انسان کبھی پتھر کے دور میں زندگی بسر کرتا تھا۔ کئی زمانوں کے گزرنے پر دھاتوں کا زمانہ آیا۔ اس کے بعد جب انسان نے باضابطہ گھر بناکر رہنا شروع کیا تب کھیتی باڑی کا دور شروع ہوا۔ جب انسان نے کھیتی باڑی میں کئی زمانے گزار لیے تب تھوڑی بہت ہنر مندی کی بدولت صنعتی دور شروع ہوا۔ اِس کے بعد علم و فن کا دور شروع ہوا جو اب تک چل رہا ہے۔ ہاں‘ اب کچھ اور زمانے بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ انسان نے ہزاروں سال کے ارتقائی عمل میں مختلف النوع تجربات کیے۔ زندگی کو آسان تر بنانے کی تگ و دَو ہر دور کے انسان نے کی ہے۔ بیسیوں زمانوں کی بھرپور تگ و دَو نے جو بھرپور کیفیت پیدا کی آج ہم اُس کا پھل کھارہے ہیں۔
آج کا انسان بیک وقت کئی زمانوں میں زندگی بسر کرنے کی بدولت آسانیوں سے سرفراز ہے اور بعض معاملات میں پریشانیوں اور پیچیدگیوں سے خطرناک حد تک دوچار بھی۔ یہ بھی قدرت ہی کا دیا ہوا نظام ہے کہ ہمیں بعض معاملات میں رعایت ملتی ہے اور بعض امور میں معمولی سی بھی رعایت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ وقت کا جبر سب کے لیے ہے۔ فطرت کے معاملے میں سب برابر ہیں۔ فطرت سے رحم کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہاں‘ قدرت سے کی جاسکتی ہے۔ زندگی کے کئی پہلو ہیں جن میں سے دو بہت نمایاں ہیں۔ ایک معاشرتی اور دوسرا معاشی۔ دونوں ہی پہلوؤں کا تعلق اجتماعیت سے ہے۔ معاشی معاملات کی پیچیدگی ہمیں کہیں سکون سے نہیں رہنے دیتی۔ ہر معاشی الجھن اجتماعی تفاعل کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ بہت سوں کی کاوشیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو کسی کے لیے آسانی اور کسی کے لیے الجھن پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان نے زر کے زمانے میں جینا شروع کیا تب زندگی آسان ہوئی۔ یہ دور زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے افراطِ زر کا زمانہ آگیا جو اب تک چل رہا ہے۔ افراطِ زر کے زمانے میں جینا ہمارے لیے بہت سے حوالوں سے سوہانِ روح ثابت ہوا ہے۔ انسان نے جو کچھ ڈھائی‘ تین ہزار سال کے دوران سیکھا وہ سب کا سب ایک پلیٹ فارم پر آکر ہمارے کام آرہا ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے فطری علوم و فنون کی۔ انسان نے جو کچھ فطرت کے بارے میں جانا تھا وہ اب کئی گنا ہوکر ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوسکتا ہے وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ ایسی چیزیں ایجاد اور دریافت کی جاچکی ہیں کہ عقل کو دنگ کردیتی ہیں۔ طرفہ تماشا اور حقیقی مشکل یہ ہے کہ زندگی کو آسان بنانے والی چیزوں نے زندگی کو انتہائی مشکل بھی بنادیا ہے۔
اکیسویں صدی نے انسان کو بہت کچھ دیا مگر جو کچھ دیا ہے وہ محض مادّیت کی سطح پر رہا۔ دوسری طرف گزری ہوئی صدی نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے اور جو چھینا ہے وہ تہذیب و تمدن اور اخلاق کی سطح پر ہے۔ جن اخلاقی اور تہذیبی اقدار کو انسان نے ہزاروں سال کے عمل میں پروان چڑھایا تھا وہ سب کی سب داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہر عہد کی خالص دانش نے انسان کو مادّہ پرستی کی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کی تحریک دینے کی کوشش کی ہے۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک اہلِ دانش کی بھرپور کوشش تھی کہ انسان مادّہ پرستی کے سیلاب میں نہ بہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ دنیا کسی بھی اعتبار سے دل لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ جو لوگ کسی ''ذہین منصوبہ ساز‘‘ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے تھے وہ بھی اِتنا ضرور جانتے تھے کہ زندگی جیسی حقیقت اس لیے نہیں کہ زیادہ سے زیادہ کمایا جائے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے۔ زندگی کے حقیقی بلند معیار کے حوالے سے سوچنے والوں نے ہر عہد میں بہت سوچا اور لکھا ہے۔ آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ گزری ہوئی صدیوں میں اہلِ دانش نے اس نکتے پر ہمیشہ زور دیا کہ خالص مادّہ پرستی انسان کو سُکھ نہیں دے سکتی۔ زندگی اس لیے نہیں ہے کہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ کے حصول کے بارے میں سوچا جائے اور بہت زیادہ خرچ کرنے کی فکر لاحق رہے۔ کوئی بھی انسان صرف اور صرف کمانے کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کا وجود خرچ کرتے رہنے کے لیے ہوتا ہے۔ زندگی کو معیاری بنانے اور بلند کرنے کے لیے معاشی تگ و دَو سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جن معاشروں نے کبھی مذہب پر زیادہ یقین نہیں رکھا وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہب سے یکسر بے نیاز ہوکر خالص مادّہ پرستی کو اپنانا زندگی بسر کرنے کا کوئی معقول طریق نہیں۔ انسان صرف ظاہر کا نام نہیں‘ اُس کا باطن بھی ہوتا ہے۔ خالص غیر جانبدارانہ سوچ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ محض فریبِ فکر و نظر ہے۔ فکر و نظر کا معاملہ بھی سیاق و سباق کے بغیر نہیں ہوتا۔ ہر تصور کسی نہ کسی معاملے سے وابستہ ہوتا ہے۔ معاملات کو سمجھے بغیر متعلقہ سوچ کو بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔
اکیسویں صدی نے انسان پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا کہ سب کچھ کنزیومر اِزم کی چوکھٹ پر ڈھیر کردیا گیا۔ کنزیومر اِزم یعنی ہر معاملے کو خالص منافع کے نقطۂ نظر سے دیکھنا۔ انسان نے ہزاروں برس کے ارتقائی عمل میں جن اقدار کو پروان چڑھایا وہ یوں داؤ پر لگیں کہ اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنا بھی جُرم سا محسوس ہونے لگا۔ اکیسویں صدی کی آمد تک ہر معاملے کو صرف اور صرف کاروباری یا تاجرانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے کے رجحان کی ابتدا ہوئی۔ کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی سطح سے بلند نہ ہو۔ اشتہارات کے ذریعے پورے کے پورے معاشرے کو محض کنزیومرز یعنی صارفین کے مجموعے میں تبدیل کرنے اور اِسی سطح پر ٹھہرے رہنے پر مجبور کرنے کی بھرپور کوشش خوب رنگ لائی ہے۔ آج کوئی بھی معاشرہ کنزیومر اِزم سے پوری طرح پاک نہیں۔ تیسری دنیا کے معاشروں میں خرابیاں زیادہ ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی بہت حد تک سلجھا ہوا ہے۔ خرچ وہ بھی بہت کرتا ہے؛ تاہم اس بات کو اہمیت دیتا ہے جو کچھ خرچ کیا جارہا ہے اُس سے زندگی کا معیار بلند ہو، مستقبل کے حوالے سے بہتر تیاری ممکن ہو۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں عام آدمی کی سوچ کنویں کے مینڈک کی سی ہے۔ وہ زیادہ دور تک سوچ نہیں پاتا۔ محض کمانے اور خرچ کرنے کے رجحان نے اُسے یوں گرفت میں لیا ہے کہ وہ کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہا۔ آج کم و بیش 90 فیصد معاشروں کے عوام کو یہ باور کرایا جاچکا ہے کہ زندگی صرف اس لیے ہے کہ خوب کماؤ اور خوب خرچ کرو۔ گویا جب تک دنیا میں قیام ہے تب تک دنیا ہی سب کچھ ہے، اِس سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی کنزیومر اِزم کی چوکھٹ پرجھکا ہوا ہے۔ صَرف کا رُجحان ہمیشہ غالب رہا ہے۔ ملک جب نو زائیدہ تھا تب بھی لوگ خرچ کرنے کے عادی تھے۔ ہمارے ہاں زندگی کے بارے میں عمومی طرزِ فکر ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کی سی ذہنیت کی عکاس رہی ہے۔ اب یہ معاملہ انتہا کو چھو رہا ہے۔ آج کا عام فرد یا تو بہت مشکل سے کچھ حاصل کر پارہا ہے یا پھر جو کچھ ہاتھ میں ہے اُسے تیزی سے ختم کر رہا ہے۔ لوگ دن رات صرف کمانے اور خرچ کرنے کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی جیسی نعمت کو سنگ دِلی سے برباد کرنے جیسا ہے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ زندگی کے حوالے سے یوں لاپروا ہو۔ ایسی لاپروائی قدرت کے عظیم عطیے کی صریح و دانستہ بے توقیری کے سوا کچھ نہیں۔ آج ہم افراطِ زر کے طلسمات میں کھوگئے ہیں۔ خالص مادّہ پرستی کی منزل سے آگے ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ آنکھوں پر محض کنزیومر اِزم کی پٹی بندھی ہو تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ عام شہری کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اشتہاری مہمات چلاکر اچھے خاصے انسان کو صارف میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آج عام شخص محض کمانے اور خرچ کرنے کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔ زندگی اِس سے بہت آگے کی منزل ہے۔ عام آدمی بہت کچھ بھول چکا ہے۔ اُسے یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے لیے سنجیدہ ہونا ہے، کچھ بننے کے بارے میں سوچنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved