اس مہینے کی سب سے خاص بات وزیر ِ اعظم کا نیویارک کا پہلا دورہ ہو گا۔ وہ یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ایک وفد کی قیادت کررہے ہوںگے۔ صدر اوباما بھی اس اجلاس میں شرکت کریںگے۔ اس موقع پر نوا ز شریف اور اوباما کی ملاقات متوقع ہے؛ تاہم یہ ملاقات محض رسمی ہو گی، اس سے کسی ٹھوس نتیجے کی توقع کرنا عبث ہو گا۔ ان کے ارد گرد ہر عمر، نسل ، رنگ اور قوم کی خواتین اور مرد اپنے کاموں میں مصروف چکر کاٹ رہے ہوںگے ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سرکاری وفود کے شرکا ایک دوسرے سے ملاقات کریںگے جبکہ سربراہانِ مملکت اور وزرائے اعظم بھی یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے ساتھ رسمی گفتگو کریںگے۔ میں اکثر یواین کے اجلاس کوبے سری موسیقی کا ہوٹل قرار دیتی ہوں۔ اڑسٹھ سال پہلے، جب سے اس کا آغاز ہوا، اس کا ہر سال ستمبر میں اجلاس ہوتا ہے۔ تمام رکن ممالک کے رہنما نیویارک میں جمع ہوتے ہیں اور دنیا کے طاقتور ترین شخص، امریکی صدر کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ۔۔۔ اور یہ 2012 تھا کہ صدر اوباما آئے اور اپنا خطاب کرنے کے بعد چپ چاپ روانہ ہو گئے۔ اُنھوں نے کسی رہنما سے ملاقات نہ کی۔ اس پر عالمی رہنما بہت پریشان ہوئے۔ سب سے زیادہ مایوس اسرائیلی وزیر ِ اعظم نیتن یاہو تھے۔ بھلا ان کے بعد زیادہ پریشان کون ہوگا؟ اندازہ لگائیے۔۔۔ مصر کے محمدمرسی۔ اگرچہ پریشانی میں دوسری پوزیشن کے لیے ہمارے صدر زرداری بھی کوالی فائی کرتے تھے۔ اُس اجلاس میںجن صاحب کو سب سے زیادہ میڈیا کوریج ملی، وہ بھلا کون تھے؟چلیں میں آپ کو مزید سوچنے پر مجبور نہیں کرتی… وہ ایرانی صدر احمدی نژاد تھے۔ ان کے خطاب نے امریکی عوام کو بہت اذیت دی کیونکہ اُنھوںنے بہت کھلے الفاظ میں امریکہ اور ا س کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے امریکہ کو ’’مغرور اور متکبر ‘‘ قرار دیا۔ اس خطاب کے نتیجے میں امریکی وفد نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ایرانی صدر امریکہ کے یواین میں اثر ورسوخ کو خاطر میں نہ لائے۔ ادھر کئی عشروںسے پاکستانی رہنمائوں کی یواین اجلاسوں میں کی گئی تقاریر بے جان ہوتی ہیں۔ ہمارے رہنما دفتر خارجہ کے افسران کی لکھی ہوئی تقریر، جس میں ’’کشمیریوں کی حق ِ خود ارادیت، انسانی حقوق، غربت کا خاتمہ، ترقی اور خودمختاری‘‘جیسے الفاظ بکثرت ہوتے ہیں، پڑھ دیتے ہیں۔ ہاںیاد آیا، معافی چاہتی ہوں، جب سے زرداری صاحب کادور شروع ہوا، تقریر میں دو الفاظ کااضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔۔۔ ’’دہشت گردی اور میری شہید بیوی‘‘۔ وہ اپنے ساتھ اپنی شہید بیوی کا پورٹریٹ لانا نہیں بھولتے۔ چار سال پہلے جب آصف زرداری بطور صدر پہلی مرتبہ یہاں آئے تو اُن کی بہت سی باتیں اخبارات کی ہیڈلائن بنیں۔ یہ وہی موقع تھا جب اُنھوںنے سارا پالن سے کہا تھا: ’’آپ اپنی تصویر سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں‘‘۔ اس وقت ان کے ساتھ وزیر ِ اطلاعات شیری رحمان بھی تھیں اوراُنھوںنے اپنے صدر کے غیرسنجیدہ انداز سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سارا پالن کی پرکشش شخصیت کی اس طرح تعریف کی جیسے وہ ان کی بچپن کی دوست ہو۔ مجھے نواز شریف کے سابق دورِ اقتدار کے واقعات بھی یاد ہیں کہ کس طرح وہ اپنے وزرا اور احباب کے لیے مہنگی لیموزین گاڑیاں حاصل کرتے تھے۔ اُن کا قیام نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ جب وہ سب شیروانیاں زیب تن کرکے اکٹھے باہر نکلتے تو ایسا لگتا جیسے کسی برفانی علاقے میں پنگوئین قطار در قطار چل رہے ہیں۔ وہاں قیام و طعام اور سیر و تفریح پربے اندازہ خرچ ہوتا تھا لیکن غریب ممالک کے سنگدل حکمران ہر سال یہاں ایسی ہی بے حسی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے اس سال نواز شریف کچھ سمجھ داری کا مظاہرہ کریںگے کیونکہ اُنہیں اپنے ملک کے معاشی حالات کا علم ہے۔ کیا اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ہر سال ہمارے حکمران یواین کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور ان اخراجات کے عوض وہ حاصل کیا کرتے ہیں؟یقینا ہمیں علم ہونا چاہیے کہ یہ عوامی رہنما عوام کو کتنے مہنگے پڑتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جنرل (ر) مشرف کے پاس اب بھی ایک تصویر ہوگی جس میں صدر بش ان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے یقین دلا رہے تھے: ’’ہم قریبی دوست ہیں اور امریکہ ہر حال میں پاکستان کا ساتھ دے گا۔‘‘ اس تصویر پر 2001ء کی تاریخ درج ہوگی۔ آج مشرف کہاں ہیں؟جس شخص نے قوم کو این آر او کے عذاب میں مبتلا کیا، اس نے یواین کی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’تیسری دنیا کا سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ ان کے حکمران اور ان کے حواری، اپنی ملکی دولت لوٹتے ہیں اور پھر وہ دولت سمیٹ کر مغربی ممالک کی محفوظ جنت میں چلے جاتے ہیں۔ میں اس فورم کے ذریعے تمام ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بدعنوانی کے ذریعے چرائی اور چھپائی ہوئی رقم کی بازیابی کے لیے قانون سازی کریں اور ایسے افراد کے خلاف تحقیقات میں معاونت کریں تاکہ ان کی لوٹی ہوئی دولت ان کے ملک کو واپس کی جا سکے ۔‘‘سبحان اﷲ! حد ہوتی ہے دروغ گوئی اور دہرے رویے کی! بے نظیر بھٹو کا وفد بھی بہت بڑا ہوتا تھا اور اس میں بہت سے غیر ضروری افراد شامل ہوتے تھے لیکن ان کا خطاب اور اجلاس میں موجودگی بہت باوقار ہوتی تھی۔ جب وہ یواین کے برآمدوںمیں چلتی تھیں تو دیکھنے والے بے ساختہ رک جاتے تھے۔ امریکی میڈیا ان کے گن گاتا لیکن سبز لباس اور سفید دوپٹے میں ملبوس اُس خاتون نے کبھی یہ جتانے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر ِ اعظم ہیں۔ 1994ء میں وہ اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیرِاعظم اسحاق رابن کی توجہ کا مرکز بنیں ۔ اُنھوںنے انہیں غزہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی لیکن محترمہ نے انکار کردیا کیونکہ غزہ کے دورے کے لیے اسرائیلی سکیورٹی حکام سے کلیرنس لینا ہوتی تھی جو اُنہیں گوارہ نہ تھی۔ اس پر اسرائیلی وزیر ِ اعظم نے چیں بجبیں ہوتے ہوئے کہا: ’’آپ کو سفارتی آداب سیکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔ دونوںکے درمیان اجلاس کے درمیان بھی تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا جو امریکی میڈیا کی شہ سرخی بنا۔ پندرہ دسمبر 1971ء کو ہونے والے یواین کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کے جوشیلے خطاب کو کون بھول سکتا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے پاکستان سقوط ِ ڈھاکہ کے المیے سے گزرا تھا۔ اُس وقت پی ٹی وی نے وہ خطاب براہ راست نشر کیا اورجنگ کی اذیت جھیلنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے دیکھا کہ کس طرح بھٹو صاحب بھارتی وفد کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ اُنھوںنے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میں بزدل نہیں ہوں، میںنے زندگی میںکبھی بزدلی نہیں دکھائی۔ مجھ پر قاتلانہ حملے کیے گئے ہیں، میں نے جیل کاٹی ہے لیکن میںکبھی میدان سے بھاگا نہیںہوں۔ میںنے ہمیشہ بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔ آج میں تمہاری سکیورٹی کونسل سے نکل رہاہوں، میں بائیکاٹ نہیں کررہا، میں اس سے نکل رہاہوں۔ میں یہاں ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرنا چاہتا، میراوطن مجھے بلا رہا ہے۔ میں واپس جائوں گا، ہم جنگ کریںگے، ہم مل کر جنگ کریںگے۔ میں یہاں وقت ضائع کیوں کروں؟میں اپنے وطن کے ہتھیار ڈالنے میں فریق نہیں بنوں گا۔ سنبھالواپنی سکیورٹی کونسل(یہ کہہ کر بھٹو کاغذات پھاڑ دیتے ہیں) میں جارہا ہوں‘‘۔ آج پاکستان ایک مرتبہ پھر بہت سے مصائب میں گھرا ہوا ہے اور آج پاکستان کو ایک اور جوشیلے خطاب کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved