تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-10-2022

ایک قدیم جنگجو کی موت

ارشد شریف سے میری پہلی ملاقات 24سال قبل ہوئی۔ ہم دونوں نے ہاتھ ملایا۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ یوں لگا ہم برسوں کے بچھڑے بھائی ہیں۔ یوں ایک طویل دوستی کا سفر مسکراہٹ سے شروع ہو کر 23 اکتوبر 2022ء کو آنسوؤں پر ختم ہوا۔
ارشد شریف سے ایسا تعلق بنا کہ ہم دونوں برسوں ایک جگہ اکٹھے فلیٹس میں رہے۔ ارشد کے دفتر جانے کا وقت ہوتا تو میرا چھوٹا‘ چار پانچ سال کا‘ بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ باہر انتظار میں ہوتا کہ کب ارشد انکل فلیٹ سے نیچے اتریں اور وہ انہیں پکڑ لے۔ جب ارشد نیچے اُترتا تو میرا بیٹا اُس کی انگلی پکڑ کر وہیں سٹور پر لے جاتا اور اپنی مرضی کی کھانے پینے کی چیزیں خریدتا۔ نہ صرف وہ اپنے لیے چپس یا سافٹ ڈرنکس لیتا بلکہ اس کے ہم عمرپانچ چھ دوست بھی خریداری کرتے۔ ارشد اپنی مخصوص خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ انہیں سٹور میں سے چیزیں اٹھاتے دیکھتا رہتا اور آخر پر سٹور مالک سے پوچھتا کہ کتنے پیسے ہوئے۔ جیب سے بٹوہ نکال کر ادائیگی کرتا اور اپنی کار کی طرف چل پڑتا۔اتنی دیر میں میرا بیٹا اپنے چھوٹے چھوٹے دوستوں کے ساتھ غائب ہو چکا ہوتا اور دور سے وہ ارشد کو ہاتھ ہلا کر شکریہ انکل کا مل کر نعرہ لگاتے اور ایسے خوش ہوتے کہ جیسے آج انہوں نے کوئی بڑا شکار پھانس لیا تھا۔ اگلی صبح پھر یہی سب کچھ دہرایا جاتا۔
ایک دن میری بیوی نے ارشد کو کہا: بھائی آپ انہیں چیزیں نہ لے کر دیا کریں‘ ان کے باپ نے پہلے ہی اپنے بچوں کا سٹور پر کھاتہ کھلوا رکھا ہے۔ ہر ماہ مہد اور اس کے گینگ کا پانچ چھ ہزار کا بل بنتا ہے۔ ارشد نے کہا: فکر نہ کریں‘ یہ میرے علاوہ کسی کو نہیں کہتا۔ اور برسوں تک ارشد شریف نے یہ روٹین نبھائی۔ ایک دن ارشد فلیٹ سے اتر رہا تھا تو ہماری بھابی سلوسیا نے ہنستے ہوئے اوپر سے مہد اور اس کے گینگ کو ارشد کی طرف بھاگتے دیکھ کر آواز لگائی: ارشد دیکھو‘ وہ ٹیکس کلکٹر آگیا۔ ارشد نے مسکرا کر مہد کا ہاتھ پکڑا اور اس کے دوستوں کو سٹور کی طرف لے گیا۔ارشد شریف کا گھر ہمارا دوسرا گھر تھا۔ شہر میں تین ہی لوگوں کے دستر خوان دیکھے‘ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ میجر عامر اور ارشد شریف‘ جو شہر میں مہمان ڈھونڈ رہے ہوتے تھے کہ آج کس کو گھر بلا کر ضیافت کی جائے۔ ان تینوں کو کبھی اکیلے کھانا کھاتے نہ دیکھا۔
بچے بڑے ہوتے گئے اور ارشد کا پیار میرے بچوں کے ساتھ بڑھتا گیا۔ ہر ہفتے ارشد‘ گھمن‘ عدیل راجہ‘ ضمیر حیدر اور علی عثمان نے میرے گھر اکٹھے ہونا‘ اگلے ہفتے ارشد کے گھر اور پھر شاہد بھائی کے گھر۔ ارشد شریف جس چینل پر کام کرتا تھا وہ سب دوستوں کا ڈیرہ بن جاتا تھا۔ پھر دوپہر اس دفتر میں گزرتی‘ اکٹھے کھانا کھایا جاتا۔ شام کو چھ بجے یاد آتا یار رات کو شو بھی کرنا ہے۔ اُس وقت اپنے اپنے دفتر کا رُخ کرتے۔ ابھی گیارہ بجے شو ختم ہی ہو رہا ہوتا تھا کہ علی عثمان کا میسج آ جاتا کہ ارشد صاحب پوچھ رہے ہیں کہ کھانے پر کہاں مل رہے ہیں؟ اور پھر گیارہ بجے دوبارہ کھانا اکٹھے کھاتے اور رات دو تین بجے گھروں کا رخ کرتے۔ ہماری عادت تھی کہ ہم ایک ہی کیفے یا ریسٹورنٹ سے کھانا کھاتے‘ یوں عملے سے شناسائی ہو جاتی تو وہ رات بارہ بجے کے بعد بھی کیفے کھول کر ایک بندہ ہمارے لیے چھوڑ جاتے جو ہمیں رات دیر تک گرین ٹی بنا بنا کر پلاتا رہتا تھا اور جاتے وقت ارشد یا میں اسے ٹپ پکڑا جاتے۔ شہر کا کون سا کیفے ہوگا جہاں ہم دوستوں نے راتیں نہ گزاری ہوں۔
یہی حال لندن میں تھا کہ جہاں 2006-07 ء میں ہم دونوں رپورٹنگ کرنے پہنچے۔ لندن جانے کی بڑی وجہ بھی ارشد شریف تھا۔ ایک دن مجھے کہا: تم برٹش کونسل کے Chevening Scholarships کیلئے اپلائی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا: چھوڑو یار! ہم جیسے پینڈوئوں کو کس نے سکالرشپ دینی ہے۔ مجھے کہا: تم اپلائی کرو مل جائی گی۔ میں نے مذاق میں کہا: تمہیں کہاں سے یہ تار آئی ہے۔ ہنس کر بولا: چھوڑو‘ تم اپلائی کرو۔ میں نے کہا: بھائی جان مجھ سے اتنے پاپڑ نہیں بیلے جاتے کہ پہلے آپ پانچ دس ہزار امیدواروں کے ساتھ تحریری امتحان دو‘ پھر اسے پاس کرکے دو تین سو امیدواروں کے ساتھ گوروں کو انٹرویو دو اور پھر بھی شاید ہی آپ سلیکٹ ہوں۔ میں نے کہا: ہم سرائیکی اتنی محنت پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں تو کہا جاتا ہے ''کم جوان دی موت اے‘‘۔ارشد نہ ٹلا۔ وہ ایک دو سال پہلے خود اس سکالرشپ پر برطانیہ سے امتیازی کارکردگی کے ساتھ ماسٹرز کرکے آیا تھا۔ ارشد نے اگلے روز ایک فارم میرے سامنے رکھا اور کہا: اس پر بس دستخط کر دو۔ اس نے خود فارم بھرا‘ اسے جمع کرایا اور تحریری ٹیسٹ والے دن سنٹر چھوڑ آیا۔ تحریری ٹیسٹ پاس ہوا تو انٹرویو کے ٹپس دیے اور کچھ دن بعد لیٹر آگیا کہ لندن جانے کی تیاری کریں۔ اُس سال ستمبر میں لندن گیا تو ارشد شریف بھی ایک ماہ بعد آگیا۔ اسے برطانیہ میں پی ایچ ڈی کا سکالرشپ مل گیا تھا۔ میں ان دنوں ایسٹ لندن ایلفرڈ میں سیون کنگ سٹیشن کے پاس حماد ملک کے فلیٹ پر رہ رہا تھا جو میرے دوست شعیب نے ارینج کرا کے دیا تھا۔ میرا خیال ہے وہ دن ہماری زندگی کے بہترین دن تھے جو ہم نے اکٹھے لندن میں گزارے۔ میں نے ایک صبح ارشد کو کہا: یار تم تو نیند میں اونچا اونچا بولتے ہو اور ماشاء اللہ پوری محنت سے اپنے سارے راز کھول کر بیان کرتے ہو۔ یقینا گھر بھی سوتے وقت یہی کرتے ہوگے۔ ارشد ہنس کر بولا: مجھے پہلے بھی کسی نے کہا تھا تو میں نے بیوی سے پوچھا تھا لیکن اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا: جب تم نیند میں سارے راز کھول کر سناتے ہوگے تو انہیں تمہیں خبردار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ارشد بولا: میں بھی حیران ہوں کہ میری اتنی سیکرٹ باتوں کا اسے کیسے پتا چل جاتا ہے۔
اتنی دیر میں ارشد شریف کواپنے میڈیا گروپ کیلئے لندن میں رپورٹنگ کرنے کی آفر ہو گئی۔ ان دنوں لندن سیاسی طور پر گرم ہوگیا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف لندن میں ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے۔ ہر طرف خبریں ہی خبریں تھیں۔ میں اور ارشد اگرچہ مختلف میڈیا ہاؤسز کیلئے کام کررہے تھے لیکن صبح سویرے اکٹھے ہم دونوں نے ایجوائے روڈ اور آکسفورڈ سٹریٹ نکل جانا جہاں ہر طرف پاکستانی سیاستدان نظر آتے۔ وہیں ناشتہ اور وہیں لنچ کرتے۔ شام کو کسی کیفے میں بیٹھ کر سارا دن کی ڈویلپمنٹ پر لندن کے دوستوں کے ساتھ گپیں مارتے جن میں اکثر پرویز رشید صاحب اور نادر چودھری بھی شامل ہوتے۔ کبھی رحمن ملک کے ساتھ میچ پڑ جاتا یا پیپلز پارٹی کے دوست بشیر ریاض کے ساتھ کیفے میں بیٹھ جاتے کہ پتا چلے اندر خانے کیا چل رہا تھا۔نواز شریف کی10 ستمبر 2007ء کو پاکستان واپسی بڑا ایونٹ تھا۔ ارشد شریف‘ میں‘ اظہرجاوید اور دیگر صحافی دوست اُسی جہاز میں تھے جو سابق وزیراعظم کو لے کر اسلام آباد آرہا تھا‘ لہٰذا ہم نے وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا جو نواز شریف کے ساتھ پنڈی ایئر پورٹ پر ہوا۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ ایئرپورٹ پر عوام کا سمندر ہوگا جو سب رکاوٹیں توڑ کر انہیں جہاز کے اندر سے نکال کر سیدھا وزیراعظم ہاؤس لے جائے گا۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ الگ کہانی ہے جو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں لکھ دی تھی۔ایئر پورٹ پر سابق وزیراعظم کے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر ہم افسردہ تھے۔ اب مجھے اور ارشد شریف کو ایک بڑا فیصلہ کرنا تھا۔ میرے اخبار کے مالک نے مجھے آفر کی کہ میں لندن رک جاؤں جبکہ ارشد شریف کو اس کا پروفیسر کہہ رہا تھا کہ تم پی ایچ ڈی مکمل کرو۔ ایک شام ہم دونوں اکٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ ایک بڑا فیصلہ ہمارا منتظر تھا جس نے آنے والے برسوں میں ہماری زندگیاں بدل دینی تھیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved