مئی 2022ء میں جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے 157ویں نمبر پر ہے۔ اس عالمی فہرست میں پاکستان کا شمار انتہائی آخری نمبروں میں ہونا افسوس ناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا جاتا ہے۔ صحافتی خطرات کے باعث ارشد شریف ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر کینیا میں ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ ارشاد بھٹی اور معید پیر زادہ کے ملک چھوڑنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں صحافیوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں ہیں۔ صحافت ایک آئینہ ہے جس میں چہرہ دیکھ کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے مگر ہمارے جیسے معاشروں میں صحافتی آئینے میں چہرہ دیکھنے کے بجائے اسے توڑ دیا جاتا ہے۔ یہ خطرناک رجحان عوام تک آگاہی اور شعور کی فراہمی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں میڈیا اور صحافی برادری دباؤ میں رہتے ہیں‘ اگر ایک فریق کی بات کی جائے تو دوسرے کے ناراض ہونے کا احتمال ہوتا ہے‘ دوسرے کی بات کی جائے تو پہلا ناراض ہو جاتا ہے‘ اس کھینچا تانی میں بعض صحافی باقاعدہ فریق بن جاتے ہیں اور پھر مخصوص ایجنڈے پر صحافت کرنے لگتے ہیں۔ صحافت میں در آئے اس رجحان کی بھی مذمت کی جانی چاہیے۔ شہری علاقوں میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے واقعات تو کسی حد تک رپورٹ ہوتے رہے ہیں؛ تاہم قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے والے صحافی گم راہوں میں قربان ہو گئے۔ اس حوالے سے کوئی کمیشن بننا اور اہلِ خانہ کو معاوضہ ادا کرنا تو درکنار‘ اُن کی موت کے اصل حقائق بھی سامنے نہیں آ سکے۔ ملک چھوڑنے والے صحافیوں کے معاملے پر حکومت کو وضاحت دینی چاہیے کہ یہ صحافی اپنی مرضی سے جا رہے ہیں یا واقعی اب پاکستان میں صحافیوں کیلئے حالات سازگار نہیں رہے؟
دوسری طرف تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا‘ اب اس کے مظاہر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لانگ مارچ سے پہلے ارشد شریف شہید ہو گئے‘ لانگ مارچ ابھی اسلام آباد سے کوسوں دور ہے اورایک خاتون رپورٹر کنٹینر تلے آ کر جان کی بازی ہار چکی ہے۔ لانگ مارچ جب چند روز بعد اسلام آباد پہنچے گا تو مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔ ہمارے خدشات کی وجہ تحریک انصاف کے ماضی میں ہونے والے جلسے اور احتجاجی مارچ ہیں جن میں بدانتظامی دیکھی گئی۔ 2014ء کے آزادی مارچ نے پارلیمنٹ کے سامنے پڑاؤ ڈالا تھا جسے روزانہ دیکھنے کا موقع ملتا‘ بسا اوقات بدانتظامی اس قدر ہوتی کہ خان صاحب کو بھی غصہ آ جاتا۔ تحریک انصاف نے مگر اصلاح کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اب ایک بار پھر اگر وہی بدانتظامی دیکھی جا رہی ہے تو کم از کم میرے لیے تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف آٹھ برس پہلے جہاں کھڑی تھی‘ آج بھی وہیں کھڑی ہے۔
عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں نے بوٹ پالشیوں سے مذاکرات نہیں کرنے ہیں تو کیا خان صاحب بوٹ والوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟اگر خان صاحب کی یہی خواہش ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اسلام آباد سے پہلے پنڈی آتا ہے‘ خان صاحب کووہیں قیام کرنا چاہیے کیونکہ ان کے بقول جہاں ان کی شنوائی ہو سکتی ہے وہ وہیں بات کریں گے۔ خان کی اپنی تقریریں اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ غیر جمہوری حلقوں پر نہ صرف انحصار کر رہے ہیں بلکہ درپردہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خان صاحب نے اگلے روز اپنی تقریر میں کہا کہ اگر طاقتوروں نے سیاسی چوروں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم ساتھ نہیں ہیں۔
جہاں تک لانگ مارچ کے حوالے سے خان صاحب کی حکمت عملی کا سوال ہے تو ہم گزشتہ کالم میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ خان صاحب حالات کے مطابق لانگ مارچ کی حکمت عملی میں ردو بدل سکتے ہیں۔ اگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد لانگ مارچ میں شریک ہوتی ہے تو خان صاحب کا لہجہ جارحانہ ہو سکتا ہے۔حکومت موجودہ لانگ مارچ کے ریڈ زون میں داخل ہونے پر پابندی لگا چکی ہے‘ 25 مئی کے لانگ مارچ کے لیے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایف نائن پارک تک محدود رہنے کی مشروط اجازت دی تھی لیکن تحریک انصاف اس پابندی کو یقینی نہیں بنا سکی تھی۔ ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر جلاؤ گھیراؤ کے واقعات دیکھنے کو ملے تھے۔ لانگ مارچ کے دوران کی جانے والی تقریروں میں بھی خان صاحب کے قول و فعل میں تضاد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کبھی وہ حصولِ اقتدار کے لیے مقتدرہ سے مداخلت کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر کہتے ہیں کہ انہیں مقتدرہ کی حمایت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شنید ہے کہ خان صاحب کے مقتدرہ مخالف بیانیے کی وجہ سے تحریک انصاف کے بیشتر رہنما پریشانی کا شکار ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو اداروں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں‘ وہ نہیں چاہتے کہ خان صاحب مقتدرہ کے خلاف مزید جارحانہ رویہ اپنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی سینئر قیادت دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے‘ ایک حصہ اُن پریشان الیکٹ ایبلز پر مشتمل ہے جنہیں 2018ء کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا اور انہی الیکٹ ایبلز نے تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بیشتر الیکٹ ایبلز تحریک انصاف چھوڑنے کے لیے پرتول رہے ہیں‘ مناسب وقت یا اشارہ ملتے ہی وہ تحریک انصاف سے راستے جدا کر لیں گے۔اور دوسرا حصہ اُن افراد پر مشتمل ہے جو خان صاحب کے مقتدرہ مخالف بیانیے کے حامی ہیں۔
اگر لانگ مارچ کے پہلے تین روز کے احوال کو سامنے رکھا جائے تو اسے قطعی طور پر غیر معمولی یا متاثر کن نہیں کہا جا سکتا ہے۔ خان صاحب پُرامید ہیں کہ خیبرپختونخوا سے آنیوالے قافلے لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد بڑھا دیں گے کیونکہ خیبرپختونخوا سے ہر ممبر صوبائی اسمبلی کو 3 ہزار افراد اپنے ساتھ لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ پشاور‘ کوہاٹ‘ مہمند‘ خیبر اور باجوڑ کے قافلے رشکئی انٹرچینج پر جمع ہو کر پرویز خٹک کی قیادت میں اسلام آباد آئیں گے جبکہ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ڈیرہ اسماعیل خان سے قافلے اسلام آباد آئیں گے۔ خیبرپختونخوا کی حد تک تحریک انصاف کی جانب سے ایسی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ مختلف رہنماؤں کی قیادت میں یکے بعد دیگرے قافلے اسلام آباد کی طرف آئیں تاکہ اگر ایک قافلے کو روکا جائے تو دوسرا قافلہ حکمت عملی تبدیل کرکے لانگ مارچ میں شرکت یقینی بنائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اسلام آباد اور پنڈی پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ خان صاحب نے لانگ مارچ کی کامیابی کا انحصار خیبرپختونخوا سے آنیوالے قافلوں پر کیا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں جس کا اندازہ مالاکنڈ میں ہونیوالے جرگہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جرگے نے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان پر شدید تنقید کی ہے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے تیور دیکھتے ہوئے لانگ مارچ کا اختتام اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔کسی بھی قسم کے ناخوشگوار حالات سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved