کہتے ہیں حیرت کسی فنکار کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز میں ایک نیا پن دیکھتا ہے۔ یہی عالمِ حیرت اس کے فن کی تازگی برقرار رکھتا ہے۔ یہی وہ حیرت ہے جس کے لیے رومی نے کہا تھا کہ میں اپنا سارا علم بچے کی آنکھ کی حیرت کے بدلے میں دینے کو تیار ہوں۔ تصوف میں حیرت کا بنیادی مقام ہے۔ صوفی ایک مدار سے دوسرے مدار میں جاتا ہے تو وہاں کا نیا پن اس پر حیرتوں کے درکھول دیتا ہے۔ یوں ایک سچا صوفی مدار در مدار سفر میں ہمہ وقت عالمِ حیرت میں رہتا ہے۔ حیرت کا سوتا اندر سے پھوٹتا ہے جس کا تعلق فنکار کی Hypersensitivity سے ہوتا ہے۔
جب میں نے حارث خلیق کا نیا شعری مجموعہ ''حیراں سرِبازار‘‘ دیکھا تو حیرت سے جڑے سارے منظر میرے سامنے آگئے۔ حارث خلیق ایک Hypersensitive فنکار ہے جو دنیا کے چکا چوند بازار میں حیران کھڑا ہے۔ بازارِ نیولبرل ازم میں مادی منفعت استعارہ ہے جس میں کمزوروں کا استحصال ہوتا ہے اور منافع کی بڑھوتری واحد قدر ہے جہاں معاشرتی انصاف کا کوئی تصور نہیں۔ فنکار کا آئیڈیل ازم نیولبرل ازم کے بازار میں ایک ناپید اور ممنوعہ چیز ہے۔ یہیں سے حیرت فن کار کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
''حیراں سرِبازار‘‘ میں قاری کے لیے بھی حیرت کا سامان ہے۔ سب سے پہلی حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب میں نے ایک ہی مجموعے میں اردو اور پنجابی کی شاعری دیکھی۔ دوسری حیرت شعری اصناف کی رینج ہے۔ اس میں پابند نظمیں بھی ہیں‘ آزاد نظمیں بھی اور نثری نظمیں بھی۔ مجموعے میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ قاری کے لیے تیسری حیرت نظموں کا جدید اسلوب اور غزلوں کا کلاسیکی رنگ ہے۔ مجھے حارث کے فن کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت میں بھی حیرت کا سامان ملا۔ وہ بیک وقت انگریزی‘ اردو اور پنجابی میں یکساں سہولت سے لکھتا ہے۔ شعر اور نثر دونوں میں اس کا قلم رواں ہے۔ وہ شاعر بھی ہے‘ نثر نگار بھی اور کالم نویس بھی۔ اس کا ایک اور روپ ایک سوشل ایکٹوسٹ کا ہے جو معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ کے طور پر عملی جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ حارث خلیق کی شخصیت میں حیرت کا ایک اور پہلو کئی جغرافیائی خطوں سے اس کا تعلق ہے۔ اس کے آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا یوں اس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق امرتسر‘ لکھنؤ‘ لاہور‘ حیدر آباد‘ کراچی اور اسلام آباد سے رہا۔ اس فہرست میں پوٹھوہار کا اضافہ بھی کر لیجئے کیونکہ حارث خلیق کی اہلیہ کا تعلق پوٹھوہار کے خطے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حارث کی شخصیت میں ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ مختلف زبانوں اور کلچر کے ساتھ اس کا محبت اور احترام کا تعلق نظر آتا ہے۔ اس کے کردار بھی کسی ایک جگہ‘ مذہب یا زبان تک محدود نہیں۔ اس کی ڈکشن میں پنجابی‘ سندھی‘ پوٹھوہاری‘ ہندی الفاظ ہمیں یہاں وہاں نظر آتے ہیں۔
''حیراں سرِبازار‘‘ میں ایک بڑا حصہ نظموں اور دوسرا غزلوں کا ہے۔ دونوں حصے اپنے اسلوب کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ غزلیں روایت میں گندھی ہوئی ہیں جبکہ نظمیں روایت کو چھوتی‘ زقند بھرتی موضوعات ڈکشن‘ اسلوب اور اندازِ فکر کے نت نئے منطقے دریافت کرتی ہیں۔ حارث کی نظموں کی اکثریت کرداروں کے گرد گھومتی ہے لیکن یہ کردار روایتی معنوں میں epic کردار نہیں ہیں بلکہ معاثرے کے وہ راندۂ درگاہ کردار ہیں جن پرزور آوروں نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ یہ وہ افتادگانِ خاک ہیں جن کی ایک جھلک وکٹر ہیوگو کے ناول Les Misérablesمیں نظر آتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا ''جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا‘‘۔ حارث معاشرے کے انہی کرداروں کو اپنی نظموں کا موضوع بناتا ہے۔ ان کے باطن کی خوبیوں کو نکھارتا‘ سنوارتا اور اُجالتا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا جس نظم سے ہوتی ہے اس کا نام ''رشیدہ ڈومنی‘‘ ہے۔ یہ نظم میں نے کئی مواقع پر کئی مشاعروں میں فرمائش کرکے حارث خلیق کی زبانی سنی۔ یہ رشیدہ ڈومنی کی کہانی ہے جس کا تعلق بھوپال سے تھا لیکن حالات اسے لاہور لے آئے۔ جس نے محلے کی پرانی نائنوں اور دھوبنوں سے بنیادی پنچابی سیکھی اور پوٹھوہاری‘ پہاڑی‘ لہندے اور ماجھے کی زبانوں کے لہجوں کو سمجھنے لگی۔ نظم کا اختتام اس کا کلائمکس ہے جس میں رشیدہ ڈومنی مر جاتی ہے اور اس کی قبر پر ہاڑ اور جیٹھ (مہینوں کے پنجابی نام) کے مہینوں میں ایک پھول کھلتا ہے اور اگر اس پھول کی پنکھڑی چبا لیں تو شاعروں کا فن اور گلوکاروں کا سینہ درد سے معمور اور خدا کے عشق کی تاثیر سے پُرنور ہو جاتا ہے یوں رشیدہ ڈومنی کا بظاہر ایک عام سا کردار ایک غیر معمولی اور مثالی کردار میں بدل جاتا ہے۔ اس طرح کی کرداری نظموں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں رشیدہ ڈومنی‘ نیامت اللہ بنگش‘ سلامت ماشکی‘ صابرہ نورین‘ ندیم احسن‘ ایشور کمار‘ خمیسو‘ عثمان مسیح کی آخری سانس‘ موچھے کی پٹاری‘ جعفر زٹلی‘ مولانا حسرت موہانی‘ شیخ ایاز‘ کا مریڈ واحد بشیر‘ مشیر انور‘ نکو کی یاد میں‘ ملالہ یوسف زئی‘ گل شیر‘ سسی‘ روبینی کے لیے دعا‘ آمنہ خاتون عفت ماچکس بلوچانی‘ وزیرستان کا لڑکا اسلام آباد میں‘ رانجھے دا دکھ‘ سکھاں‘ مزدور باپ‘ نانا جان‘ نانی اماں‘ امی‘ یوسف‘ دُلا‘ ہوشو‘ ناصر شامل ہیں۔
یوں تو ساری نظمیں اپنے اسلوب اور Treatment کے لحاظ سے اہم ہیں لیکن جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر میں ''رشیدہ ڈومنی‘‘ کے علاوہ دو اور نظموں کا ذکر کرنا چاہوں گا جن میں حارث اپنے فن کی معراج پر نظر آتا ہے ان میں ایک نظم ''سلامت ماشکی‘‘ اور دوسری ''جعفر زٹلی‘‘ ہے۔ سلامت ماشکی کمیوں کی بستی میں رہتا تھا جہاں چُوڑے‘ چنگڑ‘ چمار اور مزدور بستے تھے جہاں ہندو‘ عیسائی اور مسلمان ایک ساتھ رہتے تھے۔ ایک روز مراثیوں کا لڑکا اس کی نوبیاہتا بیوی کو لے بھاگتا۔ ایسے میں ایک کمزور شخص کا ردِ عمل دیکھئے:
''تو وہ شب بھر بہت رویا
مگر پھر یہ خیال آیا
چلو اچھا ہوا اک جی گھٹا اور ذمہ داری کم ہوئی میری‘‘
پھر ایک دن بستی میں ہنگامے شروع ہو گئے اور سلامت ماشکی کے ڈھائی مرلے کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ اس کے گھر کا سامان دھڑا دھڑ جل رہا تھا اور وہ بے چارگی سے اپنی کائنات جلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ آگ بجھانے کے لیے پانی کی ضرورت تھی مگر اس روز بلدیہ کے پمپ میں پانی نہیں آرہا تھا۔''جعفر زٹلی‘‘ بھی ایسی ہی نظم ہے جس میں جعفر زٹلی جو بظاہر ایک عام ہجوگو شاعر تھا۔ سچ بولنے پر فرخ سیر کی سفاکیت کا نشانہ بنا اور مزاحمت کی علامت بن کر اس نظم میں امر ہو گیا۔ اس مجموعے کی طویل نظم ''رات‘‘ ہے جو پاکستانی سیاسی تاریخ کا نوحہ ہے۔
''حیراں سرِبازار‘‘ معاشرے میں طبقاتی تفریق کا فنکارانہ اظہار ہے جس میں معاشرے کے Have-notsکو شاعری کا موضوع بنایا گیا ہے اور جس میں شاعر واضح طور پر ان کمزور طبقوں کی آواز بن کر ابھرتا ہے جو استحصالی معاشروں میں محض خس و خاشاک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حارث معاشرے کے ان گرے پڑے لوگوں کو اپنی نظموں میں وہ رفعتیں عطا کرتا ہے کہ ان کے سامنے معززینِ شہر ہیچ نظر آتے ہیں۔ یہی ذلتوں کے مارے لوگ حارث کے ہیروز ہیں‘ اس کے نیلم و مرجان ہیں۔ ایک حیرت سرِ بازار حارث کی آنکھوں میں اتری تھی۔ اور ایک حیرت پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جب وہ افتادگانِ خاک کو ہیروز کے روپ میں دیکھتے ہیں‘ ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور غیر محسوس انداز میں درد کے اس قبیلے کا فرد بن جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved