بہت سے معاملات کو مکمل طور پر بدلنے کا وقت آچکا ہے۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر کسی نہ کسی تقاضے کا سامنا ہے۔ ڈھنگ سے جینا اب ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ دُہری دھار کے خنجر والا معاملہ ہے۔ اگر پوری دیانت اور شرافت کے ساتھ زندگی بسر کیجیے تو قدم قدم پر آزمائش ہے، پیچیدگیاں ہیں ؎
کردار لے کے گھر سے نکلیے تو دیکھیے
ہر ہر قدم پہ کون سی قدغن نہیں جناب!
اور اگر بدعنوانی اور بے ایمانی کے ساتھ جینے کا آپشن اپنائیے تو دنیا و آخرت کی خرابی و ذلت ہاتھ لگتی ہے۔ گویا ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی۔ ایسے میں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ تمام انسانوں کے مجموعی افکار و اعمال کا نتیجہ ہے۔ تمام تبدیلیاں انسانوں ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ پھر بھی ہر انسان کو اِس مجموعی نتیجے کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے۔ بدلنا دنیا کا مزاج اور ہماری مجبوری ہے۔ مجبوری اس لیے کہ اگر ہم تبدیل ہونے کے آپشن کو بروئے کار لانے سے گریز کریں تو اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ تبدیل نہ ہونے کا آپشن ہوتا تو ہے مگر اِسے آپشن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ جب ماحول بدل رہا ہوتا ہو تو آپ کو بھی بدلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ اِتنی عمومی بات ہے کہ اِسے سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔
آج کا انسان عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ ایک طرف تو وہ بیرونی عوامل کے ہاتھوں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو جھیل رہا ہے اور دوسری طرف اُسے باطنی کشمکش کا سامنا ہے۔ باطنی کشمکش بہت سے معاملات میں ہے۔ سب سے بڑا معاملہ تو اخلاقی انحطاط کا ہے۔ جسے سوچنے کی ذرا سی بھی توفیق ملتی ہے وہ جائز و ناجائز، قانونی و غیر قانونی اور حرام و حلال کی کشمکش میں الجھے بغیر نہیں رہ پاتا۔ جس نے یہ سوچ لیا ہو کہ کسی بھی معاملے میں کچھ سوچنا ہی نہیں اُس کے لیے زندگی سہل بلکہ سہلِ ممتنع ہے۔ پریشانی تو اُن کے لیے ہے جو ہر معاملے کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے چلنا چاہتے ہیں۔ آج کا ہر وہ انسان شدید پریشانی سے دوچار ہے جو کامیابی اور ترقی تو چاہتا ہے مگر کسی کو نقصان سے دوچار کیے بغیر۔ حلال، جائز اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے کامیاب ہونا اب بہت بڑا چیلنج ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ خوش حالی یقینی بنانے کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے کوئی بھی قیمت چُکانے کو تیار رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ قیمت اُس سے زیادہ ہوتی ہے جسے پانے کی تگ و دو کی جارہی ہوتی ہے! ڈھنگ سے جینے کے نام پر اپنایا جانے والا یہ طریق کسی بھی طور مناسب ہے نہ سود مند۔ حتمی تجزیے میں تو خسارہ ہی ہاتھ لگتا ہے۔ ظاہر ہم پر غالب آچکا ہے اور اِس کا نتیجہ بھی ہم خوب بھگت رہے ہیں۔ دنیا کی چمک دمک ہماری آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے بس اُسی کو حقیقت سمجھ کر زندگی بسر کرنے کی صورت میں جو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں اور وہ پیدا ہو ہی رہی ہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کمانا یا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خالص مادّہ پرست سوچ کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر گھروں کو مختلف اشیا سے بھرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ بہت سی اشیا سے مستفید ہونا مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔ لوگ اِسی میں خوش رہتے ہیں کہ بہت کچھ پالیا ہے۔ کوئی بھی چیز اصلاً اس لیے ہوتی ہے کہ ہماری زندگی کا معیار بلند کرے۔ اگر ہمارے شب و روز کسی مثبت تبدیلی سے ہم کنار نہ ہوں تو پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ گھر میں کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ زندگی میں کیا ہے۔
طرزِ زندگی کیا ہے؟ زندگی بسر کرنے کا انداز۔ اِس میں بہت کچھ شامل ہے۔ ہماری سوچ طرزِ زندگی کی بنیاد ہے۔ ہم کس طور جینا چاہتے ہیں اِس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اُسے کس طور لیتے ہیں۔ اگر ہم زندگی کو محض ظاہری بنیاد پر قبول کرتے ہیں تو ہماری طرزِ زندگی کچھ اور ہوگی۔ جو لوگ اِس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اِس دنیا میں اپنے قیام ہی کو کُل زندگی جانتے ہیں اُن کی طرزِ زندگی ایسے لوگوں کی طرزِ زندگی سے بہت مختلف ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ، اُس کے انبیاء کرام، اُن کی تعلیمات اور سب سے بڑھ کر آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اُن کی ترجیحات ہی کچھ اور ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں اعتدال کی راہ سے ہٹنا پسند نہیں کرتے۔ آج کا انسان طرح طرح کے بحرانوں اور الجھنوں کا شکار ہے۔ کچھ تو وہ ہے جو اُس کا اپنا پیدا کردہ ہے اور کچھ دوسروں کا کیا دھرا بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ معاملات آپس میں اِس طور جُڑ گئے ہیں کہ اب کسی بھی معاملے کو الگ تھلگ رکھنا ممکن نہیں رہا۔ معاشرے کا ہر پہلو دوسرے تمام پہلوؤں سے متصل ہے اور یہ اتصال ایسا ہے کہ ایک چیز کو چھیڑیے تو کئی چیزیں اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہیں۔ ایسے میں ہر قدم پر سنبھلنا پڑتا ہے۔ احتیاط نہ برتنے کی صورت میں بیک وقت کئی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ زندگی جتنی آسان ہے اُتنی ہی مشکل بھی ہے۔ روزمرہ کاموں میں سہولت کاری کرنے والی اشیا و خدمات کی بھرمار ہے۔ یہ تو ہوئی زندگی کے خالص مادّی پہلو کی بات۔ یہ پہلو دوسرے تمام پہلوؤں پر یوں حاوی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ زندگی کا باطنی اور روحانی و اخلاقی پہلو قدرے رُلا ہوا ہے۔ انسان ظاہر میں ایسا کھویا ہوا ہے کہ باطن کی طرف دیکھنے کی فرصت ہی نصیب نہیں ہو رہی۔ جنہیں فرصت مل جائے اُن میں ہمت پیدا نہیں ہوتی۔ زندگی کا اصل حسن اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انسان ظاہر و باطن میں توازن برقرار رکھے۔ باہر کی دنیا کے ساتھ بھی چلے اور اپنے اندر کی دنیا کا ساتھ بھی نہ چھوڑے۔
طرزِ زندگی میں معمولی نوعیت کی تبدیلی نہیں چلے گی۔ آج کے انسان کو بہت کچھ اپنانا ہے۔ زندگی کا مجموعی ڈھانچا عجیب و غریب ہیئت کا حامل ہے۔ بہت کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ انکار و اقرار کی ملی جلی کیفیت تمام معاملات پر مسلط سی ہوگئی ہے۔ شخصی یا انفرادی معاملات میں دُوئی بہت زیادہ ہے۔ انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے اور ذرا سا ایثار کرنے کو تیار نہیں۔ جو لوگ دین کی بات کرتے ہیں وہ دنیا کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور جو دنیا پر مر مٹے ہیں وہ دین پر جان لُٹانے کے عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جو کچھ معاشرے میں چل رہا ہو وہ سب کا سب اچھا بھی نہیں ہوتا اور بُرا بھی نہیں ہوتا۔ ہر انسان کو بہت دیکھ بھال کر کچھ لینا اور کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ نئی طرزِ زندگی آج کے انسان کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی طرزِ زندگی جس میں توازن ہو۔ اشتراکِ عمل کل بھی ایک بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اشتراکِ عمل کے فوائد سے اُسی وقت بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے جب لوگ ایثار کے عادی ہوں۔ ایثار کوئی ایسا وصف نہیں کہ خود بخود پنپ جائے۔ اِس وصف کو پروان چڑھانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہم بہت کچھ بھول چکے ہیں اور مزید بہت کچھ بھولنے کے درپے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش کی اندھی پیروی میں ہم یہ نکتہ نظر انداز کرچکے ہیں کہ بہت کچھ ہاتھوں سے نکل بھی رہا ہے۔ انسان نے دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ مان کر اپنے آپ کو کنویں کے مینڈک کی سی حیثیت دے دی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
سامان سو برس ہے‘ پل کی خبر نہیں
ہر عہد نے مادّی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے حوالے سے چیلنج بھی پیدا کیے ہیں۔ آج بھی یہی کیفیت برقرار ہے۔ ہر انسان کی زندگی کا اخلاقی پہلو نظر انداز کیے جانے کے عذاب سے دوچار ہے۔ اب لازم ہے کہ خالص مادّہ پرستانہ ذہنیت ترک کرتے ہوئے اِس طور جیا جائے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھلائی بھی ممکن بنائی جاسکے۔ بہت سے معاملات کو انسان نے خواہ مخواہ سر پر سوار کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو آسان سی زندگی عطا کی ہے ہم اُسے مشکل تر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اِس حوالے سے نہ سوچنے کی اب گنجائش نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved