تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-09-2013

ناکامی کا کیا سوال؟

کوئی خاص گروہ نہیں ، ہدف اگر مجرم ہوں اور اصول اگر انصاف تو ناکامی کا کیا سوال؟ پورا معاشرہ پشت پہ آکھڑا ہوتاہے۔ ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی لگن رگوںمیں بجلیاں بھر دیتی ہے۔ کارِ خیر میں انسانی صلاحیت بے کنار ہو جاتی ہے اور آسمان سے اس پر رحمتوں کا نزول ہوتاہے ۔ سلجھنے کی بجائے چیزیں اُلجھتی جا رہی ہیں ۔ چوہدری نثار کا منصوبہ اچھا ہے مگر اس پر عمل کیسے ہو ؟ وزیراعلیٰ سندھ سے انہوںنے کہا کہ وہ کپتان بنیں ۔ ایسا لگتاہے کہ منصوبہ بندی کیے بغیر ہی سندھ حکومت نے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ امن وامان اسی کی ذمہ داری ہے اور یہ صرف پولیس ہے جو مسئلے سے نمٹ سکتی ہے ۔ جیسا کہ وزیرِ داخلہ نے واضح کیا، خفیہ ایجنسیاں اور رینجرز اس کی مدد کر سکتے ہیں ۔ ادھرپولیس کی حالت یہ ہے کہ آئی جی خود کو بے بس پاتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ تقرر اور تبادلوںمیں ان سے مشورہ تک نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندے پولیس میں ٹھونس دئیے ہیں ۔ ہزاروںہیں ، جو حکمران پارٹیوں کے ایما پر بھرتی کیے گئے ۔ ان کی وفاداری کس سے ہوگی؟ سیاسی قیادت ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ؛چنانچہ پولیس پست ہمّت ہو چکی۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ ڈیڑھ عشرے میں ان کے دو سو ساتھی قتل کیے جا چکے ۔ کسی نے ان کے پسماندگان تک کی پروا نہ کی ؛حتیٰ کہ قتل کے بعض مقدمات ہی درج نہ ہوئے۔ معاملے کو اب موخر نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کی تمام تر کارروائی کا حاصل بھی یہی ہے ، جو بے حد مضطرب نظر آتی ہے ۔ عدالت مگر نشان دہی اور احساس اجاگر کرنے کے سوا کیا کر سکتی ہے ۔ کسی حال میں کوئی عدالت حکومت کا بدل نہیں ہو سکتی۔ کیا یہ موزوں نہ ہوگاکہ وزیراعظم ذاتی طور پرصدر زرداری سے بات کریں ۔ اصولی بنیادیں طے پا جائیں تو چوہدری نثار وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کراچی پولیس کا سربراہ ایک ذمہ دار اور اہل آدمی ہو اور اختیارات اسے سونپ دئیے جائیں ۔ جسے جوابدہی کرنی ہو، اسے اختیار بھی دیا جاتاہے ۔ ہمیشہ سے مسلّمہ اصول یہ ہے کہ ٹیم کا ایک ہی کپتان ہوتاہے ۔ جیسا کہ عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا : اونٹ کی ناک میں دونکیلیں نہیں پہنائی جاتیں ۔ تجربہ کیا جا سکتاہے کہ کچھ علاقے رینجرز کو سونپے جائیں اور زیادہ تر پولیس کو۔ اس طرح صحت مند مقابلے کی ایک فضا تشکیل دی جا سکتی ہے۔ قیادت مگر ایک ہی ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ آغازِ کار کے لیے پولیس کا حوصلہ بلند کرنا ضروری ہے ۔ مرنے والے پولیس افسروں کے پسماندگان کی امداد کا اعلان کیا جائے۔ مقدمات درج کیے جائیں اور قاتلوں کی تلاش کا عمل شروع کر دیا جائے ۔ ظاہرہے کہ صوبائی حکومت کی اعانت کے بغیر یہ ممکن نہیں ۔ بنیادی مسئلہ سیاسی جماعتوں کے مسلّح لشکر ہیں لیکن جب قانون بے بس ہو جائے اور مجرم خوف سے آزاد ہوں تو ہر قماش کے جرائم پیشہ بے باک ہو جاتے ہیں ۔ قبضہ گروپ، منشیات کے سوداگر اور دوسرے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نیوی کی انٹیلی جنس کے کڑے نظم میں رہنے والے افسر اغوا برائے تاوان میں ملوّث ہونے لگے ۔ ایک اہم پہلو بڑی سہولت سے نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے بیرونِ ملک بھی ہیں ۔ ان میں سے بعض تھائی لینڈ جاتے اور وہاں سے ویزے کے بغیر بھارت جا پہنچتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ ہی نہیں ، موزمبیق سمیت کئی افریقی ممالک میں وہ موجود ہیں ۔ اس کے دور دراز کے شہروں تک ، جن کے نام معلوم ہیں۔ دبئی اور بنکاک میں بھی ۔ وہ کراچی آتے اور لوٹ جاتے ہیں، بعض اوقات کارروائی کرنے کے فوراً بعد۔ خفیہ ایجنسیاں ایسی بھی ناکردہ کار نہیں کہ ان کا سراغ نہ لگا سکیں۔ ان کی فہرستیں مرتب نہ کر سکیں ۔ شرط یہ ہے کہ ایک بار عزمِ صمیم کر لیا جائے ۔ شرط یہ ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں ہم آہنگی ہو اور وہ ایک طویل المیعاد منصوبے کو بروئے کار لائیں ، زنجیر کی طرح ، جس کی ایک کڑی دوسری کڑی سے پیوست ہو ۔ کراچی کے ہوائی اڈے اور سمندری راستوں کی کڑی نگرانی درکار ہے ، گاہے جہاں سے دہشت گرد راتوں کی تاریکی میں ساحلوں پر اترتے ہیں۔ 1995ء میں ساری ذمہ داری ڈی آئی جی کو سونپ دی گئی تھی اور وہ وزیرِ داخلہ کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے۔ جب کبھی وہ کراچی میں ہوتے اور اکثر ہوتے تو ہر شام مشاورت کی مجلس برپا ہوتی ۔ آئی جی سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ صوبے کے باقی ماندہ علاقوں کا نظم ونسق چلائیں ۔اب کتنے ہی ڈی آئی جی موجود ہیں ۔ افسروں کی تعداد بڑھتی اور کارکردگی کم ہوتی گئی ۔ اب یہ ذمہ داری ایڈیشنل آئی جی کو سونپی جا سکتی ہے ، جس کا انتخاب پوری احتیاط سے کیا جائے۔ ملائیشیا کے تیرہ صوبے ہیں ۔ 1963ء میں جب وہ ایک سنگین بحران سے دوچار تھا۔ سنگاپور کو الگ کرنے اور آئین کی تشکیل کے ہنگام صوبوں کے مذاکرات ہوئے تو پورے ملک کے لیے آئی جی کی سطح کا ایک افسر مقرر ہوا۔ بموں کے دھماکے ہوا کرتے اور قتل و خون کا کھیل جاری تھالیکن بالاخر اس پر قابو پا لیا گیا۔ آج ملائیشیا ترقی اور نمو کی ایک درخشاں مثال ہے ۔ مہاتیر محمد نے بار بار کہا کہ پاکستان بھی بن سکتاہے ۔ پولیس کی تطہیر کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ 1995ء میں پولیس کے 25000جوانوں میں سے 5000برطرف کیے گئے ۔ یک طرفہ نہیں بلکہ باضابطہ قانونی کارروائی کے ساتھ ۔ سندھ کے آئی جی نے حال ہی میں کہا کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ آدھی پولیس کو فارغ کر دیں۔ ممکن ہے کہ پندرہ بیس فیصد برطرفیوں کے بعد صورتِ حال گرفت میں آجائے ۔ خرابی اسی وقت پنپتی ہے ، جب احتساب کا کوئی نظام موجود نہ ہو ۔ مہاجر لبریشن آرمی پر ژولیدہ فکری کا شاندار مظاہرہ ہوا۔ وزیرِ داخلہ کہتے ہیں کہ رپورٹ درست ہے مگر سپریم کورٹ میں پیش نہ کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو سامنے کی بات ہے ، اس سے بھی زیادہ یہ کہ لیاری میں آپریشن شروع نہ کرنے کا مشورہ حکومتی مسئلہ تھا۔ عدالت میں اس کا ذکر کیوں ہوا؟ کیا اس سے قانون شکن عناصر کے حوصلے بلند نہ ہوں گے ؟ کہاجاتاہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان دن رات محنت کر رہے ہیں ۔ خفیہ ایجنسیاں اب پہلے سے زیادہ متحرک ہیں اور رینجرز کا سربراہ ایک قابلِ اعتماد افسر ہے ۔ رہا نیٹو کنٹینرز کا مسئلہ تو یہ الجھا دینے والا ہے اور اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ غالباً سب میں نیٹو کا سازوسامان نہ تھا ۔ ثانیاً یہ سب کنٹینرز اسلحے کے نہ تھے ۔ پھر یہ تمام کراچی میں نہ کھولے گئے بلکہ بلوچستان اور پختون خواہ کی سرحد کے قریب پہنچ کر بھی۔ کون اس کا ذمہ دار تھا؟ ایم کیوایم سے تعلق رکھنے و الے جہاز رانی کے وزیر یا متعلقہ سرکاری افسر؟ غالباً دونوں ۔ یہ طے کرنا باقی ہے اور تفتیش ہی سے طے کیاجا سکتاہے کہ کون مجرمانہ طور پر ملوّث تھا اور کون غفلت کا مرتکب ۔ الزامات اور جوابی الزامات سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سرکاری اہلکاروں اورسیاستدانوں کو چیخنے کی بجائے ذمہ داری سے اظہارِ خیال کرنا چاہیے وگرنہ الجھائو میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے ۔ مایوسی پھیلتی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ مایوسی ، پیغامِ مرگ! اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی ہو نہیں سکتی کہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کا مستقبل لا یعنی مباحث کی نذر کر دیا جائے ۔ ملکوں اور قوموں نے اس سے زیادہ سنگین مسائل کا سامنا کیا اور ان کا حل تلاش کیا ہے ۔ کیا بیروت کی خانہ جنگی پر قابو نہ پا لیا گیا تھا ،جہاں متحارب لشکروں نے شہر کو بانٹ لیا تھا؟ کیا سری لنکا میں خانہ جنگی بالآخر چند ماہ میں تمام نہ ہو گئی؟ کوئی خاص گروہ نہیں ، ہدف اگر مجرم ہوں اور اصول اگر انصاف تو ناکامی کا کیا سوال؟ پورا معاشرہ پشت پہ آکھڑا ہوتاہے ۔ ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی لگن رگوںمیں بجلیاں بھر دیتی ہے ۔ کارِ خیر میں انسانی صلاحیت بے کنار ہو جاتی ہے اور آسمان سے اس پر رحمتوں کا نزول ہوتاہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved