے خوفی دیکھ کر ان سے بچ جانے والا مال سمیٹنا باعث فخر سمجھنے لگے ہوں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زخمی نوجوان کی مدد کرنے کے لیے اس کے پیسے اکٹھے کر رہے ہوں۔ البتہ بینک سے نکلنے والے مظلوم شہری کودن دہاڑے بھری پُری سڑک پر پستول سے گولی مار کر لوٹنے والے راہزنوں اور ڈاکوئوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ان کا تعلق کسی ایسے گروہ سے ہے جسے آئین و قانون اور پولیس کا کوئی خوف نہیں۔ ایسے ڈاکوئوں کو اس بات کا تجربہ بھی ہوتا ہے کبھی کبھی کسی خاص ضرورت یا کسی ایماندار افسر کے ہتھے چڑھ جانے کے سبب انہیں اگر ایک دو ہفتوں کیلئے قید کیا بھی گیا تو چند ہفتوں بعد وہ بری ہو کر نہ صرف واپس آ جائے گا بلکہ دوبارہ سے اس دھندے میں مشغول ہو جائے گا۔ زخموں سے تڑپتے ہوئے شہری کی آنکھوں کے سامنے اس کی جان بچانے کے بجائے بکھرے پڑے نوٹوں کو لوٹا جانا اس کے لیے بھی باعثِ تکلیف ہو گا۔ جب ڈاکوئوں کو کچھ نہیں کہا جاتا‘ تو انہیں پھرکس چیز کا خوف ہو گا کہ سڑک پر بکھری ہوئی دولت کو لوٹے بغیر وہاں سے گزر جائیں؟
اکثر سنتے آئے ہیں کہ فلاں کوتو سات خون معاف ہیں۔ نجانے یہ مثال کس طرح وضع کی گئی اور کس قوم یا گروہ کیلئے تھی۔ اس کہاوت کے پیچھے کوئی سچی داستان ہے یا یہ محض افسانوی بات ہے۔ ممکن ہے کسی جنگ یا دو قبیلوں کی باہمی جھڑپ کے حوالے سے یا پھر کسی جنگل بارے یہ فقرہ کہا گیا ہو۔ہاں! یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے مخاطب ایسے ہی لوگ ہوں گے جنہیں سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں۔ایسی کہانیاں، مثالیں اور قصے گئے وقتوں کے تو ہو سکتے ہیں مگر آج کے جمہوری اور مہذب معاشرے میں اس سے بڑی فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ بھلا وہ کون سی شخصیت ہو سکتی ہے جسے کسی قسم کی پوچھ گچھ سے آزاد سمجھا جا سکے؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہو سکتا ہے؟ دنیا کے جس بھی حصے میں قانون اور انصاف کا رتی بھر بھی نام لیا جاتا ہے‘ وہاں سات خون کی معافی کی بات کرنا انتہائی فضول اور آئین و قانون اور انصاف کو تماشا بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت مغربی ممالک میں جرم‘ اور قتل جیسے جرم پر قطعاً کوئی معافی نہیں ہے۔ وہاں کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ جرم کرنے پر وہ آزاد شہری کی حیثیت سے گھوم پھر سکتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں زیادہ تر جرائم کی وجہ یہ ہے کہ مجرم کو پختہ یقین ہو تا ہے کہ نہ صرف ارتکابِ جرم سے اس کو بے تحاشا مالی فائدہ ملے گا بلکہ وہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جائے گا۔ اس وقت کراچی ہی نہیں‘ لاہور‘ اسلام آباد سمیت بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں اور تحصیلوں میں بھی سٹریٹ کرائم بہت بڑھ چکا ہے۔ جنوری سے اب تک صرف لاہور میں 386 سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ کراچی میں پچاس ہزار سے زائد رپورٹڈ سٹریٹ کرائم کے واقعات پیش آ چکے ہیں، جو رپورٹ نہیں ہوئے‘ ان کی تعداد کا اندازہ لگا کر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
چند ہزار روپے کے لیے کسی پر گولی چلانے حتیٰ کہ اس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ آئے روز ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر کسی نہ کسی کی جان لے لی جاتی ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ اب تو محض اشتعال، گھور کر دیکھنے اور ایسی دیگر معمولی باتوں پر بھی مخالفین کی جان لینے سے جھجکا نہیں جاتا۔ ہم جیسے قانون کے سخت نفاذاور سکیورٹی کے خامیوں کو روتے رہ جاتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کہ قتل چاہے کسی بھی طریقے سے کیا گیاہو‘ اتفاقاً ہوا ہو یا باقاعدہ پلاننگ کے تحت‘ وجہ کسی کی ضد ہو یا وقتی اشتعال نے کسی معصوم کی جان لی ہو ‘ ڈاکا چند لاکھ کا ہو یا چند ہزار کا‘ مقتول ایک ہو یا متعدد‘ سزا کتنی بھی سخت ہو‘ قانون کتنا ہی مضبوط ہو‘ اس طرح کی باتیں اس وقت کوئی معنی نہیں رکھتیں جب مقتول کے ورثا طاقت اور اثرو رسوخ سے خوفزدہ ہو کر قاتل کو معاف کر دیں اور ریاست بھی چپ چاپ یہ منظر دیکھتی رہے۔ پھر اس پرکوئی کچھ بھی کہے اورکچھ بھی لکھتا رہے‘ کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ ملک ان کیلئے ہی ہے جنہیں سرخاب کے پر لگے ہوں۔ ہم نے کبھی ایسے پَر دیکھے تو نہیں لیکن سات خون کی معافی والے لوگ اب نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے بدیش میں بنے ہوئے ''سرخاب کے یہ پر‘‘ اب مقامی مارکیٹ میں بھی آ چکے ہیں ۔ اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مدعی معاف نہیں کرتے‘ گواہان بھی پورے ہو تے ہیں تو ایسے میں قاتل پارٹی مبینہ طور پر تفتیشی افسران کے ذریعے مقدمے کی ضمنیوں میں کچھ ایسی خامیاں رکھوا لیتی ہے جن سے ملزم بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو سزا اور تختہ دار تک پہنچنے سے روک لیتا ہے۔
ہر کچھ عرصے بعد ایک بڑے کیس کے مجرم کی رہائی کی خبر اب چونکانے والی چیز نہیں رہی بلکہ معمول کی عادت بن چکی ہے۔ بلوچستان اور مغربی سرحدی علاقوں میں شورش کو ملکی افواج نے بیش بہا قربانیاں دے کر ناکام بنایا اور پھر ایسا وقت بھی آیا جب باغیوں کو‘ جنہوں نے ملکی دولت کو لوٹا اور سکیورٹی فورسز کو قیمتی جانی نقصان پہنچایا‘ نظریہ ضرورت کے تحت عام معافی دے دی گئی۔ ان کے خلاف قتل و غارت اور بم دھماکوں جیسے انتہائی سنگین مقدمات داخلِ دفتر کر دیے گئے۔ ایسے مقدمات ہم سب کی نظروں سے گزر رہے ہیں جنہیں یا تو داخل دفتر کیا جا رہا ہے یا جن کے ریکارڈ نہیں مل رہے۔ کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ ایسے فضول معاملات میں سر کھپائی کرتا رہے۔
کراچی کی اس سڑک پر ڈاکوئوں کی فائرنگ سے تڑپتے انسانی جسم کو ہسپتال لے جانے کے بجائے اس کے بہتے ہوئے خون میں لت پت کرنسی نوٹ لے کر بھاگنے والوں میں سے کوئی ایک بھی پیشہ ور ڈاکو یا ان کا ساتھی نہیں تھا‘ پھر یہ کون تھے؟ ان کا تعلق اس طبقے سے ہے جو اس طرح کے واقعات دیکھ دیکھ کر اب قدرے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ قرضوں، مصیبت اور افلاس میں ڈوبے ہوئے نڈھال معاشرے کی دیکھ بھال کے بجائے اس کی ہڈیوں سے بوٹیاں نوچ کر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں کیونکہ ریاست کی طرف سے لاتعلقی کے سبب انہیں اب یقین ہو چکا ہے کہ کل کو اگر ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تو کوئی انہیں بچانے نہیں آئے گا، ایسے میں جو کوئی جو کچھ سمیٹ سکتا ہے‘ وہ اسی میں لگا ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved