تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     31-10-2022

ایک قدیم جنگجو کی موت … (4)

ارشد شریف کو مجھ پر شدید غصہ تھا۔اس کا خیال تھا کہ میں نے شہر میں سانپ چھوڑ رکھے ہیں‘ جو میرے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اکثر کہتا تھا‘ کوئی بھی سرائیکی علاقے سے آکر تمہارے ساتھ سرائیکی میں گفتگو کرے‘اپنی غربت یا پسماندگی کا رونا روئے تو تم اسے سر پر بٹھا لیتے ہو۔ہر قسمی مدد کرتے ہو‘اس کی گرومنگ کرتے ہو‘ اسے سیٹل ہونے میں مدد دیتے ہو۔جب وہ سیٹل ہوجاتا ہے تو وہ سب سے پہلے تمہیں ڈنک مارتا ہے اور پھر تمہارے دوستوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کے پاس کم از کم تین ایسے نام تھے جنہوں نے میرے ساتھ یہی کچھ کیا تھا جس کی بات ارشد شریف کررہا تھا۔میں ہنس کر ٹال جاتا تھا کہ چلیں! اللہ انہیں خوش رکھے کہ میرے علاقے کے لڑکے سیٹل ہو کر میری اچھائیوں کا بدلہ اس طرح دیتے تھے۔
جس صحافی کی ارشد شریف نے گوادر میں پٹائی کی تھی اس نے ارشد کی بیوی پر نازیبا حملے کیے تھے۔حالانکہ اسے علم تھا کہ ارشد سے میرا فیملی تعلق تھا لیکن اس نے کوئی لحاظ کیے بغیر ایسی باتیں کیں جنہیں پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا تھا کہ واقعی کبھی اس بندے کی مدد کی تھی اور اسے گروم کرنے میں کچھ رول ادا کیا تھا۔ ارشد شریف کا مجھ سے گلہ جائز تھا۔ ارشد شریف اور راجہ عدیل مجھے ہر دفعہ اس کی وجہ سے ذلیل کرتے اور میں چپ چاپ سنتا رہتا کیونکہ مجھے علم تھا کہ اس نے غیر اخلاقی گفتگو کی تھی۔ اس صحافی نے میرے پروڈیوسر رانا اشرف کو بھی نہیں بخشا تھا جس نے اس کی شروع کے دنوں میں بڑی مدد کی تھی۔مجھے خود بڑا افسوس تھا۔ میرا اپنا اعتماد بری طرح ٹوٹا کہ میرے علاقے سے جو بھی نوجوان آرہا تھا وہ یہی کچھ کر رہا تھا جس کی وجہ سے ارشد مجھ سے شدید ناراض تھا۔وہ مجھے ایک ہی بات کہتا تھا کہ تم اب سانپ پالنا اور انہیں دودھ پلانا بند کرو‘ کافی چیرٹی کر لی اورمیں ہر دفعہ ارشد شریف کی یہ گفتگو سن کر شرمندہ ہو کر چپ بیٹھ جاتا جس کے گواہ علی عثمان‘ عدیل راجہ‘ خاور گھمن‘ ضمیر حیدر اور شاہد بھائی ہیں۔
جب بھی بات ہوتی اس صحافی کو سبق سکھایا جائے گا جس نے عدیل راجہ اور ارشد کی فیملی پر نازیبا باتیں کی تھیں تو میں ہمیشہ کہتا یہ کیا بیوقوفی ہے‘ خود کو دیکھو اور اسے دیکھو‘ کیا تمہارا یہی لیول ہے؟ ایک دفعہ راجہ عدیل نے کہا :وہ سبق سکھائے گا تو میرے سامنے ارشد شریف نے بڑی سختی سے کہا نہیں اسے کچھ نہیں کہنا۔ مجھے لگا ارشد شریف پر میری باتوں کا اثر ہورہا تھا۔ وہ ہمارے علاقے کے اس صحافی کا غصہ مجھ پر باتوں باتوں میں نکال لیتا تھا‘ لہٰذا اس کا کتھارسس ہوجاتا تھا۔ میں ان دوستوں کے لیے اب پنچنگ بیگ بن چکا تھا کہ جب بھی ان کا میری کلاس لینے کا دل کرتا تو سب دوست اس صحافی کا ذکر کرتے۔ میری ان دوستوں کے ہاتھوں یہ لعن طعن اب تقریباً روز کا معمول تھا لیکن مجھے تسلی تھی کہ چلیں باتوں میں غصہ مجھ پر نکال لیتے ہیں لیکن کم از کم اس ہمارے علاقے کے اس نئے نئے 'انقلابی‘ کو کچھ نہیں کہیں گے۔مجھے ہنسی آتی وہ 'انقلابی‘ پہلی دفعہ اسلام آباد آیا تھا تو وہ کن حالات میں تھا اور اب لگتا تھا کہ پورے ملک کا وہی اکیلا مالک ہے۔مجھے تسلی تھی کہ کم از کم یہ اسے کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ان کی کونسلنگ کرتا رہتا تھا کہ چلیں اور کچھ نہیں ارشد شریف اور عدیل راجہ کا ego massage کرتا رہتا تھا جن کے ساتھ میرے علاقے کے اس 'انقلابی‘ نے بدزبانی کر کے بہت زیادتی کی تھی۔اگر اسے ارشد شریف اور عدیل راجہ سے کوئی شکایت تھی تو بھی ارشد کے گھر والوں پر جس طرح نازیبا حملے کیے تھے وہ بہت تکلیف دہ تھے۔ میں تو شرمندگی کے مارے ارشد شریف کے گھر والوں کا سامنا نہیں کرپارہا تھا۔اب گوادر سے واپسی پر میں خاموشی سے ارشد شریف کو دیکھتا رہا۔سب دوست کہہ رہے تھے کہ ارشد شریف نے جو کیا ٹھیک کیا کہ کوئی آپ کے گھر کی عزت پر حملہ آور ہو تو اسے معافی نہیں۔میں نے کہا: ارشد ہوسکتا ہے میں بھی تمہارے یہاں بیٹھے دوسرے دوستوں کی طرح کہوں واہ واہ‘ بالکل ٹھیک کیا‘ شاندار‘ زبردست! تم کیوں سمجھ بیٹھے کہ میں تمہاری مذمت کروں گا کہ تم نے غلط کیا ہے۔ارشد شریف بولا: میں تمہیں چوبیس برسوں سے جانتا ہوں‘ تم میرے اس ایکٹ کو با لکل اچھا نہیں سمجھتے۔میں نے کہا: جب تمہیں پتا ہے کہ میں تمہارے اس اقدام کو ایک بیوقوفی سمجھتا ہوں تو میرے منہ سے کیوں سننا چاہتے ہو کہ تم نے یہ کر کے غلط کیا‘ تاکہ جب میں یہ کہوں تو تم ایک لمبی تقریر کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکو اور تسلی دو کہ تم نے ٹھیک کیا ہے؟میں نے کہا: دیکھو تم نے خود کو دیکھا نہ یہ سوچا کہ تمہارا اس وقت کیا سٹیٹس ہے۔تمہارے بچے سکول‘ کالج میں پڑھتے ہیں۔ بچے باپ کو پہلا ہیرو سمجھتے ہیں۔اگر اب ان ٹین ایج بچوں کا باپ یوں سرعام لوگوں کو مارتا ہے تو ان پر کیا اثر ہوگا؟ فیم کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔راستے میں بھونکتے ہر کتے کو پتھر نہیں مارا جاتا۔ روز ٹویٹر پر میرے خلاف کیا کچھ نہیں لکھا جاتا۔بہت سے صحافی بھی مجھ پر ذاتی حملے کرتے ہیں۔ میں نے کتنے لوگوں سے فزیکل لڑائی کی؟ اگنور کیا۔
میں نے کہا :مجھے غصہ ہے تم نے یہ نہیں دیکھا کہ کتنا بڑا ایونٹ گوادر میں ہورہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان آ رہے تھے۔ پورا میڈیا وہاں پہنچا ہوا تھا۔تم نے یہ حرکت کر کے سارا ایونٹ خراب کیا اور اب ٹویٹر پر تمہارے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہے۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے جو تم نے کی ہے۔ یہ تمہاری عمر ہے اس طرح لڑائیاں کرنے کی؟ارشد شریف نے ہار نہ مانی اور دوبارہ میری کلاس لے لی۔کچھ دن گزرے‘ ہم دوست ایک رات اکٹھے تھے تو مجھے مسکرا کر کہتا ہے‘ ایک بات کہوں؟میرے قریبی دوستوں میں صرف دو لوگوں نے کہا کہ میں نے اس کی پٹائی کر کے غلط کیا‘ تم اور میری بیوی سمیہ مجھ سے لڑی ہے کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے۔ ارشد بولا: عجیب اتفاق ہے کہ تم دونوں Leo ہو۔ گھر جائوں تو وہ مجھے سمجھاتی ہے جیسے تم سمجھاتے ہو۔ ایک تو Leos نے میری زندگی عذاب کررکھی ہے۔ایک وقفہ دے کر بولا: مجھے اب تمہاری اور سمیہ کی باتیں سن کر احساس ہوا ہے کہ میں نے غلط کیا تھا‘مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا: تمہیں پتا ہے تمہارے بعد سب سے زیادہ گالیاں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر میں نے کھائی ہیں۔ سب کو علم ہے ہم کتنے قریبی دوست ہیں۔ وہ سب چاہتے تھے کہ میں تمہارے خلاف وی لاگ کروں‘ ٹوئٹس کروں لیکن میرا خیال تھا تم جیسے دوست کو اکیلے میں سمجھانا چاہئے کہ تم نے غلط کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ میرے وی لاگز کا بائیکاٹ ہوا۔ میرے وی لاگ کے ویوز بری طرح گر گئے۔میں نے ہنس کر کہا: آج پندرہ دن بعد آپ فرما رہے ہیں کہ غلطی کی تھی جب میرا بیڑہ غرق ہوچکا‘ لیکن کیا کریں ہم دیہاتی لوگ ہیں دوستی نبھا رہے ہیں۔ اس صحافی نے اپنے دوستوں سے کہہ کر میرے خلاف وی لاگز اور ٹوئٹس کرائے۔مہم چلوائی۔ میں خاموش رہا۔ اچانک ایک دن میری حیرانی نہ رہی جب ارشد شریف کا کسی وی لاگر کے ساتھ کلپ دیکھا جس میں وہ اسی صحافی کو دنیا کا بہادر اور خاندانی بنا کر پیش کررہے تھے جس کی گوادر میں پٹائی کی تھی‘ وہی جس کے لیے مجھے ایک سال تک برا بھلا کہتا رہا تھا۔ وہ اچانک بہادر ہوگیا تھا اور میں ارشد کی رینکنگ میں بہت نیچے چلا گیا تھا۔
میں نے ارشد شریف کو واٹس ایپ پر ایک طویل میسج کیا۔ارشد نے وہ میسج پڑھا اور اس نے جواب ٹائپ کرنا شروع کیا۔اس کے جواب کا میں بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved