پاکستان میں فنِ حکمرانی یا راج نیتی کے لیے کسی کوٹلیہ چانکیہ کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی ارتھ شاستر کھولنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہماری 75سالہ جمہوری روایات ہی کافی ہیں۔ مثال کے طور پر لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ارشد شریف تک‘ چار چیزیں ہماری طرزِ حکمرانی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے پہلے قتل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت اور لواحقین کے ساتھ ''خلوصِ دل‘‘ سے اظہارِ تعزیت۔ دوسرے نمبر پر وہ سرکاری بیان جو ایک ہی بار 1947ء میں ٹائپ ہوا تھا۔ اس میں مقتول اور حکمران کا نام تبدیل کرکے مستقل مزاجی سے اسے پریس ریلیز کے طور پر جاری کرنا۔ تیسرا یہ دعویٰ ہے کہ ملزم بچ کر نہیں جائیں گے اور مقتول کا خون رائیگاں نہ جائے گا۔ چوتھا اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن بن گیا ہے جس میں واردات کے ذمہ دار بے نقاب ہو جائیں گے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ملک میں اس طرح کے چند بڑے کمیشنوں پر نظر ڈالیں۔
پہلا کمیشن: اگرتلہ سازش کیس کے حوالے سے 1966/67ء میں ایک کمیشن بنا۔ مشرقی پاکستان پر اس کمیشن کی کارروائی شیطان کی آنت ثابت ہوئی۔ سیاسی عدم استحکام اور بے چینی بڑھتی گئی۔ بھارت نے باغیوں کو تربیت دینے کے لیے ٹریننگ کیمپ بنائے جس کے بعد انڈین فوج نے بین الاقوامی سرحد پامال کی اور مسجدوں کے شہر ڈھاکہ میں پرچمِ ستار و ہلال سر نگوں کر کے ترنگا لہرا دیا اور ہمارے راج نیتـک گرو کمیشن کمیشن کھیلتے رہے۔ آزادی کے پہلے پنج سالہ میں ہمارے پہلے وزیراعظم قتل ہوئے۔ کمپنی باغ راولپنڈی تھانہ کوتوالی کی حدود میں تھا۔ جہاں ایف آئی آر کٹی۔ ملزم مارا گیا۔ تفتیشی ڈی ایس پی ثبوتوں سمیت راہوالی کینٹ کے اوپر Twin-Otter جہاز کے حادثے میں ٹکرے ٹکرے ہو گیا جس کے بعد لیاقت علی خان کیس قتل کمیشن بنایا گیا۔
دوسرا کمیشن: تقسیمِ ہند کے بعد بستی لال کمال پاکستان کے حصے میں آئی۔ جہاں پہ 17 اگست 1989ء کے ہوائی سانحے میں ملک کی ساری ٹاپ براس عسکری قیادت C-130کے حادثے میں جان سے گزر گئی۔ ایک کے بعد دوسرا کمیشن بنا۔ نتیجہ کیا نکلا‘ جسے پتا ہو وہ ازراہِ کرم قوم کی معلومات میں اضافہ کرے‘ بتا دے۔
تیسرا کمیشن: یہ دن دہاڑے فرسٹ لیڈی پرائم منسٹر بی بی شہید کے قتل پر بنا۔ اس کمیشن کا نتیجہ بھی پہلے سے مختلف نہ تھا۔ بقول شاعر:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
چوتھا کمیشن: یہ تھا سانحہ ماڈل ٹائون اور ماڈل ٹائون قتلِ عام پر بنایا گیا کمیشن۔ اس کا بھی وہی کچھ بنا جو پہلے کمیشن کمیشن والے کھیل سے بنتا آیا تھا۔ یہ کھیل اتنا طویل ہوا کہ لوگوں نے اپنے کریمنل جسٹس سسٹم پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا‘ اس لیے اب حمود الرحمن کمیشن کا ذکر کرنے کی کون سی ضرورت بچی ہے۔ نہ اس کمیشن کے لیکھکھ بچے نہ ہی کوئی دوسرا کردار زندہ بچا ہے۔ ویسے بھی بنگلہ دیش نے اپنی مدر لینڈ کو تقریباً ہر شعبے میں میلوں پیچھے چھوڑ دیا جو ہماری بد قسمتی ہے۔ معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی واردات ٹرانس نیشنل کرائم ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر پرانے کھلاڑیوں نے پرانا کھیل کھیلنے کا اعلان کیا کہ آئیں! کمیشن کمیشن وا لا کھیل کھیلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی آر درج کیے بغیر کوئی کمیشن فوجداری معاملے میں بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ متعلقہ قانون کے تحت کسی بھی کمیشن کا آغاز ٹی او آر (Terms of Reference) سے ہوتا ہے۔ ہر فوجداری مقدمے کے حقائق اور شواہد واردات کی نوعیت کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔ اس لیے مقدمہ درج کرنے کے بعد ہی T.O.R لکھے جا سکتے ہیں۔ یہی (ن) لیگ تھی جس کے دورِ اقتدار میں چند سال پہلے پٹھانکوٹ کا واقعہ بھارت میں ہوا تھا مگر اس کی ایف آئی آر CTDتھانہ گوجرانوالہ میں کاٹی گئی۔ جس طرح پاکستان کے قانون میں اجازت ہے کہ اگر کسی پاکستانی سے متعلقہ واردات ہو جائے چاہے وہ بھی پاکستان کی زمینی یا فضائی حدود سے باہر‘ اس بارے میں پاکستان میں FIR درج ہو سکتی ہے اور ملزموں کا ٹرائل بھی ہو سکتا ہے۔ لندن میں قتل ہونے والے کراچی کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں ایسا ہی ہوا تھا۔ قتل U.Kمیں اور ملزموں کا ٹرائل اور فیصلہ پاکستان میں۔ PDM کی حکومت نے ارشد شریف قتل کیس میں پاکستان کے اندر کوئی FIR ابھی تک نہیں درج کروائی۔ ایک بڑی Development ضرور ہوئی ہے کہ ارشد شریف کی میت کا پوسٹ مارٹم پمز ہسپتال اسلام آباد میں بھی کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس پوسٹ مارٹم کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس P-Mرپورٹ کو پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم استعمال کیسے کرے گا اور کہاں۔ FIRکے بعد ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173کے تحت 17 دن میں Prosecution کرائم رپورٹ یا چالان عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہے۔ ملزم نہ پکڑے گئے ہوں تو عبوری چالان دائر کرنا ضروری (Mandatory) ہے۔ جب یہ الفاظ لکھے گئے تب وفاقی سرکار کا اعلان کردہ کمیشن نہ بنا نہ بیٹھا۔ ہاں البتہ وزیراعظم ہائوس کے براہِ راست نیچے سویلین ایجنسی IB اور وزارتِ داخلہ کی ماتحت FIA کے دو لوگوں کی کمیٹی نوٹیفائی ہوئی۔ اس نوٹیفکیشن میں کہیں درج نہیں کہ اسے کس قانون کے تحت کس مقدمہ میں کینیا بھیجا جا رہا ہے۔ مقدمہ تو ابھی درج ہونا ہے۔ فوجداری قانون کی الف‘ ب سمجھنے والے بھی جانتے ہیں کہ FIR سے پہلے تفتیش کرنا غیر قانونی ہے۔ ماسوائےFIA Act 1975 ء اور NAB Ordinance 1999 کے نیچے درج ہونے والے مقدمات کے۔ آج دل بہت بوجھل ہے۔ اسلام آباد میں ارشد شریف کے جنازے میں شرکت کی۔ گولڑہ شریف کے پیر نصیر الدین نصیر کے جنازے کے بعد ارشد شریف جتنا بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ لاکھوں لوگ‘ جن میں عورتیں‘ بچے اور فیملیز بھی شامل تھیں‘ سب جنازے میں شریک ہو کر ارشد کو الودع کہنے آئے تھے۔ لوگوں نے خوف کا بت توڑ کر دکھا دیا۔ میری کیفیت میرے مہربان پیر نصیر الدین نصیر کے اس شعر والی ہوئی :
ان کی محفل میں نصیرؔ ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم‘ ہاتھ سے جانا دل کا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved