تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     29-10-2022

میرے جیسا کوئی بنیاد میں کام آتا ہے

دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک چیز نہ تو کوئی بم ہے نہ ہی میزائل، بارودی سرنگ ہے نہ کلاشنکوف بلکہ سب سے مہلک چیز غصہ، نفرت اور حسد ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو ہے اور اپنے ذاتی مقاصد کے لیے قومی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا عمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں ہوش مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر ہر پاکستانی ان نشانیوں کا درست تجزیہ کر سکے تو بہت سے مسائل اپنی موت آپ مر جائیں اور سیاسی عدم استحکام کی فضا خودبخود معدوم ہو جائے۔
جب سے معروف صحافی ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا ہے ملک بھر میں اداسی اور غم کا عالم ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر ہاتھ دعا کے لیے اٹھ رہا ہے۔ کسی بھی ماں کا لعل، بچے کا باپ اور بیوی کا شوہر ایسے دیارِغیر میں بے قصور نہ مارا جائے۔ یہ قتل کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ ارشد شریف نے ملک کیوں چھوڑا اور وہ کینیا کیسے پہنچا؟ کینیا کی پولیس نے بار بار موقف کیوں بدلا؟ اس خونِ ناحق میں اندورنی ہاتھ ملوث تھے یا بیرونی؟ فیصل واوڈا سے ان کی کیا بات ہوئی اور عمران خان اور دیگر نے انہیں باہر بھیجنے میں کیا کردار ادا کیا؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حساس سوالات کے جوابات کون دے سکتا ہے؟ کیا ٹھوس اور مصدقہ معلومات کے بغیر کسی کی رائے کی کوئی اہمیت ہے؟ کیا سوشل میڈیا پر بولی جانے والی بھانت بھانت کی زبانیں اور ٹویٹر پر چلائے جانے والے ٹرینڈز فیصلہ کریں گے کہ مقتول کے ساتھ کیا ہوا؟ اس حادثے کی جامع انکوائری ہونی چاہیے جس کے لیے حکومت نے ٹیم تشکیل دے دی ہے اور جوڈیشل کمیشن بننے کے مراحل میں ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کے بھلے کتنے ہی اعتراضات کیوں نہ ہوں ہمیں مگر انصاف کے لیے اداروں کی طرف ہی دیکھنا چاہیے کیونکہ اس قتل کی تفتیش امریکہ کر سکتا ہے نہ برطانیہ، کوئی اور ملک بھی اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ جب تک اس کیس کی مکمل تحقیقات نہیں ہو جاتیں ہمیں کوئی بھی رائے بنانے سے گریز کرنا ہوگا اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کو ترک کرنا ہو گا ورنہ ملک میں انارکی بڑھے گی۔ لوگوں کا عدلیہ اور دیگر اداروں پر سے اعتماد کمزور ہو جائے گا جو کسی طور بھی ریاستِ پاکستان کے حق میں نہیں۔
عباس تابش کا شعر ملاحظہ کیجیے:
میرے جیسا کوئی بنیاد میں کام آتا ہے
گھر کی تختی پہ کسی اور کا نام آتا ہے
ارشد شریف کی ناگہانی موت سے جہاں پوری قوم کو صدمہ پہنچا ہے وہیں عمران خان نے کچھ دن مزید صبر کرنے کے بجائے لانگ مارچ شروع کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت ملک میں ایک خاص قسم کا ماحول ہے اور لوہے کو گرم دیکھ کر انہوں نے فوری چوٹ لگا دی ہے۔ارشد شریف نے تحریک انصاف کے بیانیے کے لیے اپنی جان دے دی مگر تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی خاطر کیے جانے والے لانگ مارچ کو مؤخر نہیں کیا۔ کیا یہ لانگ مارچ تین سے چار ہفتے بعد نہیں ہو سکتا تھا؟ جہاں انہیں حکومت سے بے دخل ہوئے چھ ماہ سے زائد ہوگئے‘ جہاں اتنا انتظار پہلے ہی کیا جا چکا ہے‘ وہاں مزید چند ہفتے‘ تھوڑا اور انتظار کرنے میں کیا قباحت تھی؟ کیا سیاست میں انسانی جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟ آخر کیوں متاثرہ فیملی کے آنسو خشک ہونے کا بھی انتظارنہیں کیا گیا؟ اصل دکھ یہ ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہو رہی۔ خان صاحب نے ریاستی اداروں اور شخصیات پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک کے معاشی حالات کیا ہیں‘ ملک ان کے اس ایڈونچر کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ 2014ء میں عمران خان کے دھرنے نے ملکی معیشت کو 547 ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا اور 25 مئی کو کیے جانے والے مارچ سے ایک ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ ہمارے سیاست دانوں کوکب احساس ہو گا کہ دھرنے اور لانگ مارچ سے سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور روپے کی بے قدری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ انہیں کب خیال آئے گا عوام کو پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے مدمقابل لانا، آنسو گیس اور لاٹھیوں کے سامنے لا کھڑا کرنا نہ صرف غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی فعل بھی ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ خان صاحب چھ دن پنجاب میں جلسے کرنے کے بعد آخری جلسہ راولپنڈی میں کریں گے اور پھر گھر واپس چلے جائیں گے۔ اسلام آباد جانے کا ابھی ان کو کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اگر وہاں جانے کا فیصلہ ہوا بھی تو وہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے اور عدالت کے متعین کردہ مقام پر جلسہ کریں گے۔ اس بات کا وہ اعلان بھی کر چکے ہیں۔ شنید ہے کہ دھرنا دینے کا فیصلہ عوام کی تعداد دیکھ کر کیا جائے گا۔ اگرخان صاحب نے سکرپٹ سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھایا تو یقینا اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کے قریبی دوست اور سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا ان خطرات کا پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں۔ کیا یہ ملک کسی مزید اندوہناک سانحے کا بوجھ اٹھا سکے گا؟
عمران خان نے جب ملک کی سیاسی فضا کو ایک مخصوص بیانیے میں ڈھالنا شروع کیا اور اداروں سمیت شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی تو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کے ذریعے بھرپور اور مدلل جوابات دیے۔ انہوں نے ہر موضوع پر کھل کر بات کی اور تحریک انصاف کے بنائے گئے بیانیے کو نہ صرف رد کیا بلکہ اس کے دہرے معیار کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ کیا عمران خان بتائیں گے کہ وہ اپنی حکومت بچانے کے لیے لامحدود مدت کے لیے ایکسٹینشن کی آفر کیوں کر رہے تھے؟ کیا ان کے نزدیک ان کا اقتدار ہی سب سے ضروری چیز تھی؟ جب ان کی پیشکش نہیں قبول کی گئی تو بے بنیاد اور جھوٹا بیانیہ کیوں بنایا گیا؟ ان کو غیر سیاسی اور آئینی کردار ادا کرنے والے دفاعی ادارے کیوں نہیں بھاتے؟ سابق وزیراعظم تو چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے کے بھی خلاف تھے‘ اب وہ خود ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ان کی ملاقاتوں کا مقصد اداروں کو غیر آئینی کام پر اکسانا تھا؟ ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا ''ملک میں اتنی روانی سے جھوٹ بولاجائے کہ فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو چپ رہنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ میر جعفر، میر صادق اور نیوٹرل کہہ کر تمسخر اڑانا کسی طور بھی مناسب عمل نہیں۔ پاکستان کو بیرونی عدم تحفظ سے زیادہ اندورنی عدم استحکام سے خطرہ ہے۔ لانگ مارچ سے اختلاف نہیں مگر ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ کیا چیئرمین تحریک انصاف کے پاس اپنے دہرے معیا ر کا کوئی جواب ہے؟ یقینا اس پریس کانفرنس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ کاش! ہم ان سے سبق حاصل کر سکیں۔ کاش! ملک کو خون خرابے اور لڑائی جھگڑوں سے محفوظ کیا جا سکے۔ اداروں کو اپنے سیاسی کردار پر ندامت ہے تو ہمیں اس کی کھل کر تعریف کرنی چاہیے۔ جو ہوا‘ سو ہوا۔ ہم گئے وقت کو واپس نہیں لا سکتے مگر مستقبل میں آئین کی پاسداری کر کے اپنے بچوں کا کل تو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ملک میں جاری غصے، نفرت اور حسد کی جنگ کو روک کر ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کا بازو تو بن ہی سکتے ہیں۔ اگر ہم نے انتشار اور نفرت کی آگ کا مقابلہ پوری ذمہ داری سے نہ کیا تو سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved