تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     29-10-2022

غریب الوطنی کی موت

موت برحق ہے‘ موت اٹل ہے اور موت مضبوط ترین قلعوں میں بھی اپنے وقت مقررہ پر داخل ہو جاتی ہے؛ تاہم بعض اموات اتنی المناک اور دردناک ہوتی ہیں جو آپ کو تڑپا جاتی ہیں‘ رلا جاتی ہیں اور پہروں بے قرار رکھتی ہیں۔
ارشد شریف ہمارا صحافی بھائی تھا‘ کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں کبھی کبھار ٹیلی وژن پر اس کا پروگرا م دیکھتا‘ اگرچہ مجھے اس کے تجزیے سے اتفاق نہ تھا مگر میں اس کی شخصیت کے بانکپن اور اس کی جرأتِ اظہار کا دل سے مدّاح تھا۔ مجھے بس اتنا معلوم ہوا کہ اسے کچھ خطرات کی سن گن ہو گئی تھی اس لیے اس نے اوائل اگست میں ملک سے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ سوموار کے روز ٹیلی وژن سکرین پر اس کی ناگہانی موت کی خبر سنی تو دل لہو سے بھر گیا۔ کیا دردناک منظر ہے کہ اس نے گھر کو پناہ کی تلاش کے لیے چھوڑا مگر اسے ''اماں‘‘ ملی بھی تو کہاں ملی۔ گویا موت اسے کینیا کے ویرانے میں گھیر کر لے گئی۔ ارشد شریف کی کہانی بقول شاعر بس اتنی ہے:
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
اور آج واقعی وطن اس غریب الوطن کو ترس رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جاتا ہے کہ ارشد شریف کے ہزاروں نہیں لاکھوں فالورز تھے۔ کئی سیاست دان اور حکمران بھی اس کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ صحافی برادری سے نقطۂ نظر کے اختلاف کے باوجود اس کے خوشگوار مراسم تھے مگر مقام حیرت ہے کہ وہ اتنا اکیلا اور اتنا تنہا کیوں تھا کہ اس نے کسی کے ساتھ اپنے دل کی نچلی تہوں میں بپا ہونے والے رنج و غم کو شیئر نہیں کیا۔ گویا ارشد شریف کا حال بقول گلزار یہ تھا؟
زندگی یوں بسر ہوئی تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اب ارشد شریف کی غریب الوطنی میں انتہائی افسوسناک موت کے بعد اس کے کئی غمخوار اور غمگسار سامنے آ رہے ہیں اور اپنے اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کر کے داد وصول کرنے اور اس سے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں؛ تاہم عمران خان جیسے بڑے سیاست دان‘ سابق وزیراعظم اور بقول ان کے پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے چیئرمین بھی عوامی جلسوں میں علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ یہ حادثہ نہیں ٹارگٹ کلنگ ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ نامعلوم کالز کرنے والے انہیں دھمکاتے رہے‘ ڈراتے رہے؛ تاہم خان صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں ارشد شریف کے قتل کیے جانے کی خبر کہاں سے ملی؟ کہاں اور کس نے اس کلنگ کی منصوبہ بندی کی؟ انہوں نے اپنے سابقہ الزامات کی طرح اپنے اس دعوے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا اور نہ منصوبہ سازوں کی نشاندہی کی۔ عمران خان اگر ارشد شریف کے حقیقی مدّاح اور خیرخواہ تھے تو انہیں اس کے لیے کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی۔
اس وقت کینیا اور پاکستان کا میڈیا ارشد شریف کی شہادت کے بارے میں نہایت اہم سوالات اٹھا رہا ہے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ وہ کون ہے کہ جس نے ارشد شریف کو ملک سے چلے جانے کا مشورہ دیا اور وہ کون ہے کہ جس نے انہیں دبئی سے انگلستان یا جرمنی وغیرہ بھیجنے کے بجائے کینیا میں غیرمعروف لوگوں کے پاس بھیجا۔ باوثوق ذرائع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ارشد شریف کو نیروبی میں وقار احمد اور خرم احمد کے پاس اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال نے بھیجا تھا۔ انہی بھائیوں کے پاس ارشد شریف کی انتہائی مشکوک حالات میں گولیاں لگنے سے ہلاکت واقع ہوئی۔بدھ کی شب ایک پریس کانفرنس میں سابق ایم این اے اور سابق سینیٹر فیصل واوڈا نے صحافیوں کو بتایا کہ ارشد شریف کے قتل میں مقتدرہ کا ہاتھ ہے نہ سیاست دانوں کا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ان منصوبہ سازوں کے نام ہیں جو وہ جلد منظرِعام پر لے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ہی فیصل واڈوا نے کہا کہ وہ لانگ مارچ کے دوران ہر طرف خون ہی خون دیکھ رہے ہیں۔ یہ سنگین الزامات و انکشافات ہیں جن کی تحقیق ہونی چاہیے۔
جمعرات کے روز ارشد شریف مرحوم کی نماز جنازہ سے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک غیرمعمولی پریس کانفرنس کی۔ اس طویل کانفرنس میں روئے سخن عمران خان کی طرف تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران جھوٹ اس آسانی‘ روانی اور فراوانی سے بولا گیا اور اب یہ جھوٹ آخری حدوں کو چھو رہا تھا اس لیے ہمیں چپ کو توڑنا پڑا۔ سائفر کے بارے میں جب آرمی چیف نے سابق وزیراعظم کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات ہے اور دو ہفتے کے بعد خان صاحب نے اس سائفر کو سازشی بیانیے کے طور پر عوامی جلسوں میں لہرانا شروع کر دیا۔ عمران خان راتوں کو آرمی چیف سے چھپ کر ملتے مگر دن کی روشنی میں انہیں غدار کہتے۔ انہوں نے قوم کو یہ بھی بتایا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان کی طرف سے آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت کی توسیع کی پیشکش کی گئی جسے باجوہ صاحب نے ٹھکرا دیا۔ ارشد شریف قتل کے بارے میں بھی عمران خان نے بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ اس پریس کانفرنس میں فوج کے ادارے کی طرف سے یہ تاریخی اعلان کیا گیا ہے کہ فوج اب اپنے آئینی کردار سے سرِمو تجاوز نہیں کرے گی۔
کینیا کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اپنی پولیس کے بارے میں نہایت اہم سوالات اٹھائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی پولیس کی کہانی درست نہیں۔کینیا پولیس بھی بار بار اپنا موقف بدل رہی ہے۔
جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس وقت نہ جانے عمران خان کا لانگ مارچ کہاں پہنچا ہو‘ ایک بار پھر چشمِ فلک منتظر ہے کہ پاکستانی سیاست دان سنجیدگی اوربالغ نظری سے کام لیتے ہیں یا نہیں؟ سیاست دانوں کے غیرسنجیدہ رویے سے پہلے بھی وطن عزیز کو گہرے زخم لگ چکے ہیں۔ آج بھی غریب عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ عالمی ادارے ہمیں مزید قرض دینے پر تیار نہیں۔ ابھی سعودی عرب سے وزیراعظم واپس آئے ہیں۔ خدا جانے وہ اپنے کاسۂ گدائی میں کچھ لائے ہیں یا نہیں۔
اس وقت پاکستان کو دو بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ ایک ہر لمحے ہچکولے کھاتی معیشت اور دوسرا خطرات سے دوچار جمہوریت۔ اگر سیاست دانوں نے سنجیدگی اور سمجھداری کا ثبوت نہ دیا تو اللہ نہ کرے کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی کینیا نیروبی روانہ ہو چکی ہے۔ جوڈیشل کمیشن بھی عنقریب اپنی کارروائی کا آغاز کر دے گا۔ جب تک تحقیقات کے نتائج سامنے نہیں آتے اس وقت تک ہر طرح کے الزامات سے مکمل اجتناب کرنا ہو گا۔ جمعرات کے روز ہزاروں سوگواروں نے ارشد شریف کو الوداع کہا۔ ہم اس ''غریب الوطن‘‘ کی بلندیٔ درجات کے لیے دعاگو ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved