تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-10-2022

وسیع البنیاد مکالمے کی ضرورت

شدید عدمِ استحکام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ سیاسی سطح پر پائی جانے والی بے چینی روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ مفادات کا تصادم زور پکڑ رہا ہے۔ قوم دم بہ خود ہے۔ قوم کے پاس اب اور کون سا آپشن رہ گیا ہے؟ بے چاری بات بات پر دم بہ خود ہی رہ جاتی ہے۔ کسی سے پوچھا گیا: جنگل میں اکیلے جارہے ہو اور شیر آجائے تو کیا کرو گے؟ جواب ملا مجھے کیا کرنا ہے‘ جو کرنا ہے شیر کو کرنا ہے! قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جو شیر ہیں وہ اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ جن کے مقدر میں کھایا جانا لکھا ہے وہ بے چارے لقمۂ تر بنے رہنے پر مجبور ہیں۔
جمہوریت کے نام پر قوم اِتنے تماشے دیکھ چکی ہے کہ اب کوئی جمہوریت کے فوائد گِنوانے بیٹھے تو اُبکائی آنے لگتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ جمہوریت میں ہمارے لیے فوائد ہیں یا نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کو صرف دھوکا دیا جاتا رہا ہے۔ عام آدمی آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو ملک کے تمام بنیادی اورکلیدی امور پر متصرف ہیں اُن کی نیت اور مرضی آخر ہے کیا؟ جمہوریت کے نام پر اہلِ سیاست نے آج تک جو تماشے لگائے ہیں اُن کے بارے میں صرف اِتنا کہا جا سکتا ہے ؎
کب تک رگوں میں اپنی اذیت سموئیے
کس کس کو یاد کیجیے، کس کس کو روئیے
کوئی ایک دکھ ہو تو انسان رو دھوکر چپ بھی ہو رہے۔ یہاں تو دکھڑوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے۔ بیرونی حالات تقاضا کرتے نہیں تھک رہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں‘ اصلاحِ احوال کے حوالے سے سوچیں۔ اور ہم ہیں کہ کچھ کرنے کو تو کیا‘ سوچنے کو بھی تیار نہیں۔ ملک کچھ دور چلتا ہے کہ بند گلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ہر معاملے میں انتشار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کیا انتشار واحد آپشن رہ گیا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ حالات کی بہتری کی توقع تو ہر وقت کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔
آج کا پاکستان ایک بار پھر نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ خدا جانے یہ نازک موڑ کب ہماری جان چھوڑے گا؟ اور ہاں‘ دوراہا بھی ہمارے جی کا روگ ہوکر رہ گیا ہے۔ کچھ دور چلتے ہیں کہ دوراہا آجاتا ہے یا پھر نازک موڑ۔ ملک طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ ہر مسئلہ فوری توجہ چاہتا ہے اور یہاں تماشا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اہلِ سیاست اپنا راگ الاپ رہے ہیں اور مقتدرہ اپنی بات کرتی نظر آتی ہے۔ جو کچھ کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ ہو رہا ہے۔ سٹیک ہولڈرز یوں آمنے سامنے آجائیں گے یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ جو مقبولیت کے گراف پر بہت بلند ہونے کا دعوٰی کرتے نہیں تھکتے اُنہیں بھی عوام نے دیکھ لیا ہے۔ اہلِ سیاست ایک زمانے سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ یہ عمل ملک کو گھما پھراکر پھر بند گلی میں چھوڑ جاتا ہے۔ عوام یہ سب کچھ دیکھ کر اُوب چکے ہیں اور اب اُن پر صرف مایوسی اور بیزاری طاری ہے۔ کوئی نہیں جانتا یہ بیزاری کب ختم ہوگی اور ختم ہو بھی سکے گی یا نہیں۔
انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ریاستی ستون بھی عدم اتحاد کاشکار دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض معاملات میں چھوٹا موٹا اندرونی اختلاف چل جاتا ہے مگر ملک غیرمعمولی اختلاف کا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔ مفادات کا تصادم بھی ایک خاص حد تک ہضم کیا جا سکتا ہے۔ جب ریاست ہی داؤ پر لگتی دکھائی دے رہی ہو اور پوری قوم کی ابتری نظر آرہی ہو تب مفادات کا کوئی بھی تصادم پوری طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔
علاقائی اور عالمی حالات الجھتے جارہے ہیں۔ بھارت موقع کی تلاش میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کے پچھتر سال مکمل ہونے پر مقبوضہ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کھل کر کہا ہے کہ ایک دن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ بنالیا جائے گا۔ اس تقریب میں بھارت کے آرمی چیف بھی موجود تھے۔ جس وقت راج ناتھ سنگھ یہ بات کہہ رہے تھے اُس وقت ہمارے ہاں اہلِ سیاست کے مابین ٹاکرا ہو رہا تھا۔ بھارت کی واضح دھمکی اور ہرزہ سرائی کے حوالے سے ہمارا ردِعمل رسمی نوعیت کا بھی نہیں رہا۔ ہم اندرونی کشمکش سے نجات پائیں تو باہر کی طرف دیکھنے کی توفیق نصیب ہو۔
بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ تین چار دن سے پاکستان کی فضاؤں میں آکسیجن کم اور پریس کانفرنسیں اور تقریریں زیادہ ہیں! بات بات پر پریس کانفرنس ہو رہی ہے جن کے نتیجے میں قوم کی پریشانی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ وہ بے چاری تماشا دیکھنے سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتی۔ لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور سٹیک ہولڈرز کو آپس کی لڑائی ہی سے فرصت نہیں۔ یہ سب کچھ پوری قوم کے لیے سوہانِ روح ہے۔ احتجاج کی سیاست کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ عوام بھی اس تماشے کا حصہ بننے میں خوب دلچسپی لے رہے ہیں۔ سیاست کے نام پر شغل میلے کی اب لوگوں کو عادت سی ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عوام کا مزاج ٹیڑھا کردیا گیا ہے۔
کسی بھی منظم اور مہذب سماج میں اہلِ سیاست اپنے ہزار اختلافات کے باوجود کم از کم ایک بات پر تو متفق ہوتے ہیں ... یہ کہ ملک داؤ پر نہ لگے۔ ہمارے ہاں اب اہلِ سیاست سمیت تمام سٹیک ہولڈرز اس اہم ترین نکتے کو بھی نظر انداز کر چکے ہیں۔ اس وقت مفادات کے میدان میں سیاسی اور دیگر ٹیموں کے کھلاڑی جو کھیل کھیل رہے ہیں اُس میں چاہے کوئی بھی جیتے‘ ملک کی تو صرف ہار ہے۔ جب ملک داؤ پر لگتا دکھائی دے رہا ہو تب اہلِ دانش کو آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ جنہیں سوچنے کی توفیق عطا ہوئی ہے اُنہیں میدان میں آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کی طاقت موجود ہے۔ اِس طاقت کو معاشرے کے بگاڑ کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے تو پھر معاملات کی دُرستی کے لیے بھی استعمال کرنے میں کچھ ہرج نہیں اور کوئی روکنے والا بھی تو نہیں۔ ملک کو مفاہمت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ سٹیک ہولڈرز اپنی ساری لڑائی بھول جاتے ہیں جب اُن کے مفادات داؤ پر لگے ہوں۔ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ کسی بھی وقت ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ اتفاقِ رائے ملک اور قوم کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے فضا تیار کرنے میں اہلِ دانش‘ اہلِ قلم‘ اساتذہ‘ کمیونٹی لیڈرز‘ علمائے کرام اور سرکردہ کاروباری اور فن کی دنیا کی معروف و معتبر شخصیات کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں وہ خاموش نہ رہیں‘ محض تماشا نہ دیکھیں بلکہ ملک و قوم کو استحکام کی راہ پر ڈالنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
عوام الجھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف انہیں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے بے وقوف بنایا جاتا ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اتنا زیادہ الجھاؤ پیدا کیا گیا ہے کہ عام آدمی جو کچھ دیکھ اور پڑھ رہا ہے اس کے اثرات قبول کرتے ہوئے مزید الجھ رہا ہے۔ تمام بنیادی معاملات پر ریاست کی گرفت ڈھیلی پڑنے کی صورت میں جو پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ہم انہی سے دوچار ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ وہ سب مل بیٹھیں جو ملک کے تمام معاملات پر متصرف ہیں۔ اگر اُن کا مل بیٹھنا آسان ہوتا تو اب تک ایسا ہو چکا ہوتا۔ انہیں ایک میز پر لاکر وسیع البنیاد مکالمے‘ تصفیے اور ہم آہنگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے انہیں میدان میں آنا ہے جو کسی نہ کسی حیثیت میں شعور بھی رکھتے ہیں اور ملک و قوم کی نظر میں محترم بھی ہیں۔
اب اِس بات کی گنجائش برائے نام بھی نہیں کہ محض تماشا دیکھتے ہوئے معاملات کے خود بہ خود درست ہونے کا انتظار کیا جائے۔ وفاق کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ صوبے اپنی مرضی کے کھیل میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ریاستی اداروں پر دباؤ کا مرتب ہونا لازم ہے۔ جب یہ دباؤ نمایاں حد تک بڑھ جائے تب محض تماشائی بنے رہنے سے بڑا جرم کوئی نہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے غیر معمولی تحرک کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved