پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہے گا‘ چاہے
کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہے گا چاہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘ جبکہ ہم قیمت ادا کرنے کا بیان جاری کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ اگر اتنا کچھ قدرت نے عطا کیا ہے تو اس میں سے خرچ بھی کر سکتے ہیں؛ ا گرچہ بھائی صاحب اس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے لیکن اس قسم کے بیانات سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ ہم نے عوام کو بھی کوئی جواب دینا ہوتا ہے اور عوام اگرچہ اب ہماری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھنے لگے ہیں جو بجائے خود ایک فکر مندی کی بات ہے جبکہ دیگر جماعتیں بھی ہماری باتوں کو بخوبی سمجھتی ہیں جس سے ہمارا بھی کام چل رہا ہے اور ان کا بھی۔ آپ اگلے روز یوم سیاہ کشمیر کے موقع پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
پرویز الٰہی پہلے پاکستانی‘ پھر وزیراعلیٰ‘ عوام
کے جان و مال کا خیال رکھیں: چودھری شجاعت
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''پرویز الٰہی پہلے پاکستانی‘ پھر وزیراعلیٰ ہیں‘ عوام کے جان و مال کا خیال رکھیں‘‘ اگرچہ عوام کے جان و مال کا خیال رکھنے کے لیے اکیلے رانا ثناء اللہ ہی کافی ہیں جنہوں نے اُن کے لیے بھرپور انتظام کر رکھا ہے جبکہ اسلام آباد انتظامیہ نے ڈرون آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کا بندوبست بھی کر لیا ہے اور ان کے نشانات ہمیشہ یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ یہ لوگ عمران خان کے لانگ مارچ میں شامل تھے اور انہیں مزید کسی ثبوت یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ ہمیشہ اس پر فخر کرتے رہیں گے اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
میڈیا سے ایک‘ دو دِنوں میں
اہم گفتگو کروں گا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''میڈیا سے ایک دو دنوں میں اہم گفتگو کروں گا‘‘ ویسے تو میری ہر گفتگو ہی نہایت اہم ہوتی ہے؛ تاہم اس اہم گفتگو کو میں بعد میں سیاسی بیان بھی قرار دے سکتا ہوں اور یہ ہمارے دورِ حکومت کے کارناموں کے حوالے سے نہیں ہو گی کیونکہ ان سے ساری دنیا پہلے ہی پوری طرح واقف ہے جبکہ اسے اہم اس لیے کہا ہے کہ کوئی اب ان باتوں کو اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں‘ نیز میں اس میں اپنی واپسی کا اعلان بھی نہیں کروں گا کیونکہ میرے ڈاکٹروں نے ابھی تک اس کی اجازت ہی نہیں دی کیونکہ ان کی اجازت ملک میں ہونے والے کچھ ایسے واقعات سے مشروط ہے جو خاص طور پر ان کے نسخے میں شامل ہیں۔ آپ اگلے روز میڈیا سے مختصر اور غیراہم گفتگو کر رہے تھے۔
الیکشن کے اعلان تک چین
سے نہیں بیٹھیں گے: فیاض چوہان
ترجمان حکومت پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''ہم الیکشن کے اعلان تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘اور اگر بیٹھنا چاہیں بھی تو نہیں بیٹھ سکیں گے کیونکہ وفاقی حکومت نے ہمیں مسلسل بے چین رکھنے کا پورا پورا بندوبست کر لیا ہے اور لانگ مارچ کے شروع ہوتے ہی یہ کام بھی شروع ہو جائے گا جبکہ مارچ کے دوران ویسے بھی رواں دواں ہی رہنا پڑے گا کیونکہ بیٹھ صرف کنٹینر پر ہی سکتے ہیں جس پر چند ہی لوگوں کی بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی گنجائش ہی ہوتی ہے بلکہ کنٹینر پر کھڑے لوگ ہم سے بھی زیادہ بے چین ہوں گے جبکہ رہی سہی کسر لانگ مارچ روکنے والے نکال دیں گے کیونکہ انہیں بھی چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہو گا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت صارفین کو سستی بجلی فراہم
کرنے کے لیے مکمل پُرعزم ہے: خرم دستگیر
وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ''حکومت صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے مکمل پُرعزم ہے‘‘ یعنی اس عزم سے پوری طرح سے بھر چکی ہے اور چھلکنے کے قریب ہے اور چھلک گئی تو یہ سارا عزم باہر نکل کر ضائع بھی ہو سکتا ہے اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عزم کو مناسب حد تک کم کیا جائے جبکہ ویسے بھی حکومت کسی بات کا عزم ہی کر سکتی ہے اور اس کی کامیابی اگر قدرت کو منظور ہو تو حاصل بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ کام بھی دوسرے کاموں کی طرح قدرت ہی کر سکتی ہے ہم عاجز کس قابل کہ قدرت کے کاموں میں رخنہ اندازی کریں لہٰذا عوام کو اس سلسلے میں دعا بھی کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز کہوٹہ کے قریب 500 کے وی کے سوئچنگ سٹیشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل :
وہ رنگ تھا کہ وہیں اُڑ گیا جماتے ہی
ہمیشہ کے لیے چپ ہو گئے ہیں گاتے ہی
کوئی عجیب مسافر تھا وہ کہ میں خود بھی
بھٹک گیا ہوں جسے راستا دکھاتے ہی
اب اس کو توڑنا بھی ہے کسی طرح ممکن
ہمیں یہ لگ گئی ہے فکر گھر بناتے ہی
بہت ہی خوش تھے کہ موسم بدل رہا ہے مگر
خزاں اک اور تھی برپا خزاں کے جاتے ہی
وہ بوجھ ہی تھا کچھ ایسا پڑا ہوا سر پر
اضافہ ہو گیا کیا کیا جسے گراتے ہی
ہمارے ساتھ محبت ہے آسماں کی وہی
ستارے ٹوٹنے لگتے ہیں جھلملاتے ہی
سیاہیاں مرے اندر کی ہیں یہ ہر صورت
جو بڑھ گیا ہے اندھیرا دِیا جلاتے ہی
برائے نام تھے جب تک تو سب کو راس تھے ہم
تڑائے بیٹھے ہیں سر آج سر اٹھاتے ہی
ظفرؔ‘ نہ تھی وہ ملاقات ہی نصیبوں میں
کہ خود بھی ہو گئے غائب کسی کے آتے ہی
آج کا مطلع
ہے کوئی اختیار دنیا پر
نہ ہمیں اعتبار دنیا پر
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved