وہ چار ستون جن پر عمران خان کی عمارت کھڑی ہے ‘ایک ایک کرکے گر رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی سہارے تھے جن پر مزید سہارے خان صاحب کے ساتھ شامل ہوگئے۔پہلا اور سب سے بڑا ستون ان کی اپنی ذات ہے ۔ اس ذات کے اندر ان کی اصول پسندی ‘دیانت ‘ قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ‘ مخالفوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سبھی شامل ہیں۔ دوسرا ستون عوام میں ان کی غیرمعمولی مقبولیت اور پذیرائی ہے ۔ یہ پذیرائی عوام سے لے کر خواص تک سبھی طبقات میں موجود ہے‘ جن میں دانشور اور سوچنے سمجھنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔اسی کی ایک جہت غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی عمران خان کے لیے بے پناہ حمایت ہے ۔ تیسرا ستون مقتدر حلقوں کی طرف سے ان کی حمایت تھی جو ملکی تاریخ اور عملی منظر نامے کے لحاظ سے بہت بڑی طاقت تھی ۔ چوتھا ستون وہ سیاسی طاقتیں اوراپنے اپنے حلقوں کے طاقتور قومی اور صوبائی سیاسی امیدوار ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر خان صاحب کے ساتھ مل گئے اور کچھ ابھی تک ان کے ساتھ ہیں ۔ قاف لیگ اس کی ایک مثال ہے ۔
یہ ستون ایک ایک کرکے گرتے جارہے ہیں یا ان میں دراڑیں پڑ رہی ہیں ۔ ہم پہلے تین اہم ستونوں کی بات کرتے ہیں ۔ملکی عوام اور غیرملکی پاکستانیوں میں ان کی مقبولیت بدستور موجود ہے اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ ہے ‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے ۔ عمران خان کی بڑی کامیابی یہی تھی کہ ان کے مخالفوں کو کئی کئی بار آزمایا جاچکا تھا۔لوگوںکا ان پر اعتماد اٹھ چکا تھا بلکہ اٹھ چکا ہے ۔ان سب کے لیے ایک عمومی بیزاری موجود ہے جو بسا اوقات نفرت تک جا پہنچتی ہے۔ یہ نفرت کتنی اصل ہے اور کتنی عمران خان کے مسلسل بیانات اور بیانیے کی وجہ سے ‘ یہ ایک الگ موضوع ہے‘ تاہم اس میں شک نہیں کہ زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے والا اقبال کا مصرع عمران خان کے بیانیے سے الگ بھی بہت بڑی حقیقت ہے ۔کوئی شک نہیں کہ اگر ایک مخالف بھی عوام میں اپنی کارکردگی کے لحاظ سے پسندیدہ ہوتا تو عمران خان کو یہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکتی ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دانشور‘ سنجیدہ اور سوچنے سمجھنے والا حلقہ اور نظریاتی لوگ جو عمران خان کی قیادت میں کچھ کر گزرنے کا خواب دیکھتے تھے‘ ایک ایک کرکے خان صاحب سے مایوس ہوتے اور ٹوٹتے رہے ہیں ۔ جسٹس وجیہہ الدین بات سمجھنے کے لیے ایک مثال ہیں ۔ یہ لوگ جو قریب آکر بری طرح مایوس ہوئے ‘خان صاحب کی خود پسندی کے بہت سے واقعات بیان کرتے ہیں ۔ انہی لوگوں کا ایک حلقہ وہ ہے جو کالم نگاروں‘ صحافیوں‘وکیلوں وغیرہ پر مشتمل ہے ‘ان کی خان صاحب سے کبھی قربت نہیں رہی نہ ان کا خان صاحب سے کوئی مفاد وابستہ تھا‘ وہ محض ملک کی بہتری کے لیے ان کی حمایت کرتے رہے اور ان سے توقعات وابستہ کرتے رہے ۔ انہیں خان صاحب کی گزشتہ دس سال کی سیاست نے مایوس اور برہم کیا ہے ۔ ایک طبقہ علما اور دینی نمائندوں کا ہے ‘ عمران خان کی بہت سی خصوصیات اور مدارس کے طلبا کے لیے اچھی سوچ‘ جس کی نظیر کسی اور سیاسی جماعت میں نہیں ملتی ‘ انہیں اپنی طرف کھینچتی رہی ہے ۔ اس کے باوجود کہ جمعیت علمائے اسلام سمیت کئی مذہبی سیاسی طاقتوں کی خان صاحب سے بھرپور مخالفت رہی ‘یہ لوگ توقعات وابستہ کیے رہے۔ لیکن چار سال کے زمانۂ اقتدار نے بالخصوص اور گزشتہ دس سال کے طرزِ عمل نے بالعموم انہیں سخت برگشتہ کردیا ہے ۔ اب وہ عموماً خان صاحب کے دفاع کے لیے نہیں اترتے یا یہ کہہ لیجیے کہ ان کی دلیلیں تھک ہار کر ہتھیار ڈال چکی ہیں۔عام آدمی جو تبدیلی کے انتظار میں تھا اور خواب دیکھتا تھا‘ چار سال بھگت چکا‘ اسے نہ کورونا کے مسائل کا ادراک ہے نہ بین الاقوامی مہنگائی کا نہ آئی ایم ایف کی شرائط کا۔ اسے تو بس یہ پتہ ہے کہ پکانے کا تیل ‘ آٹا اور چینی کتنی مہنگی ہوگئی ہے اور محنت کش کا ایک ایک دن کس طرح اسے کاٹ کر گزرتا ہے ۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی ‘ بلکہ کہنا چاہیے کہ ننانوے فیصد تعداد آج بھی عمران کے ساتھ کھڑی ہے ‘ لیکن وہ بھی آنکھیں ‘ کان ‘ دل اور دماغ رکھتے ہیں ۔ وہ بھی خان صاحب کی کارکردگی پرکھتے ہیں اور ان کے دائیں بائیں کھڑے ان کے ساتھیوں کے چہرے پہچانتے ہیں ‘لہٰذا ان کی حمایت موجود ہونے پر بھی‘ میرے خیال میں وہ گرم جوشی نہیں رکھتی جو آج سے پانچ سال پہلے تک تھی ۔
مقتدر قوتوں کی حمایت کا معاملہ بھی آئی ایس پی آر‘اور ڈی جی آئی ایس آئی کی حالیہ پریس کانفرنس سے دو اور دو چار کی طرح واضح ہوچکا ہے ۔ وہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ یہ تسلیم کرچکے کہ ماضی کی غلطیوں کو اب سے دہرایا نہیں جائے گا۔ویسے تو کرسی کی جنگ میں مقتدر قوتوں کی حمایت ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن عمران خان کے معاملے میں یہ نہیں سمجھا جاسکتاکہ یہ طاقتیں بنیادی طور پر اپنے مفاد کی وجہ سے عمران کی حمایت پر اتری تھیں ۔ ان کی بنیاد ملک و قوم کی بہتری ہی تھی‘ کوئی اور مقصد سامنے نہ تھا۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عام آدمی تک کو یہ علم ہے کہ خان صاحب کسی کے قابومیں آنے والے نہیں ‘تو ایسے مقبول رہنما کو جسے کنٹرول نہ کیا جاسکے ‘اقتدار تک پہنچانے میں کسی ادارے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے ؟یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ میں ایسے فرد کو اپنا ماتحت نہیں بناؤں گاجس کے بارے میں یہ طے ہو کہ وہ میری مرضی پر نہیں چل سکتا ۔یہ سب جانتے بوجھتے خان صاحب کی مدد کیوں کی گئی؟ میں اس کی ایک وضاحت پیش کرتا ہوں ۔
یہ ادارے ہماری ہی دنیا کے لوگ ہیں ‘ ہمارے ہی لوگ ہیں ۔ ان کے بیوی بچے ہمارے بیچ رہتے ہیں ۔ یہ معاشرے سے کٹ کر نہیں رہتے بلکہ معاشرے کا حصہ ہیں ۔ ان کی رشتے داریاں ‘ تعلقات‘ دوستیاں‘ روابط‘بیرون ملک پاکستانیوں سے تعلقات۔سب موجود ہیں ۔ معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہیں اور ان میں بھی ہر پاکستانی طبقے کے بچے شامل ہیں ۔ ایسے میں اگر پورے ملک میں کسی کے لیے پسندیدگی موجود ہے اور ان سے توقعات وابستہ کی جارہی تھیں‘اس شخص کو ایک بار آزمائے جانے کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جو پہلے کبھی آزمایا نہیں گیا تو ان احساسات کا ان اداروں میں سرایت کرنا بھی فطری بات تھی۔دوسری طرف (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے سابقہ تجربات سامنے تھے اس لیے اگرچہ ان پر کنٹرول زیادہ ممکن تھا تاہم فیصلہ عمران خان کے حق میں ہوا اورعمران خان کے قابو میں رہنے کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے بھی ان کی عملی ‘ اخلاقی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved