تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     26-10-2022

مہنگائی بس آتی ہے‘ جاتی نہیں

اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی آ چکی ہے لیکن پاکستانی عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے قومی خزانے کو بھرنے کے لیے دو ہی آسان طریقے اپنا رکھے ہیں؛ ایک تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھاتے جائو۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چونکہ مشکل کام ہوتا ہے‘ لہٰذا غریب تنخواہ داروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کر کے ٹیکس اہداف پورے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ ہر سرکاری و نجی ملازم کی ماہانہ تنخواہ میں سے ادارے ٹیکس ازخود کاٹ لیتے ہیں جبکہ بزنس مین اور کاروباری طبقہ اپنی آمدن سرکاری اداروں سے چھپانے کے لیے مختلف حیلے اور حربے استعمال کر سکتا ہے اور کرتا بھی ہے لیکن تنخواہ دار کی تنخواہ تو چھپ بھی نہیں سکتی، اس لیے انکم ٹیکس وصولی کے لیے سب سے آسان ہدف سیلری پرسنز ہیں، جن سے ٹیکس کٹوتی نہایت آسان ہے، پھر جوں جوں تنخواہ بڑھے گی تو خودکار طریقے سے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ ٹیکس دہندگان کا غالباً واحد طبقہ ہے جو تاجروں و صنعت کاروں کی طرح اپنے ٹیکس کے بدلے کوئی اضافی مراعات کا مطالبہ بھی نہیں کرتا بلکہ کر ہی نہیں سکتا۔ حکومت کاجب دل کرے کہ ٹیکس کا ٹارگٹ بڑھانا ہے تو اسے تنخواہ دار ملازمین کے گرد ٹیکس نیٹ مزید کسنے کا خیال آ جاتا ہے۔ لہٰذا جب بھی ٹیکس ٹارگٹ میں کمی کا سامنا ہو تو سیلری پر ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کار، موٹرسائیکل، رکشہ، ویگن، بس، ٹرین سمیت دیگر ذرائع آمد و رفت چونکہ ہمہ وقت حرکت میں رہتے ہیں کیونکہ موجودہ تیز ترین دور میں اب انسان جانوروں پر تو سواری کرنے سے رہا، لہٰذا فیول یعنی ڈیزل اور پٹرول سستے ہوں یا مہنگے‘ ان کی فروخت کبھی نہیں رک سکتی۔ ان پر ٹیکسز کی شرح بڑھا کر قومی خزانے کو بھرنے کی سبیل کی جاتی ہے۔ سی این جی ایک سستا متبادل ایندھن تھا، آہستہ آہستہ اس کی قیمت بھی پٹرول کے قریب پہنچا دی گئی ہے تاکہ فرق کم ہونے کی وجہ سے لوگ پٹرول کے استعمال کو ہی ترجیح دیں۔ پھر اس فرق کو مزید کم کرنے اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے گیس کی قلت کا جواز بنا کر سی این جی سال میں نو یا دس مہینے تو ویسے ہی بند رکھی جاتی ہے اور پٹرول پر من مانے ٹیکسز لگا کر خزانے کے ٹارگٹ پورے کیے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ سستے پٹرول پر بے تحاشا ٹیکس لگا کر اسے خاصا مہنگا کر دیا جاتا ہے اور پھر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمت میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یعنی یہاں حکمرانوں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے لیے ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں۔ ایک تو پٹرولیم مصنوعات پر ظالمانہ ٹیکس وصول کرو اور پھر یہی ٹیکس دوبارہ بجلی کے بلوں میں بھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اکٹھا کرو۔ جب حکومت کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہی پٹرولیم مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس ہو گا تو پھر وہ تیل کیوں سستا کرے گی؟
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار دورۂ امریکہ کے دوران یہ گلہ کرتے سنائی دیے کہ ڈالر کی قیمت کا کنٹرول سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے، مجھے معیشت کا بھٹہ بیٹھنے پر بلایا جاتا ہے، روس سے سستا تیل خریدیں گے، اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے اور ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ہمیں روس سے کم قیمت تیل ملا تو ضرور لیں گے۔ ہم نے امریکی حکام کو روس سے سستے نرخوں پر تیل خریدنے کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے، انہوں نے کوئی تحفظات ظاہر نہیں کیے۔ کوئی سوئچ نہیں کہ بند کرنے سے مہنگائی ختم ہو جائے گی، مہنگائی نہ تو چھ ماہ میں آتی ہے اورنہ ہی جاتی ہے، ملک کی ترقی کے لیے چارٹر آف اکانومی پر متفق ہونا ہوگا۔ وفاقی وزیرخزانہ کی باتوں میں کتنی صداقت ہے، حکومت قوم سے کتنی مخلص ہے اور کیا وہ واقعی مہنگائی کم کرنے یا سستا پٹرول خریدنے کے لیے بے تاب ہے؟ ان ساری باتوں کے جوابات اپنی جگہ‘ ہم تو اس معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناتے اپنے ذہن میں ابھرنے والے چند سوالات کاجواب چاہتے ہیں۔ تیل تو اب روس کے بغیر بھی سستا مل رہا ہے یعنی آج کل انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرولیم قیمتیں خاصی نچلی سطح پر ہیں‘ تو پھر وزارتِ خزانہ نے اس کا فائدہ عوام تک کیوں نہیں پہنچایا اور پٹرول اسی تناسب سے سستا کیوں نہیں کیا؟ 20 جون کو برطانوی برینٹ آئل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل تھی‘ اب جو 92 ڈالر فی بیرل پر آ چکی ہے مگر عوام کو اس سے کیا فائدہ ہوا؟ دوسرا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک اور عوام کے لیے سستا تیل خریدنے کے لیے امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرنے اور ان کی رضامندی یا منظوری کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ڈار صاحب نے خود یہ بتایا کہ بھارت روس سے سستا تیل خرید رہا ہے، اگر بھارت سمیت دوسرے ممالک خرید سکتے ہیں تو ہماری ایسی کیا مجبوری ہے؟ یقینا ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں اور اگر ہمیں دنیا میں کہیں سے بھی کم قیمت تیل ملتا ہے تو ضرور لینا چاہیے۔ لیکن مسئلہ صرف سستا تیل خریدنے کا نہیں ہے بلکہ ہمارا رونا تو یہ ہے کہ تیل سستا خرید کر بھی حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز ہی اتنے بڑھا دیتی ہے کہ عوام کو وہ اسی قیمت میں پڑتا ہے۔ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ عالمی مارکیٹ (روس یا کسی بھی دوسرے ملک) سے سستا تیل خریدنے کے بعد ہماری وزارتِ خزانہ دوبارہ ٹیکسز بڑھا کر پٹرول؍ ڈیزل کو مہنگا نہیں کرے گی؟
کل تک حکومت ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کا کریڈٹ لے رہی تھی مگر آج قیمت کے بڑھنے پر کہا جا رہا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا کنٹرول سٹیٹ بینک کے پاس ہے‘ یہ بات اگر مان لی جائے تو پھر قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ سٹیٹ بینک کا کنٹرول کس کے پاس ہے؟ اگر مسلم لیگ کے گزشتہ دورِ حکومت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان ریاست کے ماتحت تھا اور ڈار صاحب ڈالر ریٹ کو کنٹرول کرنے کا کریڈٹ بھی لیتے رہے ہیں تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ممکن ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے دور میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کا حوالہ دے جس کے تحت اب سٹیٹ بینک اپنی پالیسی سازی میں آزاد ہے۔ اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حکومت اگر نیب ترامیم کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ہونے والی الیکشن ترامیم اور ای وی ایم کے قانون میں اپنی مرضی و منشا کے مطابق ترامیم کر سکتی ہے تو پھر سٹیٹ بینک کا کنٹرول دوبارہ ریاست کو کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ کیا اس کے لیے بھی ہمیں کسی دوسرے ملک یا کسی عالمی ادارے کی رضا مندی درکار ہے؟ اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک ہیں تو ہمیں اپنے ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے عوام کو فائدہ پہنچانے کاحق بھی حاصل ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران قول و فعل کے تضاد کو چھوڑ کر یہ تہیہ کریں کہ انہوں نے اپنے شہریوں کو ہر قیمت پر ریلیف دینا ہے۔ ہمیں حکمرانوں کی نیت پر شک نہیں لیکن بات عمل کی ہے۔ اگر وہ اپنے عمل سے عوام کے لیے سہولتیں اور آسانیاں پیدا کریں گے تو لوگ ان سے خوش رہیں گے ورنہ حالیہ دنوں میں ضمنی انتخابات کے دوران انہوں نے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے غیظ و غضب کا ٹریلر دیکھ ہی لیا ہو گا۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو عام انتخابات میں اس طرح کی پوری فلم بھی چل سکتی ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ کوئی سوئچ نہیں کہ بند کرنے سے مہنگائی ختم ہو جائے، مہنگائی نہ تو چھ ماہ میں آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس مہنگائی ختم کرنے والا سوئچ نہیں تھا تو آپ کی جماعت اور اتحادیوں نے اقتدار کو گلے کیوں لگایا؟ دوسرا‘ ہمارے ملک میں مہنگائی چھ ماہ تو کیا، راتوں رات بھی آ جاتی ہے، البتہ مہنگائی کو جانے کیلئے چھ ماہ تو کیا سالہا سال درکار ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں مہنگائی آتی ہی ہے‘ جاتی نہیں۔ باقی رہی بات ملک کی ترقی کیلئے چارٹر آف اکانومی پر متفق ہونا ہوگا تو حکومت کو ہی اس میں پہل کرنا ہو گی۔ اگر پی ٹی آئی فی الحال اس پر متفق نہیں ہوتی تو بھی کم از کم حکمران اتحاد میں شامل باقی کی جماعتیں تو اس نیک کام کا آغاز کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved