تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     31-10-2022

اونٹ رے اونٹ

پاکستان ایک دلچسپ ملک ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں‘ لہٰذا خارجی جارحیت سے بڑی حد تک محفوظ ہو چکے ہیں مگر ملک کے اندر سیاسی رسہ کشی تواتر سے جاری ہے۔ ہماری پوری تاریخ میں صرف ایک غیر متنازع الیکشن ہوا جس کے نتائج ہم نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اب ہم اپنا ہی ملک فتح کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اسلام آباد حملوں کی زد میں رہتا ہے۔ کنٹینر دنیا بھر میں نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں سیاسی خطاب‘ لانگ مارچ اور سیاسی'' دشمن‘‘ کی یلغار روکنے کے لیے کنٹینر کی افادیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسلام آباد میں اہم سڑکوں پر آج کنٹینروں کی بہتات ہے۔ ہم دنیا کے لیے تماشا بنتے جا رہے ہیں۔
ہماری سیاسی جنگیں زور پر ہیں اور معیشت زوال کے سفر میں ہے۔ مبینہ طور پرایک اہم سیاسی پارٹی کی ہدایات لندن سے مل رہی ہیں۔ سب سے مقبول سیاسی جماعت اپنے مسیحا صفت لیڈر کے سحر میں گرفتار ہے۔ ایک زمانے میں حبیب جالب جیسا دبنگ شاعر حکومتِ وقت کے خلاف بہت کچھ کہتا تھا اور زیادہ سے زیادہ گرفتار کر لیا جاتا تھا مگر سیاسی قیدیوں کو برہنہ کر کے ان کی جسمانی توہین ایک نیا اور قبیح حربہ ہے جو وطنِ عزیز میں دریافت ہوا ہے۔ ہمارا معکوس اخلاقی اور سیاسی ترقی کا سفر جاری ہے۔یوں تو بے شمار مسائل پر بات ہو سکتی ہے‘زوال کی درجنوں وجوہات ڈھونڈی جا سکتی ہیں‘ کچھ علاج بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں لیکن کالم کی تنگی ٔداماں کی وجہ سے آج دو تین بنیادی مسائل پر بات ہو گی جو کئی اور مسائل پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں ایک اہم وجہ ہماری ریاکاری اور مذہب کا سیاسی استعمال ہے۔ ہمارا دوسرا اہم پرابلم ناقص نظامِ تعلیم ہے جو آزاد سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے‘ لہٰذا دولے شاہ کے بے شمار چوہے پیدا کر رہا ہے۔ ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ آبادی کا بے تحاشا پھیلائو ہے جو ہماری مادی ترقی کے ثمرات کو ہڑپ کر جاتا ہے۔
مذہب ایک مثبت ضابطۂ حیات پیش کرتا ہے‘ اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے‘ بھائی چارے کی ترویج کرتا ہے‘ جسمانی اور ذہنی طہارت کو فروغ دیتا ہے‘ اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے لیکن مذہب ہمارے ہاں سیاسی مصلحتوں اور ذاتی فوائد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لیے مذہب کی غلط تشریح کی گئی۔ ہمارے ہاں مذہبی تفریق کی بنا پر سزا پانے والوں کی متعدد مثالیں ہیں۔ مذہب دلوں کو جوڑنے آیا تھا مگرہماری کم عقلی کی وجہ سے ہمارے ہاں تقسیم کا سبب بھی بنا۔ اس کی ایک واضح مثال ضیا الحق کے عہد میں زکوٰۃ کا جبری نفاذ تھا۔اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے 1949ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے پارلیمنٹ سے قراردادِ مقاصد پاس کرائی۔ وہ چونکہ اپنا حلقۂ نیابت انڈیا میں چھوڑ آئے تھے‘لہٰذا مذہبی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ حاصل کرنا چاہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی کابینہ میں شامل اکلوتے ہندو وزیر‘ جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا انڈیا چلے گئے۔
قراردادِ مقاصد کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی رقمطراز ہیں کہ نہ اس سے پہلے مینہ برسا اور نہ بعد میں روئیدگی ہوئی۔ سیاسی اغراض کے لیے دین کا استعمال مگر جاری رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر ذہن کے لیڈر نے جمعۃ المبارک کے دن کو سرکاری تعطیل کرنے کا اعلان کیا ان کے بعد ضیا الحق اسلام کے نفاذ کا دعویٰ کرتے ہوئے گیارہ سال حکومت کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی اور یہ روایت آج تک جاری ہے‘ ہمارے ایک نہایت ہی مقبول لیڈر جنہیں میں تین مرتبہ ووٹ دے چکا ہوں ہمہ وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ ہم اوپر اوپر سے بڑے مسلمان ہیں لیکن ہمارا اخلاقی زوال بھی عیاں ہے۔ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہے اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ ہمارے ہاں تین طرح کے مدارس ہیں: سرکاری سکول ہیں جو عمومی طور پر اردو میڈیم ہیں‘ پھر پرائیویٹ سکول ہیں جو اکثر انگلش میڈیم ہیں اور دینی مدارس ہیں جہاں ماڈرن مضامین یعنی سائنس اور ریاضی کا فقدان ہے۔ اس طرح ہم تین طرح کے شہری پیدا کر رہے ہیں۔ مستزاد یہ ہے کہ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
ہمارے ہاں تعلیم کے شعبہ میں بھی پلاننگ کی کمی ہے۔ ہزاروں پی ایچ ڈی بے روزگار ہیں۔ہمیں جنرل تعلیم کے بجائے ٹیکنیکل تعلیم پرروز دینا چاہیے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ تعلیم کے فوراً بعد سٹوڈنٹ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔ آج کل ایک الیکٹریشن یا پلمبر عام ایف اے بی اے سے زیادہ کماتا ہے۔ سرکاری ملازمت کا حصول ہر سٹوڈنٹ کا ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے تعلیمی سلیبس میں مذہبی عنصر غالب ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس کے باوجود ہماری اخلاقیات اتنی پست کیوں ہیں۔ میانمار (برما) کی پوسٹنگ کے دوران میرے بچے امریکن سکول جاتے تھے‘ وہاں کوئی سالانہ امتحان نہیں ہوتا تھا روز کے روز سٹوڈنٹ کی کلاس پرفارمنس دیکھی جاتی تھی‘ مگر ہمارا تعلیمی نظام یادداشت کا امتحان ہے۔ یہاں اہم چیز رٹا لگانا ہے۔
آبادی کا بے ہنگم پھیلائو ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے ہم تمام تر کوششوں کے باوجود غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ 1947ء میں ہماری کل آبادی سوا تین کروڑ تھی‘ آج ہم ساڑے بائیس کروڑ ہیں۔ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ 2050ء میں ہماری آبادی 38 کروڑ ہو گی۔
ہم نے مالتھس(Thomas Malthus)کی پاپولیشن تھیوری کا مذاق اڑایا لیکن برادر اسلامی ممالک ایران اور بنگلہ دیش نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ پیشہ کے اعتبار سے مالتھس پادری تھا‘ اس کا کہنا تھا کہ آبادی عمومی طور پر غذائی اجناس اور مواد کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے اور جب آبادی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو قدرت تصحیح کرنے کے لیے اور توازن بحال کرنے کے لیے آفات بھیجتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر غربت اور آفات سے بچنا ہے تو دورِ حاضر کے پاپولیشن کنٹرول کے طریقے اپنائیے۔ ایران اور بنگلہ دیش کو اس بات کی سمجھ آ گئی ہے مگر ہم ہیں کہ نورِ نظر اور لختِ جگر پیدا کیے جا رہے ہیں۔
آج اگر ہماری آبادی دس فیصد کم ہوتی تو ہم نسبتاً خوشحال ملک ہوتے۔ بے روزگاری کم ہوتی۔ ہمارے سکولوں پر بوجھ کم ہوتا۔ ہمارے لوگ زیادہ صحت مند ہوتے۔ آج کے پاکستان میں چالیس فیصد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں‘ لہٰذا ان کا قد طبعی قد سے پست رہے گا‘ ذہانت بھی طبعی ذہانت سے کم رہے گی۔
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ریاکاری چھوڑ کر حقیقی مسلمان بن جائیں ؟کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی اقلیتوں کی ویسی ہی حفاظت کریں جو ہمارے دستور کا وعدہ ہے۔ ہمارے ہاں انٹرنیشنل لیول کا معیارِ تعلیم کب آئے گا؟ اور خدارا اس آبادی کے جن کو بوتل میں بند کریں ورنہ یہ ہمیں کھا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved