حالات یہاں تک پہنچ چکے کہ اُنہیں پریس کانفرنس کرنی پڑی جنہوں نے کبھی ایسا نہ کیا تھا۔ ملکی صورتِ حال پر یہ اثر پڑا ہے ارشد شریف کی شہادت کا۔ کہاں ارشد شریف کو مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا اور کہاں یہ صورتِ حال کہ تاویلیں دی جا رہی ہیں۔ بات ذہن میں رہے کہ ارشد شریف کی ابھی تدفین نہیں ہوئی تھی اور یہاں یہ صورتِ حال دیکھی جا رہی تھی۔
البتہ ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ دو الگ موضوعات کو گڈمڈ کیوں کر دیا گیا۔ پریس کانفرنس تو اس وجہ سے کی گئی کہ ارشد شریف کی شہادت کے بعد بے اختیار ملک میں شور اٹھا کہ کون کون اس کے پیچھے ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں بات شروع کی گئی سائفر اور عمران خان کے الزامات سے کہ اُن کی حکومت کو کیسے ہٹایا گیا۔ پوچھنے کی بات یہ ہے کہ سائفر کا مسئلہ عمران خان نے اٹھایا تھا‘ اُس کا تعلق ارشد شریف سے کیا تھا؟ بطورِ رپورٹر دیگر رپورٹروں اور تجزیہ کاروں کی طرح ارشد شریف نے اس معاملے کا ذکر ضرور کیا ہو گا لیکن اب تو مسئلہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کا تھا۔ اُسی پر توجہ رکھنی چاہئے تھی۔ بہرحال جنہوں نے بھی یہ بات کی‘ یہ اُن کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ارشد شریف کی ہلاکت کے بارے میں جو بھی کہا گیا اُس کی بنیاد ایک بات ہی بنتی ہے۔ زور دے کر یہ کہا گیا کہ ارشد شریف کی جان کو یہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ پُرمعنی انداز میں مزید کہا گیا کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر گیا تو اُس کے پیچھے اور ہاتھ تھے۔ کہا تو نہیں گیا لیکن مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان ہاتھوں کے کچھ اور عزائم ہو سکتے تھے۔ یہ دلیل سمجھ سے بالاتر ہے۔ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور صحافت بہتوں کو کھٹکتی تھی۔ دبنگ صحافی تھا اور اُس نے ایسی ایسی رپورٹنگ کی کہ اگلوں کے کلیجے اور گردے بھن جاتے ہوں گے۔
اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ اے آر وائی چینل کے سلمان اقبال نے اپنے ادارے سے کہا کہ ارشد شریف کو ملک چھوڑ جانا چاہئے، گویا وہ کسی بڑی سازش میں شریک تھا‘ حالانکہ ارشد شریف کی حفاظت کے لیے یہ پیغام گیا ہو گا کہ اُسے اپنے بچاؤ کی خاطر باہر چلے جانا چاہئے۔ یہ تو ارشد شریف کے ساتھی بھی برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم سب نے بھی سوچا کہ ہمیں ادھر اُدھر ہو جانا چاہئے۔ تو اگر میڈیا ادارے کے مالکان ارشد شریف کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اپنی حفاظت کے لیے تمہیں کچھ کرنا چاہئے تو اس میں کون سی انوکھی بات ہے؟ پھر یہ بھی ہے کہ ارشد شریف صدرِ پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ رہا ہے کہ میری جان خطرے میں ہے مگر یہاں موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ اسے کوئی خطرہ نہ تھا اور اگر ملک چھوڑ کر گیا تو اُس کے پیچھے کچھ مذموم ہاتھ تھے۔ ایسی منطق پر کیا کہا جا سکتا ہے؟
ایک بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ ملک میں پریشانی ہے اور جو باتیں ہر طرف سے کی جا رہی ہیں وہ محسوس بھی ہو رہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو الزامات کا ذکر کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ ایک نامور صحافی کا ایک دور ملک میں قتل ہوتا ہے اور ملک میں بے اختیار شور اُٹھ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر باتیں ہوتی ہیں‘ جیسا کہ قدرتی امر ہے‘ ہونی تھیں۔ الزامات لگائے جاتے ہیں‘ انگلیاں اٹھتی ہیں‘ اشارے کیے جاتے ہیں۔ جب ملک میں اس طرح کے حالات ہوں‘ ایک خاص صورتِ حال بن چکی ہو‘ غیر یقینی صورتِ حال اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہو‘ ہر طرف سے الزامات لگ رہے ہوں اور اس سارے تناظر میں ارشد شریف کی ناگہانی موت کا اتنا بڑا واقعہ ہو جائے تو یہ بالکل فطری بات ہے کہ غصے اور احتجاج کی آوازیں اٹھیں گی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ غیر سیاسی ہونے کا بھاشن دیا جائے جب ساری قوم اصل حقائق کو بخوبی سمجھتی ہو۔ ایسے دعووں کی پھر وقعت کیا؟ شہباز گل کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا‘ اعظم سواتی کو اُس کے گھر میں ننھے پوتوں کے سامنے مارا گیا تو یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟ ایم این اے صالح محمد کی تھانے میں تذلیل ہوتی ہے اُس کی وجہ کیا تھی؟ صحافی جمیل فاروقی کی تھانے میں تذلیل ہوتی ہے‘ یہ سب کون کر رہا ہے؟ ملک میں ماحول ایسا بن جائے تو لوگ بات بھی نہ کریں‘ کوئی انگلی بھی نہ اٹھے‘ یہ کیسے ممکن ہے۔
جو سوچ اس پریس بریفنگ کا موجب بنی اس سے ہمدردی کی جا سکتی ہے کہ ایسی پریشانی پیدا نہیں ہونی چاہئے لیکن جو ملک میں صورتِ حال بن چکی ہے اُس سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے؟ اس تشویش ناک امر کا اعتراف بھی کیا گیا کہ ملک کو بیرونی خطرات کا کوئی سامنا نہیں‘ پرابلم ہے تو اندرونی خلفشار کا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ عدم استحکام کب اور کیوں پیدا ہوا؟ یہ کہنا کہ اپریل میں حکومت کا بدلنا خالصتاً سیاسی اور آئینی امر تھا اور اس میں کسی تیسرے ہاتھ کا کوئی کردارنہ تھا‘ یہ بات کون مانے گا؟ ہم سب اپنے ملک کے سیاسی حالات سے واقف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں امور کیسے چلائے جاتے ہیں اور بڑے فیصلوں میں کس کس کا کتنا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لیے بات وہ کرنی چاہئے جو عوام کے دلوں کو لگے اور جس کے بارے میں عام آدمی کہے کہ یہ بات تو سچ ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت ہٹائی گئی لیکن اُس کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی اسے اکابرینِ ملت سنبھال نہ سکے۔ یہی بات پریشانی کا باعث ہے۔
اور یہ بات کہ ارشد شریف کو کوئی مجبوری نہ تھی ملک چھوڑنے کی۔ اور یہ بات جو کہی گئی کہ ارشد شریف کے طاقتور حلقوں سے اچھے تعلقات تھے۔ ایسی بات کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ارشد شریف بیس بائیس سال سے دفاعی معاملات پر رپورٹنگ کر رہا تھا۔ ہر صحافی کے رابطے ہوتے ہیں۔ ہمارے بھی ہیں لیکن جس انداز سے ارشد شریف کے بارے میں یہ بات کہی گئی اُس کی کیا ضرورت تھی۔ دلیر آدمی تھا جس نے کچھ ایسے پروگرام کیے جو یوٹیوب پر ہمیشہ رہیں گے اور ہمیشہ دیکھے جائیں گے۔ جن کے بارے میں ارشد شریف نے رپورٹ کیا اور پروگرام کیے وہ چلے جائیں گے‘ اُن کی یادیں مٹ جائیں گی‘ ارشد شریف کا نام رہے گا۔ کام و ہ ہوتا ہے جو مشکل حالات میں کیا جائے۔ ہر طرف سے خطرہ ہو‘ آپ کی جان کو بھی خطرہ ہو‘ لیکن پھر بھی آپ بولتے اور لکھتے رہیں۔ یہ کام ارشد شریف نے کیا۔ شہید کس کو کہتے ہیں؟ شہید وہ ہوتا ہے جو راہِ حق میں مارا جائے۔ راہِ حق میں ہی ارشد شریف مارا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved