پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ رواں دواں ہے۔ ابھی تک شرکا کے حوالے سے ملا جلا رجحان ہے ممکن ہے وقت کے ساتھ شرکا کی تعداد میں اضافہ ہو۔ چیئرمین تحریک انصاف نے لانگ مارچ شروع تو کر دیا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے تک خان صاحب کے مطالبات پر کافی نظر ثانی ہو چکی ہوگی۔ مطالبات کے پورا ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہوگا لیکن اس مرتبہ خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت کو گرفتار کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔مبینہ طور پر آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نے حکومت کو چیئر مین تحریک انصاف کو گرفتار نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ پنجاب کی حد تک پی ڈی ایم کے لیے خان صاحب کو گرفتار کرنا ویسے بھی ناممکن ہے لیکن اسلام آباد میں داخلے کے بعد لانگ مارچ کے شرکا اور قائدین وفاقی حکومت کے نرغے میں آ سکتے ہیں۔ سال 2014ء کے دھرنے میں گرفتاری کی افواہیں گردش کرتی رہیں لیکن ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کے باوجود بھی چیئرمین تحریک انصاف کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ لانگ مارچ کا 2014ء اور مئی 2022ء کے لانگ مارچ سے موازنہ کیا جائے تو حقائق اور ممکنہ نتائج تک پہنچنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ پہلے لانگ مارچ میں چیئرمین تحریک انصاف شاید اتنی سیاسی بصیرت نہیں رکھتے تھے جو انہوں نے مئی 2022ء کے لانگ مارچ میں دکھائی۔ مئی میں ان کی طرف سے درست وقت پر لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا جس سے وقتی طور پر تحریک انصاف کے سپورٹرز کو مایوسی ہوئی لیکن ملک مزید انتشار سے بچ گیا جبکہ پہلے لانگ مارچ اور دھرنے کا اختتام اے پی ایس کے دلخراش سانحہ کے ساتھ ہوا تھا۔
اچھا سیاستدان وہی ہوتا ہے جو لچک کا مظاہرہ کرے اور ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دے۔ سیاسی صورتحال اگلے چند روز میں ہی واضح ہو سکے گی‘ فی الحال معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس وقت ملکی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز ملنے کے بعد بھی روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ڈالرسکینڈل میں ملوث بینکوں کے خلاف ایکشن نہ لینا ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موجود ہے کہ کس بینک نے کس وقت میں کس سے کتنے کا ڈالر خریدا اور کتنے کا بیچا۔ قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں بھی تمام حقائق کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بھی اس حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے تھے لیکن اس ضمن میں اب عملی اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے کافی متحرک دکھائی دے رہے تھے لیکن آج کل وہ منظر سے تقریباً غائب ہیں۔ لانگ مارچ کے دوران بھی وہ خاموش ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے کوئی حکمت عملی بنا رکھی ہو لیکن مجھے ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ والے محاورے پر عمل درآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ماحول میں مثبت خبریں دینے کی ذمہ داری شاید گورنر سٹیٹ بینک نے لے رکھی ہے۔ پہلے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز ملنے کی خبر دی اور اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اپنے قرضے بروقت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فی الحال پاکستان کی مالی حالت ڈیفالٹ کی طرف نہیں جا رہی۔ اس طرح کے بیان مارکیٹ میں استحکام لانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عملی طور پر بہتر اقدامات کرنے کے ساتھ مارکیٹ میں پھیلی افواہوں کا دم توڑنا بھی بہتر معاشی پالیسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
لیکن یہ ایک مصنوعی عمل ہے جس میں عارضی طور پر تو ماحول بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اسے زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ صورتحال یہ ہے کہ اسی ہفتے پاکستان میں ڈیفالٹ کرنے کے امکانات پچھلے تیرہ برسوں میں سب سے زیادہ بڑھ گئے تھے۔ ملک کی کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ تین پوائنٹس بڑھ کر تقریباً 53 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ آخری مرتبہ یہ صورتحال نومبر 2009ء میں دیکھی گئی تھی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالرز ملنے کے بعد حالات تھورے بہتر ہوئے ہیں۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک بھی جلد ہی پاکستان کو ریلیف فراہم کرے گا۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سٹیٹ بینک کی جانب سے بھی اقدامات ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ایکویٹی انویسٹمنٹ پروگرام متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت 175 ممالک سے بیرونِ ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں براہِ راست سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ پاکستان تحریک انصاف کا شروع کیا گیا ایک کامیاب پروگرام ہے جس کے تحت اب تک تقریباً چار لاکھ چوراسی ہزار اکاؤنٹس کھل چکے ہیں اور پانچ ارب ستائیس کروڑ ڈالرز پاکستان بھیجے جا چکے ہیں۔ کنوینشنل نیا پاکستان سیونگ سرٹیفیکیٹس میں ایک ارب ستر کروڑ ڈالرز اور اسلامک سرٹیفیکیٹس میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز بھجوائے جا چکے ہیں۔ روشن ایکویٹی انویسٹمنٹ پروگرام پہلے سے موجود تھا لیکن ڈیجیٹل سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اب تک صرف 35 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو سکی ہے۔ نئے نظام کو کافی آسان کر دیا گیا ہے جس سے امید ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں استحکام آ سکے گا اور پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو سکیں گے۔
وقت گزرنے کے ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کا روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ پر اعتماد بڑھا ہے۔ حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ منافع کی شرح کا پرکشش ہونا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ڈالرز اکاؤنٹس پر اتنا منافع نہیں ملتا جو پاکستانی حکومت دے رہی ہے۔ نئی حکومت کا پچھلی حکومت کے اس منصوبے کو ختم نہ کرنا خوش آئند ہے جس طرح روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ پروگرام ایک مستقل پالیسی پر عمل درآمد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے اسی طرح دیگر معاشی پالیسیوں کو لمبے عرصے تک مستقل مزاجی سے چلنے دینے سے بھی معاشی استحکام آ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ حکومت سی پیک منصوبوں پر کام تیز کرنے کے لیے چینی حکومت سے رابطے بڑھا رہی ہے۔ مبینہ طور پر ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالرز کے منصوبوں پر کام تیز کرنے کے لیے پیش رفت ہو رہی ہے۔ جن میں ریلوے اور بجلی کے منصوبے سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالرز کے قرضے ری شیڈول کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چین کے ساتھ تقریباً ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالرز کے منصوبوں سے متعلق فیصلے جے سی سی کے اجلاس میں ہو چکے ہیں لیکن ان پر باضابطہ طور پر دستخط اور اعلان وزیراعظم کے دورۂ چین کے دوران کیے جانے کا امکان ہے۔ یعنی جس وقت تحریک انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد داخل ہو رہا ہوگا اس وقت وزیراعظم صاحب چین سے اچھی خبریں لے کر پاکستان پہنچنے کی کوشش کریں گے جس سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ حکومت معاشی لحاظ سے کامیاب رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں کچھ بھی یقین سے کہا نہیں جا سکتا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کے ذمہ داران حلقے حالات کو مزید نہیں بگڑنے دیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved