تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-09-2013

نئی حکومت ‘ نئی امیدیں

فیصلہ کن انتخابی نتائج دیکھ کر‘ جو امیدیں اور توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ آج 100 دن سے زیادہ گزر جانے کے بعد‘ بھولی بسری یادوں میں بدل چکی ہیں۔ خیال تھا کہ ن لیگ کو ہوم ورک کے لئے کافی زیادہ وقت مل چکا ہے اور وہ مختلف شعبوں میں اصلاحات کا تفصیلی ایجنڈا تیار کر کے‘ عملدرآمد کی حکمت عملی بنا چکی ہو گی اور اقتدار کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی‘ تیزرفتاری سے فیصلہ کن اور نتیجہ خیز اقدامات کرے گی۔ افسوس! کوئی بھی امیدپوری نہ ہوئی۔ حالانکہ مسلم لیگ کی قیادت کو بہت پہلے سے معلوم ہو چکا تھا کہ اقتدار اس کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر یہ بات اچھی طرح جانتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم پر زور ہی نہیں دیا۔ اسے اپنے ذرائع سے معلوم ہو چکا تھا کہ اقتدار دینے کے لئے کس کے حق میں فیصلہ ہو چکا ہے؟ اس کی ابتدابرطانیہ کے ساتھ رابطوں میں ہو گئی تھی۔ برصغیر کے معاملے میں‘ امریکہ ہمیشہ برطانیہ کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ یہاں طویل مدت تک حکومت کر چکا ہے اور اس پورے خطے کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ برطانوی ماہرین کے تجزیے تھے کہ نوازشریف انتہاپسندوں کے ساتھ معاملات کو نمٹانے میں بہتر ثابت ہوں گے۔ پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے میں بھی ان کی پالیسی دوسروں کی نسبت زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد‘ وہ افغانستان میں بھی موثر کردار ادا کر سکیں گے۔ امریکی پالیسی سازوں کی یہ رائے نہیں تھی۔ لیکن برطانوی ماہرین کے تجزیوں کو فوقیت دیتے ہوئے‘ وہ بھی ان کے ہم خیال ہو گئے۔ ظاہر ہے اس طرح کے فیصلے اخفا میں تو رہ نہیں سکتے۔ یقینا مسلم لیگ کی قیادت کو بہت پہلے پتہ چل گیا تھا کہ اقتدار کی ذمہ داریاں‘ اس کے سپرد ہونے والی ہیں۔ ہوم ورک کے لئے مسلم لیگ (ن) کو کافی وقت دستیاب تھا۔مگر انتخابات کے بعد 100دن سے زیادہ گزر چکے ہیں‘ کسی بھی شعبے میں ‘ کوئی تیارشدہ پالیسی سامنے نہیں آئی۔ حد یہ ہے کہ حکومت سنبھالنے کے فوراً ہی بعد قومی سلامتی کی جس پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا‘ ابھی تک وہ بھی تیار نہیں ہوئی اور کابینہ میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی بنانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اور جس کی سربراہی خود وزیراعظم کے پاس ہے‘ اس کا فالواپ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ورنہ اب تک اس کمیٹی کا سیکرٹریٹ قائم کر کے‘ پالیسی کے بنیادی خدوخال پر کام شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ سب جانتے ہیں کہ قومی سلامتی کے سوال پر ایک ادارے کے قیام کے لئے بہت غوروفکر کیا جا چکا تھا۔ جی ایچ کیو میں اس پر 20برس سے بھی زیادہ کام ہوتا رہا۔ جبکہ مختلف حکومتیں بھی اس سلسلے میں غوروفکر کرتی رہیں۔ دونوں طرف تصورات اور خیالات واضح ہو چکے تھے۔ اس پس منظر میں کمیٹی کا قیام عمل میں آتے ہی پہلے سے تیار شدہ بنیادوں پر کام شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن آج تک کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی اور اب کراچی کے سوال پر ایک نئی بحث چھیڑ کے‘ حکومت نے اپنے آپ کو اس طرح سے الجھا لیا ہے کہ مجھے تو اب کراچی میں کوئی فیصلہ کن کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی لئے میں نے لکھا تھا کہ کراچی میں امن کی بحالی کے خواہش مند مفادات بہت کمزور ہیں۔ جبکہ کراچی میں بدامنی‘ لاقانونیت اور مافیاٹائپ گروہوں کی موجودگی پر انحصار کرنے والے مفادات بہت طاقتور ہیں اور انہیں بیرونی سرپرستی بھی حاصل ہے اور جس طرح سے ’’کراچی آپریشن‘‘ کے سوال پر بحث اور اختلافات شروع ہو چکے ہیں‘ انہیں دیکھ کر کون امید کر سکتا ہے کہ اس شہر میں امن کی بحالی کے لئے کوئی موثر اور نتیجہ خیز مہم چلائی جا سکتی ہے؟ اس طرح کے فیصلے کرنے کے لئے جس یکجہتی‘ تیاری اور عزم صمیم کی ضرورت ہے‘ وہ کہیں نظر نہیں آ رہا۔ کراچی کے سارے سٹیک ہولڈر ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اور منتخب جماعتیں ایک دوسرے کی نیت پر شک کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ کام جن ایجنسیوں کے سپرد کیا جائے گا‘ کیا وہ یکسوئی سے اسے انجام دے سکیں گی؟ اور ڈی جی رینجرز نے سپریم کورٹ میں جو انکشافات کئے ہیں‘ انہیں پڑھنے کے بعد جو حقائق سامنے آئے ‘ وہ ہوش اڑانے کے لئے کافی ہیں۔ ان کے بیان سے شہر کی جو صورتحال سامنے آئی ہے‘ وہ انتہائی پیچیدہ اور تشویشناک ہے اور حکومت کی طرف سے جس قسم کی تیاریاں ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں‘ وہ تو مرض کی نوعیت کے اعتبار سے کسی بھی طرح موزوں نہیں۔ چیلنج بہت ہیں اور بہت بڑے ہیں۔ رسپانس بہت کمزور اور غیرمتعلقہ ہے۔ جو علاج پوری تشخیص کے بغیر کیا جائے ‘ وہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتا۔فیصلہ ساز ادارے جو سوچ رہے ہیں اور جو کچھ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں‘ اس کی روشنی میں عوام زیادہ پرامید نظر نہیں آتے۔ عوام کے اندازوںکا پتہ ان حقائق میں تلاش کیا جا سکتا ہے ‘ جو سب کے سامنے ہیں۔ بڑے بڑے صنعتکار اور کاروباری گھرانے‘ کراچی سے نقل مکانی شروع کر چکے ہیں اور وہ عارضی طور پر نہیں آ رہے کہ حالات بہتر ہونے پر واپس چلے جائیں گے۔ و ہ اپنے کاروبار اور جائیدادیں فروخت کر کے دوسرے شہروں میں مستقل طور پر آباد ہونے کے لئے نکل رہے ہیں۔ بھتہ خوری سے نجات کا راستہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا سب سے بڑا نشانہ ٹرانسپورٹر بنے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ 40فیصد ٹرانسپورٹرز نے اپنے دفاتر بند کر دیئے ہیں اور اپنے ٹرک اور کنٹینر کراچی سے اندرون ملک لے جانے کو تیار نہیں۔ خصوصاً وہ ٹرانسپورٹر تو بالکل ہی مایوس ہو چکے ہیں‘ جن کے مراکز پنجاب میں واقع ہیں اور جو ٹرانسپورٹر کراچی میں رہ گئے ہیں‘ ان کے مالکان بھی اپنے دفتروں میں موجود نہیں ملتے۔ وہ بھتہ خوروں کے خوف سے روپوش ہو چکے ہیں۔ یکسوئی‘ عزم صمیم اور اتفاق رائے کے بغیرشروع کیا گیا کوئی بھی آپریشن نیم دلانہ ہو گا اور نیم دلی سے کئے گئے کام اتنے شدیدبگاڑ کو ٹھیک نہیں کر سکتے‘ جو کراچی میں گزشتہ 30برسوں کے دوران پیدا ہو چکا ہے۔ حکومت اس مسئلے میں الجھ کر‘ اپنی استعداد کار میں مزید کمی کر بیٹھے گی۔ ملک کو جو بڑے بڑے بحران درپیش ہیں‘ وہ توجہ سے محروم رہ کر مزید زور پکڑتے جائیں گے اور ہم ہمیشہ کی طرح صحیح سمت میں چلنے کی بجائے‘ غلط راہیں اختیار کر کے بھٹکتے رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے یہ توقع نہیں تھی۔ عوام امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ نوازشریف اپنے اہداف کا واضح تعین کر کے‘ یکسوئی سے آگے بڑھیں گے۔ مگر ابھی تک اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار نے ’’مرے ہوئے کو مارنے‘‘ کی خوفناک پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ خوشخبریاں وہ سناتے رہے کہ ٹیکس خوروں کی ایک بڑی تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لا کر آمدنی بڑھائی جائے گی۔ مگر ان کے تازیانے انہی لوگوں پر برس رہے ہیں‘ جن کی کمر ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرتے کرتے خمیدہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے عام آدمی کی ضروریات کی کسی شے کو مہنگائی سے بچنے نہیں دیا اور ایسی ایسی چیزوں کے نرخوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ کرتے آ رہے ہیں‘ جن کی مہنگائی سے بازار کی ہر شے متاثر ہوتی ہے۔ جب ڈیزل اور پٹرول کا نرخ بڑھتا ہے‘ تواس کے اثرات ہر شے پر پڑتے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں رہتی‘ جو ڈیزل اور پٹرول کی مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے میں تو بے رحمی کی انتہا کی جا رہی ہے۔ کہا یہ گیا تھا کہ ساڑھے چار سو ارب کا گردشی قرضہ اتار کے لوڈشیڈنگ کم کر دیں گے۔ مگر بقول شخصے اندھیرے وہی کے وہی ہیں لیکن آج کے اندھیرے ساڑھے چار سو ارب روپے میں خریدے ہوئے ہیں۔ ڈار صاحب کا ہوّا‘ عوام کے لئے خوف کی علامت بن گیا ہے۔ لوگ ہر وقت یہی سوچ کر سہمے رہتے ہیں کہ ڈار صاحب کی نظر ضرورت کی کسی چیز پر نہ پڑ جائے۔ ورنہ وہ اسے مزید مہنگا کر دیں گے۔ابھی تک سعودی عرب یا امارات میں سے کسی نے ہمیں تیل کی خریداری میں رعایت نہیں دی۔ امریکہ بھی مہربان ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط میں بھی تاخیر نہ ہو جائے۔ خدانخواستہ ایسا ہو گیا‘ تو ہماری معیشت دگرگوں تو پہلے ہی ہے‘ انحطاط پذیر بھی ہو جائے گی۔ بے یقینی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت سے قائم کئی گئی نئی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved