تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     31-10-2022

جرائم کا خاتمہ

ڈھولن قصور کا ایک قصبہ ہے جس کی آبادی تقریباً بیس سے پچیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس قصبے کے لوگوں کی بڑی تعداد کھیتی باڑی کرتی اور کئی لوگ تجارت کے ذریعے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ڈھولن کے لوگوں کا طرزِ زندگی سادہ ہے۔ یہاں کے لوگ مذہب سے محبت کرنے والے ہیں۔ ڈھولن میں مساجدنمازوں کے وقت آباد رہتی ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کا ذوق رکھتی ہے۔ یہ قصبہ امن اور بھائی چارے کی تصویر ہے اور لوگ دکھ درد میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ لیکن جمعہ کے روز ہونے والے ایک واقعے نے ڈھولن کے لوگوں کو غم کی کیفیت میں مبتلا کر دیا اور علاقے کے بزرگ،نوجوان اور خواتین میں خوف وہراس کی ایک کیفیت پیدا ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ایک دس سالہ بچے کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کرکے اس کی لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ بچے کو چھری کے وار سے قتل کیا گیا تھا۔ بچے کی لاش دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی اور حساس دلوںپر یاسیت اور دکھ کی گہری کیفیت طاری ہو گئی۔ اس قصبے میں پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں ایک قسم کے واقعات گاہے گاہے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ قصور ہی کے قصبے حسین خانوالہ میں کچھ عرصہ قبل اس قسم کے واقعات وقفے وقفے سے رونما ہو رہے ہیں۔ حسین خانوالہ میں کچھ عرصہ قبل بڑے پیمانے پر ہونے والی زیادتی اور بلیک ویب کے کاروبار کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اس خبر نے پنجاب سمیت پورے ملک میں غم وغصہ اور اضطراب کی لہر پیدا کر دی تھی۔قصور شہر میں بھی ایک عرصہ قبل ایک معصوم بچی زینب کے ساتھ درندگی اور زیادتی کا واقعہ رونما ہوا تھا‘ جبکہ اس سے قبل بھی اس علاقے میں کچھ ایسے ہی واقعات پیش آ چکے تھے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل حجرہ شاہ مقیم میں بھی ایک بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ مجھے اس موقع پر دکھی خاندان سے ملاقات کا موقع میسر آیا تو میں نے بچی کی والدہ کو شدید غم سے نڈھال پایا۔ وہ اس ظلم کی وجہ سے آنسوں اور سسکیوں میں ڈوبی ہوئی اور انصاف کی طلبگار تھیں۔
زیادتی کے ان واقعات پر قابو پانے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے تین اہم نکات پر توجہ دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
1۔ صحت مند ماحول: گھریلو سطح پر صحت مند ماحول فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ کئی گھروں کاماحول اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ جہاں پر اجنبیوں کی بچوں تک رسائی ہوتی ہے اور کئی مرتبہ خاندان کے قریبی لوگ اور بچوں کے درمیان اختلاط اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ جنسی استحصال اور زیادتیوں کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کو اچھا ماحول فراہم کرنا چاہیے اور اجنبی اور بڑی عمر کے لوگوں تک ان کی رسائی کو ممکنہ حد تک روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے مشاغل پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کے معمولات کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
2۔ تعلیم وتربیت: والدین اور اساتذہ کو اچھا ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام بھی کرنا ہے۔ بچوں کی دینی تربیت کا اہتمام ازحد ضروری ہے اور بچوں کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ اسلام عفت، عصمت اور حیا کا درس دیتا ہے‘ انتہائی اہم ہے۔ جب بچے بلوغت کے قریب ہو جائیں تو ان کو بے حیائی اور بے راہ روی کی قباحتوں سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ والدین کی چاہیے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ زنا کاری، بے حیائی اور قوم لوط جیسے افعالِ شنیع کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو نگاہوں کو جھکانے کا حکم دینا اور اپنی بچیوں کو پردے کا اہتمام کرانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھا رشتہ میسر آجانے پر بروقت ان کی شادیاں کر دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ کئی والدین اپنے بچوں کو حیا داری کا درس نہیں دیتے نہ ہی بچیوں کے پردے کا اہتمام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے حیائی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور معاشرے میں جرائم پنپنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گھروں میں بے حیائی پر مبنی فلموں اور غیر اخلاقی ڈراموں کی یلغار کے ساتھ ساتھ موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والے غلط پروگراموں نے بھی ایسے جرائم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تعلیم وتربیت کے حوالے سے والدین اور اساتذہ کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور درسگاہوں میں بھی غیر اخلاقی حرکتیں کرنے والے بچوں کے کردار پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع ملنے پر فوراً سے پہلے بچے کے والدین کو اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے۔
3۔ جرم وسزا کا مؤثر نظام: جرائم کی روک تھام کے لیے جرم وسزا کا مؤثر نظام بھی انتہائی ضروری ہے۔ کئی مرتبہ جرائم کی روک تھام کے لیے سزا کا نفاذ ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں غیر شادی شدہ زنا کاروں کے لیے 100 کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے جبکہ احادیث مبارکہ میں شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم لوط کے واقعے کو کلام حمید کے متعدد مقامات پر بیان کرکے اس بات کو واضح کیا ہے کہ وہ لوگ جو اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہیں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو قصۂ پارینہ اور نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل قومی اسمبلی میں بچوں سے برائی کاارتکاب کرکے انہیں قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس قرار داد پر تمام جماعتوں نے اتفاق بھی کیا تھا لیکن تاحال اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
احادیث مبارکہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کے احتساب کے حوالے سے نہایت واضح رہنمائی ملتی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہو گئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں (کیونکہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا اور صحرا میں انہیں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
2۔سنن ابو داؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنویں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپﷺ نے اس یہودی کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے‘ جس پر اسے رجم کر دیا گیا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔
نبی کریمﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خلفائے راشدینؓ نے بھی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو کڑی سزائیں دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اس حوالے سے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ کے عہد میں رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اصیل نامی ایک لڑکے کو دھوکے سے (یمن کے علاقے صنعاء میں)قتل کر دیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سارے اہلِ صنعاء (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کردہ روایت میں کہا کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کیا تھا تو (حضرت عمرؓ نے ان سب کو قتل کی سزا سنائی اور بعض افراد کے ایک قتل پر چار لوگوں کو سزائے موت کے فیصلے پر اعتراض کرنے پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات فرمائی تھی۔
مذکورہ بالا واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خطرناک جرائم کرنے والے لوگ کسی رورعایت کے حقدار نہیں ہیں اور ان کو جرائم کے ارتکاب کی صورت میں کڑی سزائیں ملنی چاہئیں۔ اگر حکمران اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے معاشرہ جرائم سے پاک ہو کر ایک صحت مند معاشرے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ملکِ عزیز کو جرائم سے پاک کر دے اور معاشرے کے تمام طبقات کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved